Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pakistani Muashray Ki 14 Khoobian

Pakistani Muashray Ki 14 Khoobian

یہ ڈیلف کی دوسری شادی تھی۔ وہ جوان، خوبصورت، پڑھی لکھی اور مہذب تھی جب کہ اس کا خاوند گجرات کا ان پڑھ اور ادھیڑ عمر تھا، محمد اکرم اور ڈیلف کی عمروں میں بیس سال کا فرق تھا، ڈیلف تیس برس کی دہلیز پر بیٹھی تھی اور اکرم صاحب پچاس کی لکیر عبور کر چکے تھے، یہ دونوں ایمسٹرڈیم میں رہتے تھے، اکرم صاحب بیس سال کی عمر میں یورپ آئے، دھکے کھاتے ہالینڈ پہنچے اور یہاں کے ہو کر رہ گئے، یہ مزدور تھے، پوری زندگی مزدوری میں گزار دی، یہ ایک دن پھولوں کے فارم میں کام کر رہے تھے، فارم کا مالک ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا "کیا تم پاکستانی ہو" اکرم صاحب نے ہاں میں سر ہلا دیا، مالک نے اس کے بعد ان سے عجیب سوال کیا " کیا تم ہالینڈ کی خوبصورت لڑکی سے شادی کر لو گے" اکرم صاحب نے حیران ہو کر پوچھا "کیا مطلب" مالک نے جواب دیا " میری سالی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے، یہ کسی پاکستانی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے، میں صرف تمہیں جانتا ہوں چنانچہ میں نے تم سے پوچھ لیا"۔

اکرم صاحب رشتے کے اس عجیب و غریب پیغام پر حیران رہ گئے، مالک انھیں حیران دیکھ کر بولا " تم خاتون سے مل لو، اگر تمہیں پسند آئی تو تم اس سے شادی کر لینا " اکرم صاحب مان گئے، ملاقات ہوئی، اکرم صاحب کو خاتون پسند آ گئی اور شادی ہو گئی، خاتون نے اکرم صاحب کی زندگی کی سمت بدل دی، وہ فارم ہاؤس کے مزدور سے پھولوں کے بیوپاری بن گئے، میں 2005ء میں ایمسٹر ڈیم گیا، اکرم صاحب سے ملاقات ہوئی، وہ مجھے گھر لے گئے، ڈیلف سے ملاقات ہوئی، ڈیلف نے بتایا " یہ میری دوسری شادی ہے، میرا پہلا خاوند بھی پاکستانی تھا، میں نے 20 سال کی عمر میں اس سے شادی کی، ہم دس سال اکٹھے رہے، وہ بیچارہ حادثے میں ہلاک ہو گیا، میں نے اس کے بعد فیصلہ کیا میرا دوسرا خاوند بھی پاکستانی ہو گا"۔

میں بہت حیران ہوا، میں نے حیرت کا اظہار کیا تو ڈیلف نے عجیب وجہ بتائی، اس کا کہنا تھا "میں نے پاکستانیوں میں عجیب عادت دیکھی جو دوسری کسی کمیونٹی میں موجود نہیں، پاکستانی کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں، یہ سارا دن بیٹھے رہیں تو یہ سارا دن قہقہے لگاتے رہیں گے، میرا پہلا خاوند بھی اتنا ہی زندہ دل تھا اور میرا یہ خاوند بھی زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا ہے" میں ڈیلف کی بات پر حیران رہ گیا اور میں نے اس کے بعد پاکستانیوں کو ڈیلف کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا، ڈیلف کا مشاہدہ درست تھا۔

ہم لوگ واقعی کھل کر ہنسنے کے ماہر ہیں، ڈیلف سے ملاقات اور اس کا بتایا ہوا نقطہ میری اس ریسرچ کی بنیاد بن گیا، میں نے ریسرچ کی اور مجھے پاکستانیوں میں 14 حیران کن خوبیاں نظر آئیں، میں آج یہ خوبیاں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، آپ بھی یقینا کنٹینروں میں الجھے پھنسے اس ملک اور اس ملک کے 19 کروڑ مایوس لوگوں کی ان 14 خوبیوں پر حیران رہ جائینگے، یہ خوبیاں آپ کو دوسری اقوام میں کم ملیں گی۔ پاکستانیوں کی پہلی خوبی جمہوریت پسندی ہے، ہمارے لوگ جمہوریت سے محبت کرتے ہیں، یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آمریت کا دور زیادہ سے زیادہ دس سال ہوا ہے، جنرل خواہ ایوب خان ہو، یحییٰ خان، ضیاء الحق یا پھر پرویز مشرف ہو اس کو بہر حال آٹھ دس برسوں میں اپنا دسترخوان لپیٹنا پڑجاتا ہے اور وہ اقتدار سیاستدانوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جب بھی آمریت آئی، یہ تیس چالیس سال سے پہلے ختم نہیں ہوئی، آپ اٹلی سے لے کر اسپین اور شام سے لے کر مصر، لیبیا، عراق اور تیونس کی مثالیں دیکھ لیں آپ کو پاکستان ان سے مختلف لگے گا۔

دو، دنیا میں 58 اسلامی ممالک ہیں، ان 58 اسلامی ممالک میں سے صرف چار ملکوں میں صحیح معنوں میں جمہوریت ہے، ترکی، ملائیشیا، بنگلہ دیش اور پاکستان۔ ہمیں اپنی جمہوریت پر بیشمار تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے پاکستان میں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور عوام جیسے تیسے سہی اپنی مرضی سے حکمران بھی منتخب کرتے ہیں، ملک میں ون پارٹی سسٹم ہے اور نہ ہی " کنٹرولڈ ڈیموکریسی"۔ ہمارا ملک سیاسی لحاظ سے اس حد تک آزاد ہے کہ یہاں کوئی بھی پارٹی کسی بھی وقت پورا ملک بند کر سکتی ہے، علامہ طاہر القادری انقلاب لانے کے لیے کینیڈا سے تشریف لے آتے ہیں اور عمران خان آزادی مارچ کے ذریعے پورا ملک معطل کر دیتے ہیں اور کوئی انھیں روک نہیں سکتا، دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اتنی آزادی ممکن نہیں۔

تین، لوگ سیاسی لحاظ سے سمجھ دار ہیں، میں اس سلسلے میں دو سیاسی جماعتوں کی مثال دوں گا، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف، یہ دونوں نئی سیاسی جماعتیں ہیں، ن لیگ 6 اکتوبر 1993ء میں بنی اور پی ٹی آئی کے پاس 2002ء کی قومی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ تھی لیکن لوگوں نے ن لیگ کو دوبار ہیوی مینڈیٹ دیا، پی ٹی آئی بھی پنجابی پارٹی ہے لیکن اس پارٹی نے نہ صرف خیبر پختونخواہ میں حکومت بنا لی بلکہ اس نے تین صوبوں اور قومی اسمبلی میں بھاری نشستیں بھی حاصل کر لیں جب کہ ان کے مقابلے میں مقامی جماعتیں، قوم پرست پارٹیاں اور مذہبی سیاسی جماعتیں الیکشن ہار جاتی ہیں، لوگ علامہ طاہر القادری کے لیے جان دے دیتے ہیں لیکن یہ انھیں ووٹ نہیں دیتے، سندھی قوم پرست جماعتیں بھی پورا سندھ بند کرا دیتی ہیں لیکن یہ ووٹ نہیں لے پاتیں، جماعت اسلامی ملک کا سب سے بڑا جلسہ کر لے گی لیکن مینڈیٹ نہیں لے سکے گی اور طالبان ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں مگر ووٹ نہیں لے سکتے، کیا یہ عوام کی سیاسی بلوغت کی نشانی نہیں۔

چار، پاکستان کا بنیادی انفرا سٹرکچر، سڑکوں کا معیار، صفائی، مواصلاتی نظام اور سوک سینس سارک کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت اچھی ہے، ہماری سڑکیں یورپ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں لیکن یہ معیار میں ہمسایہ ممالک سے بہت آگے ہیں، پاکستان میں دنیا کا دوسرا بڑا نہری نظام بھی ہے، ہم آج بھی ایک سو53 سال پرانی ریل کی پٹڑی پر ٹرین چلا رہے ہیں اور ہمارا گندے سے گندا شخص بھی کھانا کھانے سے قبل ہاتھ ضرور دھوئے گا جب کہ سارک کے دیگر ممالک میں یہ روایت موجود نہیں۔

پانچ، لوگ پاکستان میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں، ملک کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بیس فیصد طالبعلم انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ کچی بستیوں تک میں پرائیویٹ انگریزی اسکول قائم ہیں، یہ حقائق عوام کی تعلیم پسندی ثابت کرتے ہیں جب کہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں یہ رجحان موجود نہیں۔

چھ، ہمارے ملک میں ایک شخص پورے خاندان کی ذمے داری اٹھا لیتا ہے، یہ اس ذمے داری کو مذہبی فریضہ سمجھ کر نبھاتا ہے، آپ کو یہ احساس ذمے داری دنیا کے دیگر ممالک میں نظر نہیں آتا۔ سات، ہم لوگ مہمان نواز ہیں، ہم لوگ کسی مہمان کو چائے اور کھانے کے بغیر نہیں جانے دیتے، ہم ادھار لے لیں گے مگر مہمان کو خاطر داری کے بغیر اٹھنے نہیں دینگے۔ آٹھ، ہم میں حس مزاح ہے، ہم ہنسنا جانتے ہیں، لوگ یورپ اور امریکا کے تعلیمی اداروں میں ہمارے طالبعلموں کو ٹولیوں میں بیٹھ کر ہنستے اور لوٹ پوٹ ہوتے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ نو، ہمارا میڈیا اور ہماری عدلیہ آزاد ہے، ہمارا میڈیا وہ کچھ دکھا دیتا ہے جس کا دوسرے ملکوں میں تصور نہیں کیا جاتا، ہماری عدالتیں بھی انصاف فراہم کریں یا نہ کریں لیکن یہ احکامات جاری کرنے میں مکمل آزاد ہیں، ہمارے جج کوئی بھی حکم جاری کر سکتے ہیں اور کوئی ان کا احتساب نہیں کر سکتا، یہ آزادی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں۔

دس، ہم لوگ صدقات اور خیرات میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں، ہم میں سے 98 فیصد لوگ صدقہ کرتے ہیں، ہم خیرات بھی دیتے ہیں، ہمارے دروازوں سے ضرورت مند خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے۔ گیارہ، ہم میں "لوک دانش" موجود ہے، آپ چٹے ان پڑھ لوگوں سے گفتگو کریں، آپ کو ان کی گفتگو میں محاورے بھی ملیں گے، ضرب المثل بھی، قصے بھی، واقعات بھی اور زندگی کے سبق بھی، ہمارے لوگوں کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے جب کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے لوگ کہنے کے معاملے میں بانجھ واقع ہوئے ہیں۔ یہ دو تین فقرے بولنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔ بارہ، ہمارے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، یہ نہ صرف برائیوں اور خرابیوں سے واقف ہیں بلکہ یہ ان کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں، آپ کسی شخص کے پاس بیٹھ جائیں وہ "ہم لوگ" کے فقروں سے گفتگو شروع کرے گا اور پھر پورے معاشرے کی خرابیاں بیان کر دیگا، میں نے یہ معاشرتی اعلیٰ ظرفی اور اعتراف جرم کسی دوسری قوم میں نہیں دیکھا، لوگ یہ معاشرتی برائیاں دور بھی کرنا چاہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے ہمارے لوگ ہر قسم کے احتجاج، مارچز، جلسے، جلوس اور ریلیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

تیرہ، ہم لوگ جی جان سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں، آپ کسی جگہ کھڑے ہو جائیں اور کسی گزرنے والے سے راستہ پوچھ لیں، وہ باقاعدہ رک کر نہ صرف آپ کو راستہ بتائے گا بلکہ وہ آپ کے ساتھ چل پڑیگا، لوگ دوسرے لوگوں کو راستہ بھی دیتے ہیں، خواتین اور بزرگوں کے لیے جگہ بھی خالی کر دیتے ہیں اور راستوں میں پانی اور دودھ کی سبیلیں بھی لگاتے ہیں، یورپ میں لوگ دوسروں سے صرف عادتاً پوچھتے ہیں " میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں " جب کہ ہمارے ملک میں لوگ حقیقتاً دوسروں کی مدد کرتے ہیں، یہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں زخمیوں کو اسپتال چھوڑ کر آتے ہیں، آگ لگنے کے بعد پورا محلہ مل کر آگ بجھاتا ہے اور زلزلے اور سیلابوں کے بعد پورے ملک سے امدادی قافلے چل پڑتے ہیں اور چودہ، پاکستان 19 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے، یہ دنیا کی ساتویں بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے، لوگوں کو یہاں سوئی سے لے کر جہاز تک درکار ہیں۔

پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے، آپ یہاں زہر بھی بیچنا چاہیں تو وہ بک جائے گا، ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود سبزی بازار سے خریدتے ہیں، گھر میں لان موجود ہوگا لیکن ہم اس سے آلو، پیاز اور لیموں حاصل کرنا توہین سمجھتے ہیں چنانچہ ہم انیسں کروڑ لوگ کنزیومر ہیں، دنیا میں کسی جگہ اتنی بڑی مارکیٹ موجود نہیں چنانچہ پاکستان میں صنعت، کاروبار اور تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں، حکومت بس کاروباری ماحول پیدا کر دے اور اس کے بعد ملک کی معیشت کو آسمان سے باتیں کرتا دیکھے۔

یہ پاکستانی معاشرے کے 14 خوبصورت رنگ ہیں، ہم شاندار لوگ ہیں بس ہمیں اپنی خوبیاں نظر نہیں آتیں، ہم نے جس دن ڈیلف کی طرح اپنی خوبیاں پا لیں، ہم نے اپنے رنگ دیکھ لیے، ہم اس دن ترقی کے راستے پر آ جائیں گے، ہم اس دن پاک سرزمین شاد باد بن جائیں گے، ہم اس دن پاکستانی ہو جائیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.