Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Our Phir Hum, Hum Na Rahe

Our Phir Hum, Hum Na Rahe

ہمارے ملک کے شمالی علاقوں میں پہاڑوں کے درمیان جنگل، جھیلیں اور بڑی بڑی چٹانیں ہیں جب کہ شمالی ناروے میں جنگل، چٹانوں اور جھیلوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں سمندر بھی ہے، ناروے پہاڑی ملک ہے، یہاں آٹھ ہزار فٹ اونچے پہاڑ ہیں، اسے اٹلانٹک اوشین نے اپنی گود میں لے رکھا ہے، ٹھنڈے سمندر کا یخ پانی پہاڑوں کے اندر تک گھس آیا ہے، یہ خشکی پر سمندری پانی کی شاخیں ہیں۔

یہ پانی پہاڑوں کے اندر سے ہو کر سمندر سے آ ملتا ہے، سمندر کی ان شاخوں کو "فیوڈ" کہا جاتا ہے اور ناروے "فیوڈز" کا ملک ہے، دنیا کا سب سے خوبصورت فیوڈ "گائی رینگر" بھی ناروے میں ہے، یہ مغرب میں واقع ہے، یونیسکو نے اسے 2005ء میں عالمی ورثہ ڈکلیئر کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ اگر آپ کو گائی رینگر جانے کا موقع دے تو آپ اس کی خوبصورتی دیکھ کر اللہ کی صناعی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے، آپ کے چاروں اطراف سیدھے، اونچے برف پوش پہاڑ ہوں گے، پہاڑوں کے اوپر سے پانی کی درجنوں آبشاریں اور جھرنے نیچے گر رہے ہوں گے، پہاڑوں کے قدموں میں سمندر ہوگا اور آپ اس سمندر میں بحری جہاز کے عرشے پر کھڑے ہوں گے، آپ اس منظر کی خوبصورتی کا تصور نہیں کر سکتے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو اگر کبھی یہ موقع عنایت کیا تو آپ سجدہ شکر بجا لانا نہ بھولیے گا کیونکہ ایسے مناظر آنکھوں کی عبادت ہوتے ہیں اور ایسی عبادت اللہ تعالیٰ خوش نصیبوں کو نصیب کرتا ہے، یہ فیوڈز پورے ناروے میں ہیں، میں اور جہانزیب دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے بدھ کی شام قطب شمالی پر اینڈ آف دی ورلڈ پر پہنچے، ہم گلوب کو ہاتھ لگانے کے بعد کافی شاپ میں بیٹھ گئے، ہمارے پاس اب تین آپشن تھے، ہم قطب شمالی کی برفوں میں قدم رکھ دیتے اور سردی سے انتقال فرما جاتے، دوسرا ہم واپسی کا سفر شروع کر دیتے، ہونگ وئوگ واپس جاتے، بحری جہاز میں بیٹھتے، تھرمسو واپس آتے، وہاں سے فیری یا گاڑی لیتے اور ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے "بودو" پہنچتے اور وہاں سے فلائیٹ لے کر اوسلو آ جاتے۔

یہ تین چار دن کا سفر تھا اور تین ہم فلائیٹ لیتے، اوسلو جاتے، وہاں سے گاڑی لیتے اور فلوم اور برگن سے ہوتے ہوئے گائی رینگر فیوڈ چلے جاتے، ہم نے تیسرا آپشن لے لیا، میرے دوست اور بڑے بھائی مجید صاحب بھی اوسلو پہنچ چکے تھے، مخدوم عباس بھی سویڈن سے ناروے آنے کے لیے تیار تھے چنانچہ ہم دونوں اوسلو کے لیے روانہ ہو گئے، آلٹا قطب شمالی سے قریب ترین شہر تھا، یہ ناروے کا ائیر بیس ہے، روس کی سرحد کے قریب واقع ہے اور یہ "اینڈ آف دی ورلڈ" سے تین گھنٹے کی ڈرائیو کی دوری پر ہے، ہم آلٹا کے لیے روانہ ہوگئے۔

ہمارے چاروں اطراف برف سے ڈھکے پہاڑ تھے، پہاڑوں سے نکلتے جھرنے اور آبشاریں تھیں، ندیاں، جھیلیں اور دریا تھے اور ان کے آخر میں سمندر تھا، ہمارے لیے یہ تمیز کرنا انتہائی مشکل تھا کہ جھیل کہاں سے شروع ہوتی ہے اور سمندر کہاں ختم ہوتا ہے، جھیلیں سمندر لگتی تھیں اور سمندر جھیل۔ ناروے جغرافیائی اور زمینی لحاظ سے مشکل ترین ملک ہے، یہ ملک آج سے چالیس پچاس سال قبل تک چھوٹے چھوٹے جزیروں اور چھوٹی چھوٹی جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم تھا لیکن آج نارویجن حکومت نے پہاڑوں، سمندر اور جھیلوں کے نیچے تیس تیس کلو میٹر لمبی سرنگیں کھود کر پورے ملک کو آپس میں جوڑ دیا ہے، آپ آج ناروے میں کسی جگہ جانا چاہیں آپ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا سکتے ہیں۔

آپ کے سامنے پہاڑ آئے گا تو اس پہاڑ کے اندر غار ہو گا اور اس غار میں سڑک ہوگی، آپ سمندر کے قریب پہنچیں گے تو سمندر کے نیچے پانی کی تہہ میں سرنگ ہوگی اور اس سرنگ میں سڑک ہوگی اور آپ اگر جھیل کے کنارے پہنچ گئے ہیں تو آپ کے سامنے بحری جہاز کھڑا ہو گا، آپ گاڑی بحری جہاز میں لے جائیں گے اور یہ بحری جہاز آپ کو دس منٹ میں دوسرے کنارے پر اتار دے گا، ناروے میں 900 ٹنلز اور 82 بڑے پل ہیں، ان ٹنلز اور پلوں نے پورے ملک کو جوڑ رکھا ہے اور ہم ان ٹنلز اور ان پلوں سے ہوتے ہوئے رات گیارہ بجے آلٹا شہر پہنچ گئے اور لوگ سونے کے لیے بستروں میں گھس چکے ہیں، ہم نے بڑی مشکل سے ہوٹل تلاش کیا، صبح ساڑھے سات بجے ہماری فلائیٹ تھی۔

ہم صبح ساڑھے دس بجے اوسلو پہنچے، جہانزیب نے گاڑی لی، ہم نے مجید صاحب کو اٹھایا اور ہمارا قطب شمالی سے مخالف سمت میں سفر شروع ہو گیا، ہم فلومز بانا جا رہے تھے، فلومز بانا اوسلو سے چار گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے، راستے میں "لیلا ہیمر" کا شہر آیا، یہ شہر سردیوں کی سپورٹس کے لیے مشہور ہے، شہر میں ملک کا دوسرا بڑا سکیٹنگ اسٹیڈیم ہے، آپ چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر جاتے ہیں، وہاں سے ایک سو بیس کلو میٹر کی رفتار سے برف پر پھسلتے ہوئے نیچے آ جاتے ہیں۔

اسٹیڈیم میں نیچے سے اوپر تک اڑھائی ہزار سیڑھیاں ہیں، ہم تینوں چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچے او ر وہاں سے نیچے آئے، روزے کی حالت میں ٹانگوں پر کھڑا ہونا مشکل تھا، مجید صاحب 27 گھنٹے کا روزہ رکھ کر پاکستان سے ناروے پہنچے تھے۔ ناروے نے مختلف خوبصورت علاقوں کو "نیشنل ٹوریسٹ روٹ" قرار دے رکھا ہے، ان روٹس پر سیاحوں کے لیے تمام سہولتیں موجود ہیں، ہم فلوم جانے کے لیے ایک ایسے ہی "ٹوریسٹ روٹ" پر چل پڑے، یہ حیران کن روٹ تھا، پہاڑ کی چوٹیاں تھیں، جولائی کا وسط تھا لیکن وہاں گلیشیئر اور برف کی موٹی موٹی تہیں تھیں، پگھلتی ہوئی برفوں کی ناف سے آبشاریں نکل رہی تھیں۔

یہ آبشاریں نیلی جھیلوں میں گر رہی تھیں اور نیلی جھیلوں پر سفید پرندے اڑ رہے تھے، یہ مناظر صرف مناظر نہیں تھے، یہ ایک فل سکوپ فلم تھی، یہ سیکڑوں میل لمبی، اونچی اور چوڑی پینٹنگ تھی جس میں ہم تین زندہ انسان متحرک نقطوں کی طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے، وہ دن میری زندگی کی ساری تپسیاں، ساری محنتوں اور مشقتوں کا حاصل تھا، وہ ان تمام رت جگوں اور رگڑے ہوئے گھنٹوں کا انعام تھا جو میں نے زندگی کی سخت اور کھردری زمین کو رواں بنانے کے لیے گزارے تھے۔

پہاڑ کی چوٹی پر ایک اداس آبشار نے میرے دل کے سارے ٹوٹے تار جو ڑ دیے اور میری روح میں سوئے ہوئے وہ تمام مردہ راگ جاگ اٹھے جنہیں میں نے زندگی کی تلخ مٹی میں دفن کر دیا تھا، میں اس آبشار اور اس آبشار کے بطن سے نکلی جھیل کے کنارے بیٹھ گیا اور پھر میں صدیوں تک وہاں بیٹھا رہا، قدیم کتابوں میں لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کے جس جس گوشے کی مٹی لے کر حضرت آدم ؑ کو بنایا تھا نسل آدم وہاں وہاں ضرور پہنچے گی، شاید میری مٹی میں اس آبشار کے ٹھنڈے پانی شامل تھے کیونکہ مجھے جتنا سکون اس جگہ ملا وہ دنیا کے کسی کونے میں نصیب نہیں ہوا، اس آبشار سے آگے "اورلینڈ" کا گائوں تھا۔

یہ گاؤں سطح سمندر سے چار ہزار فٹ کی بلندی پر تھا، اس کے ایک کونے میں دنیا کا شاندار ترین منظر تھا، دنیا بھر سے ہر سال ہزاروں فوٹوگرافرتصویر یں بنانے کے لیے یہاں آتے ہیں، اس مقام سے پہاڑیوں کے تین سلسلے، دور گہرائی میں "فیوڈ" اور لینڈ کا قصبہ اور پہاڑوں کے دامن میں پناہ لیتا سورج نظر آتا ہے، آپ اس مقام سے سورج کے تبدیل ہوتے رنگ بھی دیکھ سکتے ہیں اور دھند میں لپٹے سمندر کے سرمئی پانیوں میں سورج کی گھلتی ہوئی کرنیں بھی۔ یہ مقام اور اس مقام کے مناظر واقعی "لائف ٹائم" تجربہ تھے، ہم "اورلینڈ" سے فلومزبانا پہنچ گئے، فلوم اس وقت تک سوچکا تھا۔

شہر میں سناٹا تھا اور ہم تھے، ہم نے رات کے بارہ بجے ہوٹل کیسے تلاش کیا، کھانے کا بندوبست کیسے کیا، یہ بھی ایک الگ کہانی ہے، نارویجن حکومت نے1940ء میں فلومز بانا میں ریل کی پٹڑی بچھائی تھی، اس پٹڑی پر ٹرین 60 کے زاویے پر پہاڑوں کی انتہائی بلندی تک جاتی ہے، ٹرین کے دونوں اطراف وادیاں ہیں، ان وادیوں میں چھوٹے چھوٹے گائوں ہیں، بھیڑیں ہیں، گائے ہیں اور سکون ہے، ہم اگلی صبح گیارہ بجے اس ٹرین پر سوار ہو گئے، ٹرین آگے بڑھ رہی تھی اور سیاح تصویریں کھینچ رہے تھے، میں اس ٹرین پر دوسری بار سوار ہوا تھا، راستے میں ناروے کی ایک بڑی آبشار آتی ہے، اس آبشار پر پریوں کا رقص ہوتا ہے اور یہ ٹرین وہاں پانچ منٹ رک کر آگے بڑھ جاتی ہے۔

ٹرین گھنٹہ بھر چلتی رہی، آخری سٹیشن پر پہنچی اور پھر وہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوگیا، فلومز بانا کی یہ ٹرین ناروے کی ایک بڑی تفریحی ہے، برگن فلومز بانا سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، یہ اوسلو کے بعد ناروے کا دوسرا بڑا شہر ہے، ہم برلن کے لیے روانہ ہو گئے، سمندر پر آبادیہ شہر مچھلی کی بڑی مارکیٹ ہے، یہاں سے روزانہ ہزاروں من مچھلی دنیا کے مختلف ممالک میں جاتی ہے، مخدوم عباس سویڈن سے اسپین پہنچے اور وہاں سے فلائٹ لے کر برگن پہنچ گئے، ہم لوگوں نے انھیں ساتھ لیا، مچھلی خریدی اور "گائی رینگر" روانہ ہوگئے، گائی رینگر وہاں سے سات گھنٹے کی مسافت پر تھا، ہم نے رات راستے میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔

برگن سے تین گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ایک چھوٹا سا گائوں آیا، یہ گائوں میری زندگی کے خوبصورت ترین گائوں میں سے ایک تھا، پہاڑوں کے بلند سلسلے کے قدموں میں فیوڈ تھا، فیوڈ کے کنارے پر لکڑی کے دو، دو کمروں کے ہٹس تھے، ان ہٹس میں زندگی کی تمام ضروری سہولتیں موجود تھیں، ہم نے سمندر کے کنارے ایک ہٹ کرائے پر لے لیا، ہٹ کے مالک سے مچھلی تلنے کا سامان لیا اور سمندر کے کنارے"باربی کیو" شروع کر دیا۔

ہم رات کے ایک بجے ڈنر کررہے تھے، اوپر نیلا آسمان تھا، دائیں بائیں پہاڑ تھے، سامنے ٹھنڈا سمندر تھا اور جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں تک چیڑھ کے درخت تھے اور اونگھتے ہوئے سفید سمندری پرندے تھے اور اس خوبصورت پینٹنگ میں کوئلوں کا دھواں تھا اور تلی ہوئی سلومن، کورڈ اور ٹرائوٹ مچھلی کی مہک تھی اور ہماری زندگی کے کھوئے ہوئے بچھڑے ذائقے تھے۔ یہ پورا منظر تصویر بن کر میرے حافظے میں حفظ ہوگیا، یہ اسکرین سیور کی طرح دماغ کی اسکرین پر"سیو" ہو گیا اور میں اب جب بھی آنکھ بند کرتا ہوں یہ منظر الہام کی طرح دل و دماغ پر اتر آتا ہے اور میں اس منظر کی مستی میں جھومنے لگتا ہوں۔

ہماری اگلی اور آخری منزل گائی رینگر تھا، ہم اگلے دن وہاں سے روانہ ہوئے اور رات دس بجے گائی رینگر پہنچ گئے۔ ہم نے راستے میں ایک بار پھر نیشنل ٹوریسٹ روٹ لے لیا، یہ دوسرا روٹ تھا لیکن اس روٹ پر بھی درجنوں آبشاریں اور درجنوں جھیلیں تھیں، ہم ان جھیلوں اور آبشاروں سے گزرتے ہوئے گائی رینگر پہنچے تو دنیا کے اس ثقافتی ورثے نے ہماری نگاہیں اس طرح کھینچ لیں جس طرح مقناطیس لوہے کوکھینچتا ہے، ہم لوہے کے چھوٹے چھوٹے ذروں کی طرح اپنی اپنی ذات کی کھوکھلی ڈبیوں سے باہر نکلے اور اڑتے ہوئے گائی رینگر کے کروڑٹن بھاری مقناطیس سے چپک گئے ہم، ہم نہ رہے، گائی رینگر بن گئے، گائی رینگر فیوڈ۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.