Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pehla Keel

Pehla Keel

میں آپ کو چند لمحوں کے لیے ذرا سا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں، یہ 2009 کا درمیان تھا، راجہ پرویز اشرف پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر تھے، ملک میں بجلی کا شدید بحران تھا، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی، شہر، شہر ہنگامے ہو رہے تھے، لوگ گاڑیوں اور عمارتوں کو آگ لگا رہے تھے، واپڈا کے دفتروں پر حملے ہو رہے تھے اور ملازمین جان بچانے کے لیے ہوائی فائرنگ پر مجبور تھے اور میڈیا بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چیخ رہا تھا، راجہ پرویز اشرف سے ان حالات میں لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سوال کیا گیا تو راجہ صاحب نے جواب دیا "31 دسمبر 2009 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی" راجہ پرویز اشرف اس کے بعد اپنی ہر تقریر میں یہ دعویٰ دہراتے رہے، قوم نے راجہ صاحب کی بات پر یقین کر لیا، وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ وہ دریا ہے جو کسی کے کہنے پر رکتا ہے اور نہ ہی چلتا ہے، یہ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق اپنی رفتار سے آگے بڑھتا ہے، وقت راجہ پرویز اشرف کے دعوے کی دہلیز پر بھی پہنچ گیا

31 دسمبر آیا اور گزر گیا اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تو رہا ایک طرف بجلی کے شارٹ فال میں تین ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہو گیا اور بجلی کی کمی ساڑھے چھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی، میڈیا کیونکہ بدتمیز بھی ہے، کوتاہ اندیش بھی، نالائق بھی اور سازشی بھی چنانچہ میڈیا نے راجہ پرویز اشرف کو" ایک سازش" کے تحت ان کا وعدہ یاد دلانا شروع کر دیا، راجہ صاحب نے اس کے دو حل نکالے، ایک، یہ میڈیا سے غائب ہو گئے، انھوں نے ٹاک شوز میں جانا، پریس کانفرنس کرنا اور صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینا بند کر دیا، دو، انھوں نے سپریم کورٹ کو لوڈ شیڈنگ کا ذمے دار قرار دے دیا،

ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ نے رینٹل پاور پلانٹس کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا جس کے رد عمل میں غیر ملکی سرمایہ کار بھاگ گئے، رینٹل پاور پلانٹس بھی متحرک نہیں ہو سکے چنانچہ لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو سکی، مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت کسی صحافی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے راجہ پرویز اشرف کے بیانات کا حوالہ دے کر پوچھا تھا" لوڈشیڈنگ کب ختم ہو گی" تو یوسف رضا گیلانی نے ایک لمحے میں وہ جواب دیا تھا جو آج میاں نواز شریف بار بار دے رہے ہیں، گیلانی صاحب نے فرمایا، راجہ پرویز اشرف نے جوش خطابت میں 31 دسمبر کی تاریخ دے دی تھی، انھیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی، ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں، بجلی کے گردشی قرضے ادائیگی کے دائرے سے نکل چکے ہیں اور ہمارے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں کہ ہم گھمائیں اور بجلی آ جائے وغیرہ وغیرہ، یوسف رضا گیلانی کے اس بیان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے تابوت میں پہلا کیل ٹھونک دیا اور لوگوں نے اس دن کہنا شروع کر دیا، پاکستان پیپلز پارٹی اپنی آخری مدت پوری کر رہی ہے۔

امتیاز صفدر وڑائچ میرے دوست بھی ہیں اور یہ ان چند سیاستدانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں جو پانچ سال میرے ٹی وی پروگرام میں آتے رہے اور ہر پروگرام کے بعد ہمارے دل میں ان کی عزت میں اضافہ ہوا، امتیاز صفدر وڑائچ بلاشبہ ان نصف درجن سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی گردن میں اقتدار کے بعد سریا نہیں آیا، یہ وزیر بننے کے بعد بھی انسان رہے جب کہ میرے باقی تمام دوست اپنی جھولی کوئلوں سے بھر کر واپس چلے گئے، اس امتیاز صفدر وڑائچ نے ایک بار پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے سامنے کہا " ہم نے اگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں الیکشن نہیں جتوا سکے گی" مگر کسی نے ان کی بات پر یقین نہ کیا کیونکہ اس یقین کے لیے اے سی کے بغیر اندھیرے میں بیٹھنا پڑتا ہے اور ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہاؤس ہو یا پھر پارلیمنٹ ہاؤس یا پارلیمنٹ لاجز ہوں یہ تمام لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ تھے لہٰذا ان ہاؤسز میں رہنے والی مخلوق کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا مگر پھر وہی ہوا، الیکشن ہوئے اور جادو کی چھڑی نہ ہونے کا واویلا کرنے اور وزیروں کو جوش خطابت کے طعنے دینے والے بری طرح ہار گئے، امتیاز صفدر وڑائچ کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی، آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پیک کر دیا، حکومت اگر صرف بجلی لے آتی تو یقین کیجیے آج کے سیاسی حالات بالکل مختلف ہوتے، راجہ پرویز اشرف یا یوسف رضا گیلانی ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے ہوتے اور جیالے نعرے لگا رہے ہوتے " زندہ ہے بھٹو زندہ ہے" بھٹو زندہ تھا اور بھٹو مزید زندہ رہ سکتا تھا مگر راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کی لوڈ شیڈنگ نے بھٹو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مار دیا، اسے دفن کر دیا۔

ہم اب آتے ہیں پاکستان کے نئے حکمرانوں کی طرف، میاں نواز شریف پوری الیکشن مہم کے دوران عوام سے اپیل کرتے رہے آپ مجھے سمپل میجارٹی دیں، میں ملک سے لوڈشیڈنگ کے اندھیرے ختم کر دوں گا، میاں صاحب یہ دعویٰ بھی کرتے رہے، ہم بجلی کا بحران دور کر دیں گے، میاں صاحب کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف بھی گلے کا پورا زور لگا کر عوام سے کہتے رہے میں دو سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کردوں گا، میں ڈیڑھ سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کر دوں گا، اگر میں نے دوسال میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہ کیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں اور میں چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کر دوں گا، قوم نے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف دونوں کی باتوں پر یقین کر لیا چنانچہ میاں صاحب کو سمپل میجارٹی مل گئی، میاں صاحب کی ایم این ایز کی تعداد اتحادی جماعتیں ملا کر 190 تک چلی گئی اور یہ تقریباً دو تہائی اکثریت بنتی ہے لیکن میاں صاحب سمپل میجارٹی حاصل کرنے کے ایک ہفتے بعد اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے

انھوں نے 20مئی 2013 کو الحمراء ہال میں اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے خطاب کیا اور اس خطاب میں میاں شہباز شریف کے دعوؤں کو جوش خطابت قرار دے دیا، میاں صاحب نے یہ بھی کہا "خزانہ خالی ہے، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا وقت نہیں بتا سکتا" میاں نواز شریف کا اس نوعیت کا دوسرا بیان 28مئی کو یوم تکبیر کی تقریب سے خطاب کے دوران سامنے آیا، میاں نواز شریف نے فرمایا " یہ توقع نہ کریں آج حکومت آئی تو کل بجلی آ جائے گی" میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا " بحران سے نبٹنے کا کوئی فوری حل ہے اور نہ ہی پیسہ" میاں صاحب کے یہ دونوں بیانات صرف بیانات نہیں ہیں، یہ نئی حکومت کے تابوت کا پہلا کیل بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ میاں نواز شریف یہ بیان دینے کے بعد میاں نواز شریف کم اور یوسف رضا گیلانی زیادہ لگتے ہیں، بس جادو کی چھڑی کے تین لفظوں کی کمی ہے اور مجھے خدشہ ہے میاں صاحب کی کسی اگلی تقریر میں یہ تینوں لفظ بھی شامل نہ ہو جائیں اور میاں صاحب بھی فرمائیں گے، ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ ہم گھمائیں اور ملک کے 65 سال پرانے مسئلے حل ہو جائیں اور میاں نواز شریف کے اس بیان کے ساتھ ہی مستقبل کا کوئی قمر زمان کائرہ میڈیا کے سامنے آئے گا اور کہے گا، ہم نے ابھی حلف اٹھایا ہے اور ہمارا میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا، یہ دو کوڑی کے اینکرز ملک میں جمہوریت نہیں چلنے دے رہے، یہ ملک گورن ایبل نہیں رہا، پچھلی حکومت اداروں کو برباد کر کے چلی گئی اور ہم بجلی کہاں سے لائیں وغیرہ وغیرہ، آپ عنقریب ٹیلی ویژن چینلز پر پرانی فلم نئے اداکاروں کے ساتھ دیکھیں گے، حکمرانوں کا وہی غیض و غضب ہو گا، میڈیا پر طعنوں کے وہی تیر ہوں گے اور عوام کے لیے وعدوں، دعوؤں اور نعروں کی وہی گٹھڑیاں ہوں گی اور ہم یہ گٹھڑیاں اٹھا کر اپنے اپنے راستے پر چل پڑیں گے۔

مجھے لوگ میاں نواز شریف کا سپورٹر سمجھتے تھے، میں پچھلے چھ سات برسوں سے ان کے ہاتھوں بکا ہونے کے طعنے بھی سہہ رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے میاں نواز شریف کالم میں دو سطر کی گستاخی کی وجہ سے پچھلے دو سال سے مجھ سے ناراض ہیں، میں نے دو سال قبل کالم میں لکھ دیا تھا آج اگر صدر زرداری غلط کر رہے ہیں تو کل کو آپ بھی ان کی چھوڑی ہوئی جرابیں پہنیں گے، اس پر میاں صاحب ناراض ہو گئے اور یہ ناراضگی آج تک جاری ہے لیکن کیا وہ بات غلط تھی، کیا یہ آج سابق حکومت کی چھوڑی ہوئی جرابیں پہننے کی کوشش نہیں کر رہے، کیا یہ وہ غلطیاں نہیں کر رہے جن کی وجہ سے پچھلی حکومت ناکام ہوئی، انھوں نے تو شروع ہی میں اپنے دعوؤں سے انحراف کر دیا، اگر میاں شہباز شریف تین چار سال سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کر رہے ہیں تو ان کے پاس یقیناً کوئی نہ کوئی حل ہو گا

میاں نواز شریف ان سے یہ حل، یہ منصوبہ کیوں نہیں لیتے؟ اور اگر میاں شہباز شریف کے پاس کوئی حل نہیں تھا تو پھر یہ دعوے کیوں کرتے رہے اور میاں نواز شریف نے انھیں پہلے دعوے کے بعد روکا کیوں نہیں؟ بڑے میاں صاحب کو چھوٹے میاں صاحب کی جوش خطابت کا اندازہ الیکشن جیتنے کے بعد ہی کیوں ہوا؟ اگر 190 نشستیں حاصل کرنے کے بعد قوم کو یہی جواب ملنا تھا تو پھر یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف میں کیا خرابی تھی، وہ بھی تو یہی کہہ رہے تھے، قوم کم از کم یہ تو جانتی تھی یہ لوگ دعوے اور کرپشن کر کر کے تھک گئے ہیں، یہ شاید اب ڈیلیور کر دیں جب کہ میاں صاحب کی ساری ٹیم نئی ہو گی، یہ ٹیم شاید ایشوز کو سمجھنے میں دو سال لگا دے، یہ اس نئی ٹیم کا کمال ہے کہ اس نے حکومت سنبھالنے سے پہلے میاں نواز شریف کو اس صف میں لا کھڑا کیا جس میں کل تک یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف کھڑے تھے چنانچہ میاں صاحب کے یہ بیان وہ کیل ہیں جو آہستہ آہستہ عوام کی توقعات کو تابوت بنا دیں گے اور اگر یہ تابوت بن گیا تو میاں صاحب کے ساتھ ساتھ پورا ملک ڈوب جائے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.