Thursday, 28 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Oslo Ke Do Din

    Oslo Ke Do Din

    نوری سنڈ اوسلو شہر سے سوا گھنٹے کی مسافت پر ہے، یہ چھوٹا سا گاؤں برف پوش پہاڑوں کے سائے میں آباد ہے، ناروے یورپ کا آخری ملک ہے، یہ ملک رسی کے ساتھ بندھے ناریل کی طرح ہے، اڑھائی ہزار کلو میٹر لمبا اور آخر میں ناریل کی طرح گول۔ آپ اگر اسے نقشے پر دیکھیں تو یہ آپ کو رسی کی طرح باریک اور لمبا دکھائی دے گا، یہ آخر میں اوسلو پہنچے گا اور اوسلو ناریل کی طرح لمبوترا شہر ہے، یہ سرد ملک ہے، میں جمعہ کی دوپہراوسلو پہنچا، اوسلو کے اسلامک کلچرل سینٹر نے سالانہ ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور میں اس ڈنر میں مدعو تھے، میں جمعہ کی نماز سے قبل اوسلو پہنچ گیا۔

    اسلامک سینٹر کے شاہ حسین دیگر احباب کے ساتھ ائیر پورٹ پر موجود تھے، ہم سیدھے اسلامک سینٹر پہنچے، جمعہ کی نماز ادا کی، اسلامک سینٹر کے امام مولانا محبوب کی زیارت ہوئی، یہ خوشگوار اور مہربانی شخصیت ہیں، اوسلو بنیادی طور پر میرے علاقے اور برادری کا شہر ہے، اس شہر کے زیادہ تر پاکستانی تحصیل کھاریاں اور ضلع گجرات سے تعلق رکھتے ہیں، یہ رشتے میں میرے انکل، بھائی، کزن اور بھتیجے ہیں، میرے دوستوں کی اچھی خاصی تعداد بھی یہاں موجود ہے، میں نے 1997ء میں یورپ کا پہلا سفر کیا تھا اور اوسلو اس پہلے سفر کی پہلی منزل تھی، اس سفر کے دوران زاہد اسلم اور جہانگیر صاحب سے تعلق پیدا ہوا، یہ تعلق آج تک قائم ہے، اس شہر میں میرے قریبی دوست جہانزیب بھی رہتے ہیں اور نوجوان کزن صبا بھی۔

    ان لوگوں نے مجھے مسجد سے دبوچ لیا، میں جہانزیب اور صبا کے ساتھ نوری سنڈ آ گیا، نوری سنڈ ونٹر اسپورٹس کا مرکز ہے، یہاں سردیوں میں دس دس فٹ برف پڑتی ہے، لوگ اسکیٹنگ کے لیے یہاں آتے ہیں، چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ پر جاتے ہیں، وہاں سے برف پر پھسلتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور دوبارہ چیئر لفٹ پر بیٹھ کر اوپر چلے جاتے ہیں، نوری سنڈ میں درجنوں جھیلیں ہیں، ناروے کی طویل ترین جھیل مجوسا ہے، یہ بھی نوری سنڈ کو چھو کر گزرتی ہے، برف پوش پہاڑ ہیں۔

    پہاڑوں کی اترائی پر گھنے جنگل ہیں اور جنگلوں کے آخر میں جھیل بلکہ جھیلیں ہیں، برف ابھی تک موجود تھی، برف پگھل بھی رہی تھی اور پگھلی ہوئی برف سروں کے ساتھ وادیوں میں بھی گونج رہی تھی، ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ پانی کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا، یہ پرانے زمانے میں علاقے کا اسپتال تھا، اسپتال کے مالک نے مقامی خاتون سے شادی کر لی، وہ شادی کے تھوڑے عرصے بعد انتقال کر گیا، بیوہ نے اسپتال فروخت کر دیا، نئے خریداروں نے اسپتال کو ہوٹل میں تبدیل کر دیا، نوری سنڈ کے ہوٹل موٹل اور ہٹس کا مجموعہ ہوتے ہیں، ایک مرکزی عمارت ہوتی ہے۔

    اس کے بعد جنگل اور جھیل کے کنارے ہٹس ہوتے ہیں، یہ ہوٹل بھی موٹل اور ہٹس کا مجموعہ تھا، ڈائننگ ہال جھیل کی طرف کھلتا تھا، پانی کے کنارے بھی کرسیاں اور میزیں لگی تھیں، سردیوں کا سیزن ختم ہو چکا تھا جب کہ گرمیوں کا سیزن ابھی شروع نہیں ہوا تھا چنانچہ ہم اس ہوٹل کے واحد مہمان تھے اور ہوٹل کا مالک ہماری خدمت کر رہا تھا، جمعہ کی شام ہم نے طویل واک کی، سڑک پربھی ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی، پہاڑ پر دور دور تک ہٹس اور سمر ہاؤسز بنے ہوئے تھے، ناروے کی آبادی بمشکل 15 لاکھ ہے، حکومت امیر لیکن کنجوس ہے، ٹیکس زیادہ ہیں لیکن حکومت شہریوں کو ریٹرن میں بہت کچھ دیتی ہے، لوگ خوشحال ہیں چنانچہ یہ ایک گھر شہر میں بناتے ہیں اور دوسرا پہاڑوں میں۔

    دوسرا گھر سمر ہاؤس ہوتا ہے، یہ لوگ چھٹیوں میں اس گھر میں شفٹ ہو جاتے ہیں، تیراکی کرتے ہیں، پہاڑوں میں نکل جاتے ہیں یا پھر جنگلوں میں گم ہو جاتے ہیں لہٰذا آپ ناروے کے کسی علاقے میں نکل جائیں آپ کو وہاں سمر ہٹس ملیں گے، نوری سنڈ میں بھی سمر ہٹس تھے، پہاڑ پر بیوٹی ریزارٹ کے نام سے انتہائی خوبصورت اور کوزی ہوٹل تھا، یہ اس علاقے کا خوبصورت ترین مقام ہے، ہم رات کو وہاں چلے گئے، ہوٹل کے چاروں اطراف برف پڑی تھی لیکن ہوٹل کے اندر کی فضا گرم تھی، ہم اگلے دن دوبارہ بیوٹی ریزارٹ گئے تو اس کا دن اس کی رات سے زیادہ خوبصورت تھا، شام کے وقت ہلکی ہلکی برف باری شروع ہو گئی، اس نے منظر کو مزید رومانوی بنا دیا۔

    ہفتے کا دن بھی خوشگوار تھا، ہم نوری سنڈ کے اوپن چڑیا گھر میں گئے، ناروے کے ریچھ اور ایلک دیکھے، ایلک گدھے جیسا جانور ہوتا ہے لیکن اس کے سر پر بارہ سنگھے جیسے سینگھ ہوتے ہیں، یہ ناروے کا مشہور لیکن بے وقوف ترین جانور ہے، یہ ناروے کے زیادہ تر حادثوں کا باعث بنتا ہے، ہم واپسی پر تھوڑی دیر کے لیے دریمن بھی رکے۔

    دریمن اوسلو کی بغل میں ایک خوبصورت شہر ہے، اس شہر میں پہاڑ کے اندر دو کلو میٹر لمبی سرنگ ہے، یہ سرنگ پہاڑ کے اندر دامن سے چوٹی کی طرف جاتی ہے، یہ سرنگ ہزار سال قبل بحری قزاقوں نے تعمیر کی تھی، یہ اس زمانے میں گوروں کے بحری جہاز لوٹتے تھے، سامان اس سرنگ میں چھپاتے تھے اور پہاڑ کے اندر سفر کرتے ہوئے چوٹی پر پہنچ جاتے تھے، برطانوی جہاز ران ان کا پیچھا کرتے تھے، تو یہ چوٹی سے ان پر پتھر برساتے تھے، یہ سرنگ بھی انسانی ہاتھوں کا معجزہ ہے، آپ جوں ہی اس میں سفر کرتے ہیں، آپ بنانے والوں کی محنت اور وژن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے، سرنگ کے آخر میں چوٹی ہے اور آپ چوٹی پر کھڑے ہو کر پورے شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں، آپ کو وہاں سے سمندر بھی نظر آتا ہے۔

    دریمن ایک خوبصورت اور صاف ستھرا شہر ہے، آبادی 35 ہزار ہے لیکن شہر کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے، آپ کو دور دور تک لکڑی کے گھر، سرخ چھتیں اور پہاڑوں کی اترائیوں پر جنگل نظر آتے ہیں، آپ کو سمندر اور دریا بھی نظر آتا ہے۔

    ہم ہفتے کی شام اوسلو واپس آ گئے، ناروے میں سورج بہت تاخیر سے غروب ہوتا ہے، آپ رات گیارہ بارہ بجے بھی روشنی دیکھتے ہیں، ملک میں ایک ایسا پوائنٹ بھی ہے جہاں 20 جون سے 20 جولائی کے درمیان سورج غروب نہیں ہوتا، آپ کے سامنے سورج اپنا سفر مکمل کرتا ہے، ڈوبتا ہے اور چند سیکنڈ بعد دوبارہ نکل آتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اگر مہلت عنایت کی تو میں ان گرمیوں میں انشاء اللہ نارتھ پول کے اس مقام پر جاؤں گا، اوسلو شہر بڑی تیزی سے ڈویلپ ہو رہا ہے۔

    میں 1997ء میں پہلی بار اوسلو آیا، اوسلو اس وقت یورپ کا گاؤں دکھائی دیتا تھا، شام سات بجے شہر سنسان ہو جاتا تھا، لوگ کھڑکیوں کے پردے کھینچ کر سو جاتے تھے، سورج رات کے بارہ بجے غروب ہوتا تھا، میں رات دس گیارہ بجے باہر نکلتا تھا تو دھوپ اس وقت بڑی مشکل سے چھتوں تک پہنچتی تھی لیکن شہر سائیں سائیں کر رہا ہوتا تھا، میں دوسری بار 2009ء میں آیا، شہر میں اس وقت ہلہ گلہ دکھائی دے رہا تھا لیکن یہ شہر اس بار خاصی حد تک تبدیل ہو چکا ہے، ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ کافی شاپس کھل چکی تھیں اور لوگ رات گئے ان کافی شاپس پر نظر آتے تھے، نیا اوپرا ہاؤس بن چکا تھا، یہ عمارت خوبصورت بھی ہے اور مقامی اور غیر مقامی لوگوں کی تفریح کا مقام خاص بھی۔

    آپ دور سے دیکھیں تو یہ عمارت سمندر میں تیرتا ہوا بحری جہاز دکھائی دیتی ہے، آپ قریب آئیں تو یہ کافی شاپ، ریستوران اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کا "ڈیٹ پوائنٹ" بن جاتی ہے۔

    شہر میں نئے شاپنگ سینٹر بھی بن چکے ہیں، پارکس بھی اور واکنگ ٹریک بھی۔ اوسلو کی یونیورسٹی دنیا کی دو سو بڑی یونیورسٹیوں میں شامل ہو چکی ہے، ملکی اور غیر ملکی طالب علموں کے لیے تعلیم فری ہے، آپ یونیورسٹی میں داخلہ لیں، آپ کی فیس معاف ہو جائے گی، بس کھانے، پینے اور رہائش کی رقم ادا کرنی پڑے گی، آپ کی پرفارمنس اچھی ہوئی تو بورڈنگ اور کھانے پینے کی رقم کی چھوٹ بھی مل جائے گی، لوگ بہت شائستہ اور مہذب ہیں، یہ اپنے کام سے غرض رکھتے ہیں، یہ کسی کو تنگ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو تنگ کرنے دیتے ہیں، ملک میں 36ہزار پاکستانی ہیں، اوسلو کے زیادہ تر پاکستانی ٹیکسی چلاتے ہیں، یہ پاکستانیوں کے لیے اچھا کاروبار ہے، ٹیکسی کے کرائے زیادہ ہیں، آپ اگر روزانہ چندگھنٹے کام کر لیں تو آپ کا ٹھیک ٹھاک گزارہ ہو جاتاہے، زاہد اسلم ٹیکسی ڈرائیوروں کو "ٹرانسپورٹر" کہتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے "ٹیکسی ڈرائیور" میں بے عزتی محسوس ہوتی ہے چنانچہ ہم نے اپنا نام ٹرانسپورٹر رکھ لیا ہے، یہ لوگ دو تین گھنٹے کام کرتے ہیں اور جوں ہی "دیہاڑی" لگ جاتی ہے، یہ ٹیکسی بند کر کے روز مرہ کے کام شروع کر دیتے ہیں، اوسلو شہر میں بے شمار "الیکٹرک کاریں " پھر رہی ہیں، ناروے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں یورپ کے دوسرے ملکوں سے بہت آگے نکل گیا ہے، یہ کاریں خوبصورت بھی ہیں، آرام دہ بھی اور کم خرچ بھی۔ آپ گاڑی کو بجلی پر چارج کریں اور چلائیں، نہ پٹرول کا خرچ اور نہ ہی موبل آئل اور فلٹر کی تبدیلی کا مسئلہ۔

    آپ کو سڑکوں پر بے شمار الیکٹرک کاریں دکھائی دیتی ہیں، حکومت نے اس رجحان کی ترویج کے لیے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ٹیکس فری کر دی ہیں، ان کی پارکنگ بھی فری ہے اور یہ ٹول ٹیکس سے بھی مبریٰ ہیں، دنیا کی تمام بڑی کار ساز فیکٹریاں دھڑا دھڑ الیکٹرک کاریں بنا رہی ہیں اور ناروے کے لوگ یہ کاریں خرید رہے ہیں، یہ کاریں آرام، سہولت اور رفتار میں دوسری کاروں سے بہتر ہیں۔

    ناروے کا اسلامک کلچرل سینٹر خوبصورت بھی ہے، صاف ستھرا بھی اور متحرک بھی۔ یہ سینٹر آج سے چالیس سال قبل بنا، اس زمانے میں مسلمان کرائے کی جگہ پر نماز ادا کرتے تھے، مخیر حضرات آگے آئے اور 75 ملین کراؤن سے یہ خوبصورت سینٹر بن گیا، یہ سینٹر پاکستانی اور اسلامی سرگرمیوں کا مرکز ہے، ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں، سینٹر کی قیادت ایماندار، مہذب اور متحرک لوگوں کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ پاکستان میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔

    یہ ناروے پہنچے تو انھوں نے یہ سینٹر بنا لیا، یہ پڑھے لکھے اور وژنری لوگ ہیں، میں ان کا نظم و ضبط، برداشت اور انتظام دیکھ کر حیران رہ گیا، یہ سینٹر مسجد ہے لیکن روایتی مسجد دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کے وضو خانے صاف ہیں، جوتے رکھنے کی جگہ بھی اور صفیں بھی۔

    مولانا محبوب سینٹر کے امام ہیں، ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے اور آنکھوں میں شرارتی بچے جیسی چمک۔ آپ ان سے ملتے ہیں تو یہ آپ کو اپنے اپنے سے دکھائی دیتے ہیں، آپ بے اختیار ان سے گلے ملنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، مولانا محبوب اور یہ اسلامک سینٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم دکھائی دیتے ہیں۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.