Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Phir Panama Leaks

Phir Panama Leaks

بادشاہ کا موڈ اچھا تھا، وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا "تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے" وزیر شرما گیا، اس نے منہ نیچے کر لیا، بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا "تم گھبراؤ مت، بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤ" وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا "حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں، میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا" وزیر خاموش ہوگیا، بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا "میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟" وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا "بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے۔

میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں" بادشاہ نے فوراً سیکریٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا، بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا، دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا، وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا، بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا "تمہارے پاس تیس دن ہیں، تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں، تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا" وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی، بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا "میرے تین سوال لکھ لو" وزیر نے لکھنا شروع کر دیا، بادشاہ نے کہا "انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟" وہ رکا اور بولا "دوسرا سوال، انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے" وہ رکا اور پھر بولا "تیسرا سوال، انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے" بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا "تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب"۔

وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی، اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور، ادیب، مفکر اور ذہین لوگ جمع کیے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیے، ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے، وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیے لیکن نتیجہ وہی نکلا، وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا، وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا، وہ مارا مارا پھرتا رہا، شہر شہر، گاؤں گاؤں کی خاک چھانتا رہا، شاہی لباس پھٹ گیا، پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی، جوتے پھٹ گئے اور پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔

یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا، اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا، وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے، کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا، وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا، آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی، وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا، فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا، ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا، فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی، قہقہہ لگایا اور بولا "جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں، آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں" وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا "آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا، میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے" فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے، مسکرایا، اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا "یہ دیکھئے، آپ کو بات سمجھ آ جائے گی" وزیر نے جھک کر دیکھا، بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی۔

یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراء کو عنایت کرتا تھا، فقیر نے کہا "جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا، میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی، نتیجہ آپ خود دیکھ لیجیے، فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا، وزیر نے دکھی دل سے پوچھا "کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے" فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا "میرا کیس آپ سے مختلف تھا، میں نے جواب ڈھونڈ لیے تھے، میں نے بادشاہ کو جواب بتائے، آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا، بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا، میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں" وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا، جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کے بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا "کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں" فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا "میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کے لیے تمہیں قیمت ادا کرنا ہوگی" وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی، فقیر بولا "دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔

انسان کوئی بھی ہو، کچھ بھی ہو، وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا" وہ رکا اور بولا "انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے، ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے" فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے، وزیر سرشار ہوگیا، اس نے اب تیسرے جواب کے لیے فقیر سے شرط پوچھی، فقیر نے قہقہہ لگایا، کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا، وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا "میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے" وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا، اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا، وہ کسی قیمت پر کتے کا جھوٹادودھ نہیں پینا چاہتا تھا، فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا "اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں۔

تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاؤ دودھ پی جاؤ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاؤ، فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے" وزیر مخمصے میں پھنس گیا، ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جھوٹا دودھ تھا، وہ سوچتا رہا، سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی، وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا، فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا "میرے بچے، انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے، یہ اسے کتے کا جھوٹا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا، میں جان گیا تھا، میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آؤں گا، میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاؤں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا۔

میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاؤں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کے لیے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے، زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو، تمہاری زندگی اچھی گزرے گی" وزیر خجالت، شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا، وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا، اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا، وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا، اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی، وہ گھوڑے سے گرا، لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

کل پانامہ لیکس نے مزید 400 پاکستانیوں کے نام اگل دیے، یہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل کی دوسری قسط تھی، پہلی قسط میں ڈھائی سو لوگوں کا نام آیا، دوسری نے 400 پردہ نشینوں کے نام آشکار کر دیے اور تیسری، چوتھی اور پانچویں قسطوں میں مزید دو تین ہزار لوگ سامنے آ جائیں گے، پانامہ کے ساتھ ساتھ پاکستان لیکس بھی شروع ہو چکی ہیں، بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 65 کروڑ روپے برآمد ہو ئے، یہ 40 ارب روپے کی کرپشن کی پہلی قسط ہے، مشتاق رئیسانی کو میر حاصل بزنجو کی سفارش پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سیکریٹری خزانہ تعینات کیا تھا، یہ دونوں بھی تحقیقات کے دائرے میں آ رہے ہیں، مشتاق رئیسانی کے انکشافات پورے صوبے کو ہلا کر رکھ دیں گے۔

پاکستانی لیکس اس کے بعد کے پی کے میں آئیں گی اور یہاں سے پنجاب جائیں گی، حکومت ان ملکی اور غیر ملکی لیکس سے بچنے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی او آرز کے کھیل کو اگست تک کھینچنا چاہتی ہے، یہ ہو جائے گا، یہ لوگ بچ بھی جائیں گے لیکن ان لوگوں کو کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے، انھیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے، ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے، ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے، مجھے یقین ہے ان لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن کے بعد کوئی پانامہ ہوگا اور نہ ہی لیکس، اس دن یہ لوگ غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہو جائیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.