Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pakistani Muashray Ki 14 Kharabian

Pakistani Muashray Ki 14 Kharabian

یہ اوکاڑہ کے پسماندہ گاؤں کے غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، غربت اور عسرت میں بچپن گزارہ، وظیفے لے کر ابتدائی تعلیم پائی، گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کی، میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، ڈاکٹر بنے، دس بائی دس فٹ کے کمرے سے عملی زندگی کا آغاز کیا، کمرے میں سیمنٹ کی بوریاں بھی ہوتی تھیں، کھاد کے تھیلے بھی اور ان کی چارپائی بھی۔ کمرے میں لیٹے لیٹے کاروبار کا فیصلہ کیا، یہ تیس برس تک مسلسل کام کرتے رہے، دن دیکھا نہ رات، دنیا کے تمام آرام، عیش اور آسائشیں اپنے لیے حرام قرار دے دیں، زندگی میں کبھی سگریٹ پیا، شراب کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی کسی قسم کی بدکاری کی۔

اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور یہ ملک کے بڑے بزنس مینوں میں شمار ہونے لگے، آج ان کی کمپنی میں تین ہزار لوگ ملازم ہیں، یہ دس کروڑ روپے ٹیکس دیتے ہیں، یہ کسی بینک کے ڈیفالٹر نہیں ہیں، ویلفیئر کے درجنوں منصوبے چلا رہے ہیں، دل کے کھلے ہیں، کسی ضرورت مند کو مایوس نہیں کرتے، دوستوں کے دوست ہیں، مذہبی بھی ہیں، درجنوں عمرے اور حج کر چکے ہیں، یہ خالص پاکستانی ہیں، زندگی میں جو کمایا پاکستان میں رکھا اور دنیا کے کسی کونے میں کوئی بینک اکاؤنٹ ہے اور نہ ہی زمین جائیداد۔

یہ میرے لیے ہمیشہ سورس آف انسپائریشن رہے، میں اگر کبھی مایوس ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا مگر میں نے انھیں کل پہلی بار مایوس دیکھا، ڈاکٹر صاحب نے کل میرے سامنے دو اعلان کیے، ان کا پہلا اعلان تھا "میں اب کام نہیں کروں گا، میں نے کمپنی کی گروتھ روک دی ہے، ہم اب کوئی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کر رہے، ہم بتدریج کام میں کمی لائیں گے، ملازمین کم کریں گے اور مسائل پیدا کرنے والے یونٹ بند کر دیں گے" ڈاکٹر صاحب نے دوسرا اعلان کیا " میں ملک سے باہر گھرتلاش کر رہا ہوں، میں خاندان کو ملک سے باہر شفٹ کر دوں گا، میں چھ ماہ ان کے ساتھ باہر رہوں گا اور چھ ماہ ملک میں رہوں گا، میں کوشش کروں گا میرے بچے ملک سے باہر ایڈجسٹ ہو جائیں، وہ وہاں کام کرلیں "۔

میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا " پاکستان میں کام کرنے والوں کو عزت نہیں دی جاتی، میں خاک سے اٹھا ہوں مگر آج تک کسی شخص نے میرے کندھے پر تھپکی نہیں دی، کسی نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا، کسی نے مجھے مبارک باد نہیں دی، حکومت ہو، معاشرہ ہو یا پھر خاندان ہو، ہر شخص نے مجھے تنگ کرنا، مجھے پریشان کرنا اور مجھے بے عزت کرنا اپنا فرض سمجھا، میں اب بے عزتی اور پریشانی سے تنگ آ گیا ہوں چنانچہ میں نے یہ دونوں فیصلے کر لیے"۔

ڈاکٹر صاحب واحد مثال نہیں ہیں، کراچی سے ایمریٹس ائیر لائین کی روزانہ چھ فلائٹس دوبئی جاتی ہیں، آپ دوسری ائیر لائینز کو بھی شامل کر لیں تو کل 12 فلائٹس روزانہ کراچی سے یو اے ای روانہ ہوتی ہیں، گویا کراچی شہر سے ہر دو گھنٹے بعد ایک فلائٹ متحدہ عرب امارات جاتی ہے، لاہور سے روزانہ 11 فلائٹس یو اے ای روانہ ہوتی ہیں اور اسلام آباد سے روزانہ چھ۔ آپ اس کے مقابلے میں کراچی سے لاہور اور اسلام آباد آنے والی فلائٹس کی تعداد دیکھ لیجیے، پی آئی اے اور ائیر بلیو کی کل 10 فلائٹس کراچی سے لاہور اور اسلام آباد روانہ ہوتی ہیں گویا دوبئی جانے والوں کی تعداد ملک کے اندر سفر کرنے والوں سے دوگنی ہے۔

اب سوال یہ ہے، یہ کون لوگ ہیں، یہ یقینا ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ ہیں، یہ اپنے بچے، اپنی کمپنیاں اور اپنے دفاتر دوبئی شفٹ کر چکے ہیں، ہمارے ملک کے اسی فیصد کروڑ پتی ملک سے باہر ٹھکانے بنا چکے ہیں، ہماری کابینہ کے نوے فیصد اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے پچانوے فیصد ارکان کی ملک سے باہر رہائش گاہیں، کاروبار، بچے اور اکائونٹس موجود ہیں، یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ اپنے ملک پر اعتماد کیوں نہیں کر رہے؟

اس کی وجہ ہمارے معاشرے کی 14 بڑی خرابیاں ہیں، ہم نے جس طرح 10 اگست کے کالم میں اپنے معاشرے کی 14 خوبیوں کا ذکر کیا ہم آج اسی طرح ان 14 خرابیوں کا تذکرہ کریں گے جو ڈاکٹر صاحب جیسے لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہیں، ہماری پہلی خرابی کامیاب لوگوں سے نفرت ہے، دنیا کامیاب لوگوں کی عزت کرتی ہے، امریکی بڑے فخر سے خود کو بل گیٹس کی قوم کہتے ہیں لیکن ہم ملک میں ترقی کرنے والے ہر شخص کی توہین کرتے ہیں، ہم اسے تنگ کرتے ہیں، آپ کے پاس دو لاکھ پائونڈ ہیں اور آپ اگر برطانیہ کو لکھ کر دے دیں آپ سال میں تین لوگوں کو نوکری دیں گے تو برطانیہ آپ کو خاندان سمیت امیگریشن دے دیتا ہے، آپ کو یہ سہولت پورا یورپ، امریکا اور کینیڈا بھی فراہم کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں تین تین ہزار ملازمین کی کمپنیاں چلانے اور دس دس کروڑ روپے ٹیکس دینے والے لوگ ذلیل ہو رہے ہیں، یہ لوگ ملک سے کچھ نہیں مانگتے، یہ صرف عزت کے طلب گار ہیں مگر کوئی شخص انھیں عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔

ہماری دوسری خرابی ملازمتی اپروچ ہے، ہم کاروبار کے بجائے ملازمت تلاش کرتے ہیں اور ملازمت بھی ایسی جس میں تنخواہ اور کرپشن زیادہ ہو اور کام نہ کرنا پڑے جب کہ قومیں بزنس مین اپروچ سے ترقی کرتی ہیں، امریکا، یورپ، چین اور بھارت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، امریکا کو امریکا اس کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بنایا تھا۔ ہماری تیسری خرابی ہنر کی کمی ہے، ہم بے ہنر لوگ ہیں، ہم ہنر سیکھنا توہین سمجھتے ہیں، آپ کو پورے شہر میں اچھا پلمبر، اچھا باورچی، اچھا الیکٹریشن، اچھا ڈرائیور اور اچھا سیکیورٹی گارڈ نہیں ملتا، آپ پوری زندگی مالی تلاش کرتے رہتے ہیں مگر آپ کو مالی نہیں ملتا۔ ہماری چوتھی خرابی مذہبی انتہا پسندی ہے، ہم نے مذہب کو انتہا پسندی کا مرکز بنا دیا، ملک میں درجنوں فرقے ہیں اور ہر فرقہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو کافر قرار دے رہا ہے اور اس اپروچ نے ملک کو دوزخ بنا دیا۔

پانچویں خرابی، ہم بے تربیت قوم ہیں، ہم نئی نسلوں کی سماجی تربیت نہیں کر رہے، ہمیں بولنے کی تمیز ہے، بیٹھنے کی، اٹھنے کی اور نہ ہی دوسرے سے ڈیل کرنے کی، ہمیں کام کرنے کی ٹریننگ بھی نہیں دی گئی، دکان کا ملازم دکان تباہ کر دیتا ہے اور فیکٹری کے ملازمین فیکٹری بند کرا دیتے ہیں، آپ ڈرائیور کو گاڑی دے دیں تو وہ اپنے رزق کے ذریعے کو برباد کردے گا، ہم جلسوں اور جلوس کے دوران وہ قومی املاک توڑ دیتے ہیں جو ہمارے ٹیکس کے ذریعے بڑی مشکل سے بنی تھیں، دنیا کے جس ملک میں پولیس کی گاڑی اور ایمبولینس کو آگ لگا دی جائے یا واپڈا کے دفتر پر حملہ ہو جائے اس ملک کی تباہی میں کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔

چھٹی خرابی، ہماری آبادی ہمارے وسائل اور ضرورت سے چھ گنا زیادہ ہے، یہ ملک صرف تین کروڑ لوگوں کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے، ہم انیس کروڑ ہیں لہٰذا ملک پندرہ سولہ کروڑ اضافی لوگوں کے لیے خوراک، تعلیم، روزگار، بجلی اور انصاف کا بندوبست کہاں سے کرے گا؟ آبادی کی وجہ سے چوری، چکاری، ڈاکہ زنی، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری صنعت اور کاروبار بن چکے ہیں۔ ساتویں خرابی، ہم نااہل ہیں، ہمارے ملک میں "آن جاب ٹریننگ" کا تصور تک نہیں، ہماری نوے فیصد آبادی ڈرائیونگ نہیں جانتی، پچاس سال سے اوپر اسی فیصد پڑھے لکھے لوگ کمپیوٹر نہیں جانتے، ایس ایم ایس نہیں کر سکتے اور ہمارے دفتر میں آج بھی سٹینو گرافرز اور کلرکوں کی جابز نکلتی ہیں۔

آٹھویں خرابی، ہم ہوم ورک یا تجزیہ نہیں کرتے، علامہ طاہر القادری اور عمران خان انقلاب لانا چاہتے ہیں مگر کیا یہ لوگ انقلاب کے بعد ملک کو سنبھال سکیں گے؟ اس پر ان کا کوئی ہوم ورک نہیں، 2020ء میں جب ہمارا پانی پچاس فیصد کم ہو جائے گا تو ہم کیا کریں گے؟ ہم نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا؟ ہم پہلے سڑک بناتے ہیں، پھر اسے انڈر پاس کے لیے توڑتے ہیں اور پھر انڈر پاسز کو توڑ کر میٹرو بس چلا دیتے ہیں اور آخر میں میٹرو ٹرین کے منصوبے شروع کر دیتے ہیں۔

نویں خرابی، ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، ہم آج بھی آمریت کے خوف تلے زندگی گزار رہے ہیں، ہماری حکومتیں اول دھاندلی کی پیداوار ہوتی ہیں اور یہ اگر ٹھیک ہوں تو ہم اس حکومت کو چلنے نہیں دیتے۔ دسویں خرابی، ہم میں برداشت کی کمی ہے، ہم دوسرے کا نقطہ نظر برداشت نہیں کرتے، ہم ہاتھ توڑ دیں گے، گردن اتار دیں گے اور کھال کھینچ لیں گے سے کم نہیں سوچتے، ہم پوری دنیا کو جلا دینا چاہتے ہیں۔ گیارہویں خرابی، ہم بری طرح لاقانونیت کا شکار ہیں، ملک میں قانون کوئی نہیں، آپ تگڑے ہیں تو آپ کو کوئی روکے گا نہیں اور آپ اگر کمزور ہیں تو آپ کو کوئی جانے نہیں دے گا، ہم قتل، اغواء، ڈاکے اور زنا بالجبر میں دنیا میں سب سے آگے ہیں۔

بارہویں خرابی، ہمارا فیملی سسٹم ٹھیک نہیں، ہم جوائنٹ فیملی سسٹم اور سنگل پرسن سسٹم کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں، ہم آج تک دونوں نظاموں میں سے کسی ایک کا فیصلہ نہیں کر سکے، پاکستان میں 60 فیصد مقدمات کی بنیاد خاندان ہوتا ہے۔ تیرہویں خرابی، ہم سماجی نرگسیت کا شکار ہیں، ہم بدترین زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم خواب پوری دنیا پر حکمرانی کے دیکھتے ہیں، دنیا میں کشکول لے کر پھرتے ہیں لیکن عزت کے طلب گار بھی ہیں اور ہم خود کو اس قدر اہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے پوری دنیا ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہے اور ہماری آخری چودھویں خرابی، ہم من حیث القوم سستی کا شکار ہیں، ہم آج کا کام کبھی آج ختم نہیں کریں گے، ہم چلتے ہوئے بھی یورپ اور امریکا کے شہریوں کی نسبت کم قدم اٹھاتے ہیں، امریکی شہری ایک منٹ میں اوسطاً پچاس قدم اٹھاتا ہے جب کہ ہم زیادہ سے زیادہ 35 قدم لیتے ہیں، ہمارے طالب علم گیس اور نقل کے بغیر امتحان پاس نہیں کر پاتے اور ہم آج کی نمازوں تک کو کل پر شفٹ کر دیتے ہیں۔

ہم میں 14خوبیاں ہیں لیکن ہماری خوبیاں ہماری خامیوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں، ہم جب تک ان خرابیوں کا پردہ چاک نہیں کریں گے، ہماری خوبیاں دنیا کے سامنے نہیں آئیں گی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.