ہماری فلائٹ اسلام آباد سے لاہور "ڈائی ورٹ" ہو گئی، اسلام آباد میں بارش، آندھی اور طوفان تھا اور اسلام آباد دنیا کے ان چند دارالحکومتوں میں شمار ہوتا ہے جن میں بارش کے دوران لینڈنگ نہیں ہو سکتی، آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آندھی ہو، طوفان ہو، بارش ہو یا پھر برفباری ائیر پورٹس پر جہاز اترتے بھی ہیں اور وہاں سے اڑتے بھی ہیں مگر ایٹمی طاقت کے ایٹمی دارالحکومت میں یہ ممکن نہیں لہٰذا معمولی بارش کے بعد ائیر لائینز کا شیڈول تبدیل ہو جاتا ہے، فلائیٹس لاہور شفٹ کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد لاہور کا ائیر پورٹ بھی "چوک" ہو جاتا ہے۔
مسافر جہازوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں جب کہ مسافروں کو لینے کے لیے ائیر پورٹ پہنچنے والے لواحقین پریشانی کے عالم میں پارکنگ ایریا اور کوریڈورز میں خوار ہوتے رہتے ہیں، یہ کھیل برسوں سے جاری ہے اور ہر ہفتے دس دن بعد اسلام آباد میں اس قسم کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، اس صورتحال کا حل " آٹولینڈنگ سسٹم" ہے، یہ سسٹم ائیر پورٹس پر اترنے والے جہازوں کی رہنمائی کرتا ہے اور جہاز آندھیوں اور طوفانوں میں بھی ائیرپورٹس پر اتر جاتے ہیں، آج کے دور میں یہ سسٹم دو تین کروڑ روپے میں آ جاتا ہے مگر کیونکہ عام شہری کسی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں ہیں چنانچہ ملک کے کسی حکمران نے اس جانب توجہ نہیں دی اور اس عدم توجہ کی وجہ سے اسلام آباد کے فضائی مہمان برسوں سے خواری بھگت رہے ہیں۔
میں نے ایک بار ورلڈ بینک کی اس ٹیم کو لاہور ائیر پورٹ پر ذلیل ہوتے دیکھا جو پاکستان کو قرض دینے اسلام آباد آ رہی تھی، اسلام آباد سے فلائیٹ لاہور "ڈائی ورٹ" ہو گئی، یہ لوگ لاہور ائیرپورٹ پر پھنس گئے، ان کے پاس پاکستانی کرنسی نہیں تھی، ائیر پورٹ کے اندر ڈالر نہیں چل رہا تھا جب کہ لاؤنج میں " اے ٹی ایم" مشین بھی نہیں تھی، لاہور میں اس دن موبائل سروس بھی بند تھی لہٰذا وہ لوگ بے چارگی کے عالم میں کبھی اٹھتے تھے اور کبھی بیٹھ جاتے تھے، میں نے انھیں ناشتے کی پیش کش کی مگر شاید ان کے ادارے نے انھیں اجنبی پاکستانیوں سے پرہیز کا مشورہ دے رکھا تھا چنانچہ انھوں نے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھ کر معذرت کر لی، میں نے قہقہہ لگایا اور انھیں زبردستی کافی کے کپ پکڑا دیے، کافی پی کر انھیں حوصلہ ہوا اور وہ ناشتے پر رضا مند ہو گئے، میری ان سے گپ شپ شروع ہوئی تو میں ان کے سربراہ کو ائیر پورٹ منیجر کے دفتر لے گیا اور سرکاری فون سے ان کی فنانس منسٹری اور امریکن ایمبیسی میں بات کروادی۔
مجھے اس شخص کو لاؤنج سے منیجر کے دفتر لانے کے لیے جتنی جدوجہد کرنی پڑی یہ الگ داستان ہے، بہر حال قصہ مختصر فنانس منسٹری نے پنجاب حکومت سے درخواست کی، یوں ڈیڑھ گھنٹے بعد حکومت کا نمایندہ ان کی مدد کے لیے لاؤنج پہنچ گیا مگر یہ لوگ پاکستان کے بارے میں کیا تاثر لے کر گئے ہوں گے، یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، آپ بارش کے کسی موسم میں لاہور ائیر پورٹ چلے جائیں اور اسلام آباد جانے والے گوروں سے ملک کے بارے میں تاثرات سن لیں مجھے یقین ہے آپ کو شرم آجائے گی، حکومت شاید نندی پوری پاور پلانٹ کا مسئلہ حل نہ کر سکے کیونکہ اس میں لمبی چوڑی " کک بیکس" کے الزامات ہیں مگر میاں نواز شریف جو وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع بھی ہیں۔
یہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر آٹو لینڈنگ سسٹم لگانے کا حکم دے کر ہزاروں مسافروں کو خواری سے ضرور بچا سکتے ہیں، لاہور ائیر پورٹ پر بھی میاں نواز شریف نے ہی یہ سسٹم لگوایا تھا، وہ پچھلی حکومت میں اسلام آباد سے لاہور جا رہے تھے مگر ان کا طیارہ بارش کی وجہ سے لاہور لینڈ نہ کر سکا میاں صاحب نے حکم دیا اور ایک ہفتے میں لاہور میں آٹو لینڈنگ سسٹم لگ گیا، میاں صاحب اس بار اسلام آباد پر بھی مہربانی کر دیں کیونکہ اس سسٹم کی کمی کے باعث اسلام آباد میں مسافر بھی خوار ہوتے ہیں اور فضائی حادثے بھی ہوتے ہیں، ان حادثوں میں 28 جولائی2010ء کا ائیر بلیوکا حادثہ بھی شامل ہے جس میں 152 مسافر جاں بحق ہو گئے تھے، ائیر بلیو کے چیئرمین شاہد خاقان عباسی ہیں، یہ اس وقت پٹرولیم کے وزیر ہیں، یہ انتہائی پڑھے لکھے اور ذہین انسان ہیں، میاں صاحب اس معاملے میں ان سے بھی رہنمائی لے سکتے ہیں، یہ میاں صاحب کو لینڈنگ سسٹم کے بارے میں رائے دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں اس سال اللہ کا بہت کرم ہوا، بارشیں ہوئیں، ان کی وجہ سے جہاں لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوئی وہاں عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوگئی، بالخصوص لاہور بارش کے پانی میں ڈوب گیا، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، نارووال، کامونکی اور گجرات میں بھی بارشوں نے تباہی مچا دی، درجنوں دیہات زیر آب آ گئے اور سیکڑوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، ہم دنیا کی دلچسپ ترین قوم ہیں، ہم بارشوں کے موسم میں ڈوب کر مر جاتے ہیں اور عام دنوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے، ہم آج تک خشک سالی کا کوئی حل نکال سکے اور نہ ہی بارشوں اور سیلابوں کا، ہمارے ملک میں اپریل، مئی اور جون۔ اکتوبر، نومبر، دسمبر اور جنوری میں لوگ خشک سالی کی وجہ سے نقل مکانی کرتے ہیں اور حکومت ان کی مدد پر مجبور ہو جاتی ہے جب کہ جولائی، اگست اور ستمبر میں ہمارے چالیس اضلاع پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور ہم دنیا کے سامنے کشکول رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ہم دونوں قسم کی صورتحال کا کوئی حل تلاش کیوں نہیں کرتے، پیرس میں جنوری1910ء میں سیلاب آیا تھا جس سے فرانس کی معیشت کو ڈیڑھ بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، اس سیلاب کوایک سو تین سال گزر چکے ہیں، سیلاب اس کے بعد بھی آئے مگر فرانس نے پھر کسی سیلاب کو تباہی نہیں مچانے دی، اسے کوئی عمارت گرانے یا کسی کی جان لینے کا موقع نہیں دیا مگر ہم ہر سال ہزاروں لوگ مروا بیٹھتے ہیں اور خود کو دنیا کی ذہین ترین قوم بھی کہتے ہیں، کیا ہم عجیب لوگ نہیں ہیں؟ ہم آسانی سے یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں، ہم جھیلوں، تالابوں، جوہڑوں اور چھوٹے ڈیموں کے ماڈل کی طرف چلے جائیں، ہم ہر شہر میں جھیلیں بنوائیں، ہر بستی، ہر محلے اور ہر ٹاؤن میں جھیل ہو، دیہات میں تالاب ہوں اور ہر ضلع میں دو تین ڈیم ہوں، آپ ملک کے کسی پرانے گاؤں میں چلے جائیں آپ کو اس کے درمیان پانی کا تالاب یا جوہڑ ملے گا، یہ جوہڑ کس نے بنوایا؟ یہ جوہڑ انگریز دور میں حکومت نے بنوائے تھے، انگریزوں نے شہروں اور قصبوں میں بھی پانی کے تالاب، جھیلیں، پانی کی گزر گاہیں اور ڈیم بنوائے تھے۔
یہ بندوبست برساتوں میں دیہات اور شہروں کو ڈوبنے سے بچاتا تھا، آج بھی یورپ، امریکا اور افریقہ میں یہ ماڈل چل رہا ہے، اس ماڈل کے چار فوائد ہوتے ہیں، بارش اور سیلاب کا زور ٹوٹ جاتا ہے، یہ آبی ذخائر زیر زمین پانی کا لیول نہیں گرنے دیتے، ان کا پانی فصلوں، باغوں اور پارکوں کی آب پاشی کے کام آتا ہے اور چار یہ ذخائر دیہات اور شہروں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، اسلام آباد میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کے نام سے ایک ریئل اسٹیٹ فرم کام کر رہی ہے، اس فرم نے بی17 میں ایک ہاؤسنگ اسکیم بنا رکھی ہے، انھوں نے اس اسکیم میں ایک خوبصورت ڈیم بنایا، یہ ڈیم بارش کے پانی سے بھر جاتا ہے، اس ڈیم نے نہ صرف اسکیم کو خوبصورت بنا دیا بلکہ یہ اسکیم کی آبی ضرورت بھی پوری کر رہا ہے، یہ لوگ اگر پرائیویٹ فرم ہو کر یہ کام کر سکتے ہیں تو سی ڈی اے، ایل ڈی اے یا کے ڈی اے ملک کے بڑے شہروں میں اس قسم کے ڈیم یا آبی ذخائر کیوں نہیں بنا سکتیں، ہم لاہور کا پانی لاہور کی جھیلوں میں جمع کیوں نہیں کر سکتے؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب موجود ہے؟ ۔
ہماری حکومتوں کو جب بھی اس قسم کے مشورے دیے جاتے ہیں تو ہمارے سرکاری دفتروں کے بابو اس کے جواب میں بڑی دلچسپ دلیل دیتے ہیں، یہ کہتے ہیں کھڑا پانی بدبو پھیلاتا ہے، ہم اگر پانی کے تالاب بنائیں گے تو ان کی بدبو لوگوں کو رہنے نہیں دے گی، یہ درست ہے کھڑا پانی ماضی میں بدبو پھیلایا کرتا تھا یا پھر یہ ہمارے جیسے ملکوں میں بدبو میں پھیلاتا ہے مگر ترقی یافتہ قوموں نے اس کا حل نکال لیا ہے، یہ لوگ ہفتے میں ایک دن کھڑے پانی پر پھٹکڑی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں اور پانی کی بو غائب ہو جاتی ہے، ہم بھی پھٹکڑی استعمال کر سکتے ہیں اور یوں ہمارے تالابوں سے بو نہیں آئے گی، ہمارے بابو مچھروں اور مکھیوں کے ذریعے بھی حکومت کو ڈراتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کھڑے پانی میں مچھر پیدا ہوتے ہیں اور یہ مچھر آگے چل کر ڈینگی جیسے مہلک امراض کا ذریعہ بنتے ہیں، یہ اعتراض بھی درست ہے لیکن سوال یہ ہے اگر ہمارے سائنس دان، اگر ہمارے زرعی ماہرین مل کر مچھروں اور مکھیوں کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کر سکتے تو پھر ان اداروں اور ان سائنس دانوں کی کیاضرورت ہے؟ آپ زرعی ماہرین اور سائنس دانوں کو ہدایت دیں یہ گھاس کی کوئی ایسی قسم یا کوئی ایسا پودا دریافت کریں یا لیبارٹری میں پیدا کریں جس کی موجوگی مچھروں اور مکھیوں کو بھگا دے، یہ لوگ ایسے پودے ایجاد کریں، یہ پودے پانی کے تالابوں کے کنارے اگا دیے جائیں اور یوں یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا، مکھیاں، مچھر اور چوہے یورپ اور امریکا میں بھی تھے اور یہ وہاں ایسی بیماریاں بھی پھیلاتے تھے جن کے باعث کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے تھے۔
یورپ کا طاعون آج بھی تاریخ کا بدترین باب ہے مگر پھر ان قوموں نے اس کا علاج دریافت کرلیا، آج یورپ اور امریکا چوہوں سے بھی پاک ہے اور مکھی اور مچھر سے بھی اور اگر یہ ہیں بھی تو بھی یہ زیادہ مہلک نہیں ہیں، ہمارے ملک میں مکھیوں اور مچھروں کی بھر مار ہے مگر ہم نے آج تک ان کا کوئی سدباب نہیں کیا؟ ہم ڈینگی سے بچنے کے لیے پانی کے تالاب بند کر دیں گے، سوئمنگ پولز پر پابندی لگا دیں گے اور فوارے بند کر دیں گے مگر ہم مچھروں کا کوئی علاج دریافت نہیں کریں گے؟ ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم نے بارش جیسی رحمت کو بھی زحمت بنا دیا۔
ہمارے لاہور جیسے شہر پانی میں ڈوب جاتے ہیں مگر حمزہ شہباز شریف پانی میں چہل قدمی فرما کر، تصویر بنوا کر اور یہ تصویر اخبارات میں شایع کر کے اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں، یہ اس پانی کا کوئی حل نہیں نکالتے، یہ تالاب اور جھیلیں نہیں بنواتے، وہ جھیلیں اور تالاب جو زحمت کو رحمت بنا سکیں اور خلق خدا بھی اپنے نمایندوں کو دعا دے سکے، ملک بھی خوبصورت ہو سکے اور ملک کے لوگ بھی بارش کے موسموں میں اپنا بوریا بستر اٹھا کر پناہ گاہیں تلاش نہ کریں، یہ اہل یورپ کی طرح اپنی بالکونیوں میں بیٹھ کر ابر رحمت کا نظارہ کر سکیں، پتہ نہیں ہم قدرتی مسائل کا لانگ ٹرم سلوشن کب نکالیں گے، ہم اپنے مسئلے خود کب حل کریں گے۔