آپ اگر پولینڈ میں سرخ اشارے پر سڑک پار کرنے کی کوشش کریں یا زیبرا کراسنگ کے علاوہ کسی مقام پر سڑک پر قدم رکھ دیں تو آپ کو پولیس گرفتار کر سکتی ہے، یہ آپ کو سوذلوٹی (3400 روپے) جرمانہ بھی کر سکتی ہے اور آپ کو 24 گھنٹے تک حوالات میں بھی بند رکھ سکتی ہے، وارسا دنیا کے ان چند شہروں میں شامل ہے جہاں پیدل چلنے والے بھی جرمانے کا شکار ہو سکتے ہیں، شاید یہی وجہ تھی میں نے چار دنوں میں کسی شخص کو غلط جگہ یا سرخ اشارے پر سڑک پار کرتے نہیں دیکھا۔
پولینڈ مشرقی یورپ کا خوبصورت ملک ہے، اس کی ایک سرحد بیلا روس، یوکرائن، روس اور لیتھونیا سے ملتی ہے، دوسری چیک ریپبلک اور سلواکیہ اور تیسری سرحد جرمنی سے ملتی ہے، اس کے شمال میں بالٹک سی ہے، یہ دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جن کی سرحدیں سات ممالک سے جڑی ہوئی ہیں، یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی خواتین زیادہ نظر آتی ہیں، یہ آپ کو ہر جگہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں، خواتین دنیا کے کسی بھی ملک میں ترقی کی بہت بڑی علامت ہوتی ہیں۔
آپ کو اگر معاشرے میں خواتین زیادہ نظر آئیں، یہ آپ کو سڑکوں، گلیوں، بازاروں، مارکیٹوں، ریلوے اور بس اسٹیشنوں اور ائیر پورٹس پر بے نظر آئیں اور یہ آپ کو آدھی رات کو بھی فٹ پاتھوں پر پیدل چلتی نظر آئیں تو آپ جان لیں یہ معاشرہ محفوظ بھی ہے، مہذب بھی، شائستہ بھی، قانونی بھی اور یہاں لاء اینڈ آرڈر بھی انتہائی سخت ہے۔ آپ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر بڑی آسانی سے اپنے معاشرے کے حالات اور مستقبل کا اندازہ کر سکتے ہیں، میں عورت کی بے پردگی کے خلاف ہوں، اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے چاروں مذاہب میں عورت کے پردے کے احکامات موجود ہیں، آپ یہودی، عیسائی اور مسلمان عورت کو دیکھئے، یہ اگر مذہبی ہیں تو یہ سر بھی ڈھانپ کر رکھیں گی اور جسم بھی چھپائیں گی۔
میں نے دنیا میں بے شمار یہودی عورتوں، عیسائی ننوں اور مسلمان خواتین کو اسکارف، ڈھیلے کوٹ اور گاؤن پہنے دیکھا، یہ پردہ بہت اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے دنیا کا کوئی مذہب عورت کو کام کرنے، گھر سے باہر آنے اور فرد کی حیثیت سے عملی زندگی میں شامل ہونے سے نہیں روکتا، ہمارے ملک میں 52 فیصد خواتین ہیں، یہ دس کروڑ فرد ہیں، آپ ان دس کروڑ لوگوں اور 52 فیصد آبادی کو عملی زندگی سے الگ کر کے ترقی کیسے کر سکتے ہیں؟ چنانچہ ہمیں خواتین کو فرد بھی سمجھنا ہو گا اور انھیں کام کے مواقع بھی دینا ہوں گے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا ہم جب تک اپنی گلیوں، چوکوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں، بس اسٹاپوں اور شاپنگ سینٹرز کو عورتوں کے لیے محفوظ نہیں بناتے، ہمارے ملک میں پانچ سال کی بچی سے لے کر 85 سال کی بڑھیا تک عورت محفوظ نہیں لہٰذا ہم خود کو مہذب اور ترقی پسند کیسے کہہ سکتے ہیں مگر پولینڈ کی عورت محفوظ ہے، یہ دن ہو یا رات معاشرے میں نظر آتی ہے۔
یہ لوگ تہذیب اور شائستگی میں بھی بہت بلند ہیں، آہستہ آواز میں بات کرتے ہیں، لڑتے جھگڑتے اور الجھتے نہیں ہیں، مغربی یورپ کے مقابلے میں مہنگائی کم ہے، ہوٹل، ریستوران اور ٹرانسپورٹ سستی ہے، سیاح پولینڈ میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں، اس دلچسپی کی بے شمار وجوہات ہیں، ایک وجہ سستا ہونا بھی ہے جب کہ دوسری وجوہات میں پولینڈ کی تاریخ، یہودیوں کا ماضی، وارسا اور کراکووف کے اولڈ ٹاؤن، لاء اینڈ آرڈر کی مضبوطی، جرائم کا نہ ہونا اور معاشرے کا کھلا پن شامل ہیں، آپ شام کے وقت جس طرف نکل جاتے ہیں آپ کو ریستوران، کیفے اور لوگوں کی ٹولیاں نظر آتی ہیں، وارسا شہر میں دریائے وسٹولا بہتا ہے، یہ دریا شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
آپ رات کے وقت دریا پر جائیں آپ کو دریا کے دونوں کناروں پر چار پانچ کلو میٹر تک نوجوان لڑکے لڑکیاں بیٹھے نظر آئیں گے، یہ رات گئے تک یہاں بیٹھتے ہیں، شہر پر پولیس کا کنٹرول ہے لیکن آپ کو کسی جگہ پولیس نظر نہیں آتی، کراکووف سیاحتی شہر ہے، پولینڈ آنے والے 80 فیصد سیاح کراکووف ضرور آتے ہیں، یہ پولینڈ کا کلچرل کیپیٹل بھی کہلاتا ہے، آپ کو اس کی ہر گلی میں کوئی نہ کوئی قدیم چرچ ملتا ہے، میں نے کراکووف میں دو عجیب چرچ دیکھے، میں گلی کے درمیان کھڑا تھا، میرے دائیں ہاتھ غریب لوگوں کا چرچ تھا اور بائیں ہاتھ امیر لوگوں کا چرچ۔ گائیڈ نے بتایا بادشاہوں کے دور میں امیروں کے چرچ میں صرف امراء داخل ہو سکتے تھے جب کہ غریبوں کا چرچ عام لوگوں کے لیے تھا۔
میں اس تضاد پر حیران رہ گیا، اسلام میں کم از کم غریب اور امیر کی مسجد ایک ہوتی ہے، ہمارے مذہب میں صدر، وزیراعظم اور چپڑاسی کم از کم ایک مسجد، ایک جماعت اور بعض اوقات ایک صف میں نماز ضرور ادا کر سکتے ہیں، پوپ جان پال دوم کراکووف کے رہنے والے تھے، اسی شہر میں تعلیم حاصل کی، یہ 16 اکتوبر 1978ء سے 2 اپریل 2005ء تک عیسائی دنیا کے پوپ رہے، میں ان کے گھر بھی گیا اور اس کھڑکی تک بھی جہاں کھڑے ہو کر وہ عام زائرین کو اپنا دیدار کرواتے تھے، کراکووف کا یہودی محلہ بھی دیکھنے کی جگہ ہے، یہاں کے اسرائیلی ریستوران میں دنیا کی مختلف زبانوں میں موسیقی چلائی جاتی ہے، یہودیوں نے یہاں زائرین کے لیے ہوٹل، سرائے، ہاسٹل اور ریستوران بنا رکھے ہیں۔
یہودیوں کے محلے میں ہر وقت پولیس گشت کرتی رہتی ہے، سینا گوگا کے سامنے بھی دو پولیس اہلکارکھڑے تھے، میں جب تک سینا گوگا کے دروازے پر رہا انھوں نے اس وقت تک مجھ پر نظریں گاڑھے رکھیں، حکومت نے عوام کو بے تہاشہ سہولتیں دے رکھی ہیں، پورے وارسا شہر کو گرم پانی سپلائی کیا جاتا ہے، وارسا کی میونسپل کارپوریشن نے شہر میں پانی گرم کرنے کے دو بڑے پلانٹس لگا رکھے ہیں، یہ پلانٹس شہر کو گرم پانی فراہم کرتے ہیں، لوگ گھروں میں گیزر نہیں لگاتے، یہ ٹونٹی کھولتے ہیں اورا نھیں گرم پانی مل جاتا ہے، یہ لوگ یہ پانی صفائی، کپڑے دھونے اور نہانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور اس سے اپنے گھر بھی گرم رکھتے ہیں۔
یہ اپنے فرش میں کاپر کے باریک پائپ بچھا دیتے ہیں، گرم پانی ان پائپوں میں گردش کرتا ہے اور یہ گھر کو گرم کر دیتا ہے، یورپ کے زیادہ تر ممالک کی طرح پولینڈ میں بھی ٹونٹی کا پانی پینے کے قابل ہے، آپ ٹونٹی کھول کر جگ بھر لیتے ہیں اور بلا خوف وہ پانی پی جاتے ہیں، میں نے پیرس اور ناروے میں بھی یہ تجربہ کیا اور پچھلے مہینے جارجیا میں بھی لیکن میں پاکستان میں یہ غلطی نہیں کر سکتا، اسلام آباد پاکستان کا خوبصورت ترین اور امیر ترین شہر ہے لیکن اس شہر میں ٹونٹی کا پانی پینا تو درکنار آپ اس سے منہ تک نہیں دھو سکتے، شہر کی نصف آبادی نے گھروں میں پانی کی موٹریں لگا رکھی ہیں لیکن ان موٹروں کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں، کاش ہماری حکومت کسی ایک شہر کے لوگوں کو صاف پانی فراہم کر دے، یہ کم از کم اسلام آباد کے شہریوں ہی کو پینے کا پانی دے دے لیکن شاید انسانی صحت ہماری ترجیحات میں شامل نہیں، ہم لوگوں کو صرف ٹینشن اور موت دے سکتے ہیں، ہم انھیں خوشیاں اور صحت نہیں دے سکتے۔
وارسا یونیورسٹی بھی دیکھنے کے لائق ہے، یہ نئے شہر سے پرانے شہر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں آتی ہے، ایک عام سا گیٹ ہے جس پر وارسا یونیورسٹی لکھا ہے، آپ اندر داخل ہوں تو مختلف بلاکس پر مشتمل ایک طویل کمپاؤند نظر آتا ہے، یونیورسٹی میں 56 ہزارطالب علم پڑھتے ہیں لیکن آپ کو کیمپس کے اندر کسی قسم کا ہلا گلا دکھائی نہیں دیتا، یونیورسٹی کے دائیں بائیں مختلف مضامین کے ڈیپارٹمنٹ ہیں، ڈیپارٹمنٹس کی عمارتیں عام سڑک پر واقع ہیں لیکن سڑک پر کسی قسم کی ٹریفک بلاک یا افراتفری دکھائی نہیں دیتی، ٹریفک اور لوگ رواں دواں رہتے ہیں اور آپ کو اگر بتایا نہ جائے تو آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا آپ یونیورسٹی ایریا سے گزر رہے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں ہمارے تعلیمی اداروں کے علاقے ہر وقت افراتفری، ہلا گلہ اور ہنگاموں کا مرکز رہتے ہیں، دنیا جہاں کے لوگ تعلیمی اداروں، چرچوں اور قبرستانوں کے گرد گھر بناتے ہیں۔
کیونکہ وہاں امن ہوتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں اسکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں، مسجدوں اور قبرستانوں کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے موجود پلاٹس فروخت نہیں ہوتے، لوگ وہاں رہائش پذیر ہونے سے ڈرتے ہیں، آپ کبھی لاہور میں پنجاب یونیورسٹی اور کراچی کے یونیورسٹی ایریا سے گزر کر دیکھیں، آپ کے لیے ڈرائیو کرنا مشکل ہو جائے گا، ہم اگر اپنی یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو زیبرا کراسنگ، اوور ہیڈ بریج اور انڈر پاس استعمال کرنے کی تمیز نہیں سکھاسکتے تو پھر تہذیب اور شائستگی کے جنازے میں کتنی دیر بچ جاتی ہے، وارسا یونیورسٹیی کی لائبریری جمالیاتی ذوق کا شاہکار ہے، یہ عمارت چوبیس گھنٹے جاگتی رہتی ہے، آپ کسی بھی وقت وہاں چلے جائیں آپ کو وہاں لوگ پڑھتے اور ریسرچ کرتے نظر آئیں گے، لائبریری کی بیرونی دیوار بھی شاہکار ہے، اس دیوار پر دنیا کی تمام بڑی زبانیں تحریر ہیں، یہاں عربی بھی ہے اور ہندی بھی۔
اس دیوار پر لکھی زبانوں میں سے دو تحریروں نے زیادہ حیران کیا، ایک سائنسی زبان تھی اور دوسری میوزک کی زبان، یہ دونوں تحریریں دیوار کے آخر میں لکھی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں، سائنس کی زبان دنیا کی دوسری آخری زبان ہے جب کہ موسیقی کی زبان دنیا کی آخری زبان۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، سائنس اور موسیقی کی زبانیں واقعی آخری زبانیں ہیں اور آپ کو یہ زبانیں سمجھنے اور سیکھنے کے لیے کسی حرف کی ضرورت نہیں پڑتی، آپ بس زمین پر چند آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں اور یہ آڑی ترچھی لکیریں لفظ اور آواز بن جائیں گی۔ وارسا کی دو خواتین نے اسداللہ غالب اور سلطان راہی پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، سلطان راہی نے دنیا میں سب سے زیادہ فلموں میں کام کیا، یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہیں، انھوں نے 58سال کی زندگی میں 813 فلموں میں کام کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا، وہ 9 جنوری 1996ء کو جی ٹی روڈ پر گوجرانوالہ کے قریب قتل کر دیے گئے تھے۔
ہم آج تک ان کا قاتل گرفتار نہیں کر سکے لیکن ایک پولش خاتون نے ہمارے اس فنکار پر پی ایچ ڈی کر لی جس کا فقرہ " مولا نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مر سکدا" اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ ہے، سلطان راہی انتقال کر گئے لیکن ان کے کردار آج تک زندہ ہیں اور یہ کردار بھی اگر مر جائیں تو بھی ان کی شخصیت پر ہونے والی پی ایچ ڈی انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گی، یہ پاکستان میں نہیں تو پولینڈ میں ضرور زندہ رہیں گے جب کہ دوسری خاتون نے غالب پر پی ایچ ڈی کر کے "نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا"جیسے شعروں کو پولینڈ پہنچا دیا، یہ دو پی ایچ ڈی اردو اور پنجابی دونوں کی بڑی کامیابیاں ہیں۔
وارسا کے اولڈ ٹاؤن میں ایک عجیب گھر دیکھا، یہ پرانی عمارت تھی، عمارت کے دائیں اور بائیں کوئی گھر نہیں تھا، دونوں اطراف کے پلاٹس خالی تھے، گائیڈ نے بتایا یہ عمارت سو سال قبل "قحبہ خانہ" تھی، لوگوں نے اس کی ہمسائیگی میں آباد ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ اس کے دائیں بائیں کے پلاٹس خالی رہ گئے، یہ آج تک خالی ہیں، میں یہ خالی پلاٹس دیکھ کر ہنس پڑا اور میں نے سوچا، کاش ہم لوگ بھی برے لوگوں کے ساتھ آباد ہونے سے انکار کر دیں، شاید اسی سے ہمارا معاشرہ صاف ستھرا اور پاک ہو جائے۔