Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qaumain Jab Tassub Ki Ainak Pehan Lain

Qaumain Jab Tassub Ki Ainak Pehan Lain

نادر شاہ درانی نے 1739ء میں ہندوستان پر حملہ کیا، دہلی فتح کیا اور شہر میں خون کی ندیاں بہا دیں، دہلی شہر میں نعشوں کا انبار لگ گیا، شہر کے ہر گھر سے دھواں اٹھنے لگا، دس دس سال کی بچیاں "ریپ" ہوئیں اور دہلی والوں کا مال و متاع لوٹ لیا گیا، دہلی کے بہادروں نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا فیصلہ کیا۔

یہ لوگ اٹھے اور رات کے اندھیرے میں کوئلے سے دہلی کی دیواروں پر "مرگ بر ظالم" لکھ دیا، نادر شاہ درانی نے یہ بدعا پڑھی تو جامع مسجد کے سامنے کھڑا ہو گیا، قہقہہ لگایا، اپنے سپاہی بلائے اور اس فقرے کے نیچے لکھوا دیا "بعد ازاں مرگ مظلوم" نادر شاہ درانی کے کہنے کا مطلب تھا " ظالم بھی مر جاتا ہے لیکن مظلوم ہمیشہ ظالم سے پہلے مرتا ہے" نادر شاہ چلا گیا مگر دنیا کو یہ حقیقت بتا گیا "مظلوم ظالم سے پہلے مرتا ہے" کیوں مرتا ہے؟ اس کا جواب دنیا کے کسی قانون، کسی آئین اور کسی عدالت کے پاس نہیں، عدالت خواہ قاتل کو سو بار پھانسی دے دے مگر مقتول زندہ نہیں ہو سکتا، وہ کبھی واپس نہیں آ سکتا۔

یہ وہ بنیادی نکتہ تھا جس نے پولیس کے ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی، پولیس ڈیپارٹمنٹ مجرم کو سزا دینے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، مظلوم کو مظلوم بننے سے روکنے کے لیے بنایا گیا تھا، سزا دینا عدالت کا کام ہوتا ہے اور عدالتیں پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ہزاروں سال قبل بنائی گئی تھیں، یہ وجہ ہے پوری دنیا میں 15یا 1122 جیسے ادارے موجود ہیں، آپ ٹیلی فون کا ایک بٹن دباتے ہیں اور پولیس پانچ منٹ میں آپ کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے جب کہ دنیا کے کسی ملک میں عدالت کے لیے ایمرجنسی کال سسٹم نہیں۔

عدالتیں ہمیشہ آہستہ کام کرتی ہیں اور پولیس فوراً، کیوں؟ کیونکہ عدالت مجرم کو سزا دیتی ہے جب کہ پولیس جرم روکتی ہے اور جرم روکنے کی اسپیڈ انصاف دینے والوں کی رفتار سے تیز ہونی چاہیے، ہمارے ملک میں یہ نظام مختلف ہے، ہمارے ملک میں پولیس ہو یا عدالت یہ جرم نہیں روکتی، یہ انصاف بھی نہیں دیتی، یہ صرف اور صرف مظلوموں میں اضافہ کرتی ہے، آپ کو میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں، آپ کو اس ملک میں تاحد نظر مظلوم ہی مظلوم نظر آئیں گے، ان مظلوموں کا تعلق کسی ایک طبقے سے نہیں ہو گا، آپ اندازہ کیجیے جس ملک میں پولیس کے آئی جی انصاف مانگ رہے ہوں۔

چیف جسٹس سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوں اور جس میں ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کا قائد کنٹینر پر کھڑا ہو کر سول نافرمانی، ہنڈی اور سرکاری بینکوں سے رقم نکالنے کا حکم دے رہا ہو اور جس میں ملک کا سابق صدر غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہو اور جس ملک میں دو تہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم کو وزیراعظم ہاؤس سے اٹھا کرہائی جیکنگ کی مقدمہ بنا دیا جاتا ہو اور جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کو " سیکیورٹی تھریٹ" قرار دے دیا گیا ہو اور جس میں آئی ایس آئی کے چیف کو ٹیلی ویژن اسکرین پر قاتل ڈکلیئر کر دیا گیا ہو اور جس میں الیکشن کمیشن کے ایک سابق ملازم کے "انکشافات" پر پورے الیکشن پراسیس کو دھاندلی ثابت کر دیا گیا ہو آپ کو اس ملک میں کہاں کہاں مظلوم نظر نہیں آئیں گے؟

یہ ملک، ملک کم اور مظلومستان زیادہ ہے اور اس مظلومستان میں میرے جیسے لوگ پریشان پھر رہے ہیں اور یہ پوچھ رہے ہیں، ہم خود کو ایماندار، محب وطن اور غیر جانبدار کیسے ثابت کریں، ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص اٹھتا ہے، ٹیلی فون کی ایک سم خریدتا ہے، انٹرنیٹ پر اپنا خفیہ اکائونٹ بناتا ہے، فیس بک یا ٹویٹر پر جاتا ہے یا پھر کوئی "بلاگ" بناتا ہے اور کسی بھی شخص کی ٹوپی یا پگڑی اتار کر اس میں غلاظت ڈال دیتا ہے اور کلمہ حق کا بے چارہ ہدف باقی زندگی دیوار گریہ تلاش کرتا رہ جاتا ہے۔

ملک میں اس وقت آٹھ صحافی خفیہ کلمہ حق کے ہدف ہیں، ان آٹھ مظلوموں کا صرف ایک جرم ہے، ان لوگوں نے اس پاگل پن کی رو میں بہنے سے انکار کر دیا جس کے آخر میں ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی، ہم ایٹم بم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے، عراق کی طرح نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ جنگ کا شکار بھی ہو جائیں گے، ہماری فوج کو بھی نقصان ہو گا اور ہم آئین اور پارلیمنٹ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے، ہمارے لیے کتنا آسان تھا ہم بھی ہجوم کے ساتھ شامل ہو جاتے، انقلاب زندہ باد، انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے۔

شہزاد رائے کے ساتھ کھڑے ہو کر سالی کو منانے کی کوشش کرتے اور انقلاب کی برکات جھولی میں بھر کر واپس آ جاتے، پاکستان تحریک انصاف کا نیا پاکستان بھی خوش ہو جاتا اور ہمارا خفیہ کلمہ حق بھی راضی ہو جاتا لیکن ہم بے وقوف لوگ اس آئین کے ساتھ کھڑے ہو گئے جسے اس قوم نے آدھے ملک کی قربانی دے کر بنایا تھا اور ہم اس پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے بھی سامنے آ گئے جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے یہ متحدہ پاکستان کی آخری منتخب پارلیمنٹ ہے، یہ اگر ٹوٹ گئی تو پھر ہمیں ڈی چوک پر عزت کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑے گا۔

ہم فرض کر لیتے ہیں سماجی مفتیوں کے فتوے درست ہیں، ہم مجرم ہیں، پھر سوال پیدا ہوتا ہے ہم اگر مجرم ہیں تو پھر آصف علی زرداری، الطاف حسین، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق اور محمود اچکزئی بھی بکے ہوئے غدار ہیں کیونکہ یہ لوگ بھی اس وقت ہم آٹھ صحافیوں کی طرح پارلیمنٹ اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ ہم جانتے ہیں ہمیں استقامت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی، ہماری کردار کشی بھی ہو گی، ہم پر حملے بھی ہوں گے، ہماری جعلی آڈیوز اور ویڈیوز بھی جاری ہوں گی۔

ہمارے نام چاند اور مریخ پر پلاٹ بھی نکل آئیں گے اور ہمیں سی آئی اے، موساد اور را کا ایجنٹ بھی قرار دے دیا جائے گا، ہمیں بے ایمان ثابت کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، ملک کے دو مفتی اینکر پرسنز نے ہمارے بارے میں حکومت سے رقم وصول کرنے کا فتویٰ بھی جاری کر دیا، پی ٹی آئی اور ان کے وہ مہربان جو انقلابیوں کو انقلاب کے سمندر میں دھکا دے کر غائب ہو گئے وہ ہمارے خلاف سوشل میڈیا پر کمپین کر رہے ہیں، آپ ہمیں غدار، بکاؤ اور منافق قرار دے رہے ہیں، آپ کرتے رہیں، آپ گوئبلز ازم کے اس سمندر میں جتنے چاہیں بیڑے اتار لیں، ہم لوگ بہر حال سسٹم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ہم پارلیمنٹ اور آئین کے ساتھ ہیں، پارلیمنٹ میں اگر کل عمران خان، الطاف حسین یا علامہ طاہر القادری بھی بیٹھ جاتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور کسی شخص کو صرف دھرنے کی بنیاد پر پارلیمنٹ توڑنے یا وزیراعظم طاہر القادری اور وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ مانگنے نہیں دیں گے، یہ ملک ہے اور اس ملک میں ٹوٹا پھوٹا اور لولا لنگڑا ہی سہی مگر سسٹم موجود ہے اور ہم کسی طالع آزما کو یہ سسٹم توڑنے نہیں دیں گے، آپ کو میاں نواز شریف پسند نہیں یا آپ سمجھتے ہیں الیکشنز میں دھاندلی ہوئی ہے تو آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر کمیشن بنوائیں، تحقیقات کرائیں۔

کمیشن کی سماعت کو میڈیا کے لیے اوپن کر دیں تا کہ پوری قوم اپنی آنکھوں سے انصاف ہوتا دیکھے، آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر روز وزیراعظم تبدیل کریں، آپ کو الیکشن کمیشن اور انتخابات کے طریقہ کار پر اعتراض ہے تو آپ نئی انتخابی اصلاحات کر لیں، آپ وزارت عظمیٰ کی مدت پانچ سے تین سال کر لیں، آپ قانون بنا دیں وہ شخص جس کے بچے اور کاروبار باہر ہیں وہ ملک میں الیکشن نہیں لڑ سکے گا، آپ کو پارلیمانی جمہوریت پسند نہیں، آپ صدارتی نظام لے آئیں، آپ امیدواروں کے لیے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو لازم قرار دے دیں، آپ جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں، آپ جو نیا پاکستان تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔

آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر جائیں، آپ کو کوئی نہیں روکے گا مگر سڑکوں کو عوامی پارلیمنٹ نہ بنائیں کیونکہ سڑکیں اگر ایک بار پارلیمنٹ بن گئیں تو پھر یہاں عوامی عدالتیں بھی بنیں گی، عوامی پولیس اور عوامی کمیشن بھی بنیں گے اور جس دھڑے کا کمیشن، پولیس اور عدالت تگڑی ہو گی وہ سڑک پر بیٹھ کر دوسرے کو غدار، منافق اور کافر قرار دے گا اور عوامی تارا مسیح آگے بڑھ کر اس کافر، اس منافق اور اس غدار کو پھانسی پر چڑھا دے گا، عمران خان یاد رکھیں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات نے ملک توڑ دیا تھا۔

ہمیں خدشہ ہے آپ کے چھ نکات اس ملک کی رہی سہی روح قبض کر لیں گے، آپ خدا کے لیے ملک کے کسی ادارے کو بڑا مان لیں، آپ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے تو آپ سپریم کورٹ کو بڑا مان لیں، چیف جسٹس پرفیصلہ چھوڑ دیں اور اگر چیف جسٹس نے 2013ء کے الیکشن کو جعلی قرار دیا تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ہم آپ کے ساتھ مل کر نواز شریف سے استعفیٰ بھی مانگیں گے اور ہم مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ بھی کریں گے، آپ کسی ایک پر اعتماد کریں، آپ کی بے اعتمادی ملک کو تباہ کر دے گی۔

اور آخر میں ہم جیسے لوگ! ہم لوگ اپنی حب الوطنی، ایمانداری اور غیر جانبداری ثابت کرنے کے لیے کیا کریں، ہم کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں، کس ادارے سے رابطہ کریں اور کس سے سر ٹیفکیٹ لیں، آپ لوگ ہماری رہنمائی کریں، ہم اس دروازے پر جا کر بیٹھ جائیں گے، اس ادارے سے درخواست کریں گے، خدا را آپ ہمیں حب الوطنی کا سر ٹیفکیٹ جاری کر دیں، لوگوں کو ہم پر یقین نہیں آ رہا، ہم سر ٹیفکیٹ لے آئیں گے لیکن کیا گارنٹی ہے آدھی قوم اس سر ٹیفکیٹ کو بھی جعلی قرار نہیں دے گی؟ کیوں؟ کیونکہ جب قومیں تعصب کی عینک پہن لیتی ہیں تویہ نعوذ باللہ مقدس ترین ہستیوں کو جادوگر اور احکامات کو شاعری قرار دے دیتی ہیں جب کہ ہم تو معمولی صحافی ہیں، ہماری بات، ہمارے سر ٹیفکیٹ پر کون یقین کرے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.