جولاہاکپڑے بُننے والوں کو کہا جاتا تھا، یہ پیشہ بھی دوسرے پیشوں کی طرح دم توڑ چکا ہے، آپ کو جس طرح اب قصبوں اور دیہات میں موچی، ماشکی، مراثی، لوہار اور ترکھان نہیں ملتے بالکل اسی طرح جولاہے بھی نظروں سے غائب ہو چکے ہیں، یہ لوگ ہاتھ کی کھڈی پر کپڑا بُنا کرتے تھے، یہ کپڑا بعد ازاں بازاروں میں بکتا تھا، یہ لوگ فنکار تھے، یہ کپڑے میں مختلف قسم کے دھاگے اور رنگ ملا کر اس میں جان پیدا کر دیتے تھے، ریشم ہو یا کمخواب ہو، ململ ہو یا ٹاسا ہو یہ کپڑے کو زندہ کر دیتے تھے، آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے تک شہروں میں جولاہوں کی باقاعدہ بستیاں اور محلے ہوتے تھے۔
جولاہوں کے محلوں میں سیکڑوں ہزاروں کھڈیاں ہوتی تھیں اور یہ لوگ دن رات ان کھڈیوں پر کام کرتے تھے، وقت بدلا اور برقی لومیں، ٹیکسٹائل ملز اور گارمنٹس فیکٹریاں جولاہوں کے اس فن کو نگل گئیں، یہ لوگ بے روزگار ہوئے، ان کے محلے بے آباد ہوئے اور یہ لوگ اور ان کا فن آہستہ آہستہ وقت کے پیندے میں بیٹھتا چلا گیا، یہاں تک کہ آج کی نسل جولاہے کے لفظ تک سے واقف نہیں، مجھے خطرہ ہے دس سال بعد شاید جولاہے کا لفظ بھی لغت سے خارج ہو جائے اور یہ لوگ اور ان کا فن صرف قدیم کتابوں میں تذکرے کی حد تک محدود ہو جائے، یہ لوگ بھی دوسرے درجن بھر پیشوں کے ماہرین کی طرح یاد ماضی کا عذاب بن کرمعدوم ہو جائیں۔
یہ لوگ فنکار تھے، یہ لڑنے بھڑنے سے پرہیز کرتے تھے، آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے تک جسمانی طاقت کامیابی سمجھی جاتی تھی، اس دور میں ہر اس شخص کا مذاق اڑایا جاتا تھا جو صلح، مذاکرات، افہام و تفہیم اور امن کی بات کرتا تھا، جولاہے لڑنے والے لوگ نہیں تھے لہٰذا یہ بزدل سمجھے جاتے تھے اور ہر اس شخص کو جولاہا کہہ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا جو میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا تھا یا پھر لوگوں کو لڑنے بھڑنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا تھا یا صلح صفائی کو لڑائی پر فوقیت دیتا تھا، جولاہا بڑی اور بہادر ذاتوں کے لیے طعنے یا گالی کی حیثیت رکھتا تھا، پنجاب میں لوگ مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے مگر جولاہا کہلانا پسند نہیں کرتے تھے، جولاہے وہمی بھی ہوتے تھے، یہ معمولی باتوں کو پہاڑ بنا دیتے تھے۔
ان کی اس وہمی طبیعت سے درجنوں لطیفوں نے جنم لیا مثلاً آپ جولاہوں کے بارے میں یہ لطیفہ ملاحظہ کیجیے، جولاہوں کا ایک خاندان ماتم کر رہا تھا، ہمسایوں نے سوچا شاید ان کا کوئی عزیز انتقال کر گیا ہو، یہ لوگ تعزیت کے لیے پہنچ گئے، دوسرے ہمسایوں نے پہلے ہمسائے کو آتے دیکھا تو وہ بھی آ گئے، وہ روتے پیٹتے رہے اور ہمسائے آتے رہے یہاں تک کہ صحن مہمانوں سے بھر گیا، یہ سارے جولاہے تھے چنانچہ کسی نے رونے پیٹنے کی وجہ دریافت نہیں کی، وہ لوگ شام تک رو پیٹ کر تھک گئے تو کسی نے ان سے پوچھا " میت کہاں سے آئے گی" رونے پیٹنے والوں نے حیرت سے پوچھا "کون سی میت" پوچھنے والے نے کہا " آپ لوگ جس کو رو رہے ہیں " انھوں نے تڑپ کر جواب دیا " ہم کسی کی موت پر نہیں رو رہے، ہم راستہ بننے پر رو رہے ہیں "۔
پوچھنے والے کی حیرت میں اضافہ ہو گیا، رونے والوں نے بتایا " ہمارا بزرگ صبح صحن میں کھڑا تھا، اس کی ٹانگوں کے درمیان سے چوہا گزر گیا، ہم اپنے بزرگ کے انجام پر رو رہے ہیں " پوچھنے والے نے پوچھا " جناب چوہے کے گزرنے کا بزرگ کے انجام سے کیا تعلق؟ " خاندان نے جواب دیا " چوہا گزرنے کے بعد ابا جی کی ٹانگوں کے درمیان راستہ بن گیا ہے، ہم ڈر رہے ہیں کیونکہ اس راستے پر اب بھینسے بھی سفر کریں گے، گھوڑے بھی اور ہاتھی بھی، چوہا چھوٹا تھا وہ تو آرام سے گزر گیا مگر جب ہاتھی، گھوڑے اور بھینسے گزریں گے تو ابا جی کا کیا حال ہو گا؟ ہم نے جب یہ سوچا تو ہماری چیخیں نکل گئیں "۔
مجھے یقین ہے، آپ بھی جولاہوں کی اس عجیب منطق پر ہنس رہے ہوں گے، یہ یقینا ہنسی کی بات ہے مگر اس ہنسی کی بات میں بھی "راستے بننے" کی ایک کارآمد ترین اصطلاح موجود ہے، انسان کی نفسیات ہے، یہ جب کسی اجنبی جگہ پر پائوں رکھ دیتا ہے تو پائوں کے اس نشان کو راستہ بنتے دیر نہیں لگتی، دوسرے انسان پائوں کے اس نشان پر قدم رکھتے ہوئے اس ایک نشان کو راستہ بنا دیتے ہیں، دنیا میں جتنے راستے، جتنی پگڈنڈیاں اور جتنی سڑکیں ہیں، یہ ماضی میں کسی ایک آدھ شخص کی گزر گاہ تھیں، یہ گزر گاہ راستہ بنی اور پھر یہ راستہ جی ٹی روڈ اور موٹروے بن گیا۔
انسان کی نفسیات ہے یہ پائوں پر پائوں رکھتا ہوا آگے سے آگے بڑھتا جاتا ہے اور انسان کی یہ نفسیات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ آپ کو معاشرے کی ہر مضبوط روایت کے پیچھے یہی نفسیات نظر آئے گی، کوئی ایک انسان تھا جس نے کوئی ایک کام کیا، دوسرے انسان اس کام کی پیروی کرتے رہے اور یوں وہ ایک قدم روایت، رسم اور فلسفہ بن گئی، ہم اگر انسان کی اس نفسیات کو حقیقت مان لیں تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا مولانا طاہر القادری نے نظام پر دوسرا حملہ کر کے ملک میں انارکی کی بنیاد رکھ دی، مولانا طاہرالقادری عالم دین ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں خطابت کے جوہر سے بھی نواز رکھا ہے، یہ لفظوں کا دریا بہا دیتے ہیں اور یہ دریا سننے والوں کو چند لمحوں کے لیے مبہوت کر دیتا ہے۔
مولانا کے کارکن، ساتھی اور مریدین ان کے ساتھ مخلص ہیں، مولانا انھیں کہہ دیتے ہیں بیٹھ جائو، یہ بیٹھ جاتے ہیں، مولانا کہتے ہیں اٹھ جائو، یہ اٹھ جاتے ہیں اور مولانا کہتے ہیں چل پڑو، یہ چل پڑتے ہیں، مولانا طاہر القادری الطاف حسین کے بعد ملک کے دوسرے لیڈر ہیں جن کا اپنے ورکروں پر خوفناک ہولڈ ہے، ان کے ورکر ان کے اشاروں پر اس طرح چلتے ہیں جس طرح ریموٹ کنٹرول کی شعاعیں چلتی ہیں، مولانا نے نظام کے قلعے پر 14 جنوری 2013کو پہلا حملہ کیا تھا، یہ پوری شدت کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے تھے، یہ17 جنوری2013 کو اسلام آباد سے ناکام واپس لوٹے لیکن ہمیں ماننا پڑے گا مولانا کے حملے نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی، دنیا بھر کے میڈیا نے انھیں کوریج دی۔
ہمارے میڈیا نے بھی مسلسل پانچ دن مولانا کے لانگ مارچ اور دھرنے کو لائیو کوریج دی، مولانا نے اس حملے کے ذریعے پوری دنیا کو سمجھا دیا پاکستان کا نظام بہت کمزور ہے، اس نظام کو ایک شخص کینیڈا سے آ کر بھی اتنا ہلا سکتا ہے کہ دس بڑے لیڈر کنٹینر میں آ کر اس سے مذاکرات پر مجبور ہو جاتے ہیں، یہ راستہ بنانے کا پہلا قدم تھا، مولانا نے نظام پر دوسرا حملہ 23 جون کو کیا، یہ راستہ بنانے کی دوسری کوشش تھی، ہمارے میڈیا نے 21 جون کو مولانا کو کوریج دینا شروع کر دی تھی، 23 جون کو تمام چینلز نے خصوصی ٹرانسمیشن کی، مولانا کو شام تک کوریج ملتی رہی، شام کے وقت سورج کی شعاعیں مدہم پڑتے ہی انقلاب کی لو بھی کند ہوگئی، حکومت کا خیال تھا، مولانا اس دوسرے حملے کے بعد اپنی کریڈیبلٹی کھو بیٹھے ہیں، یہ اب تیسرا شو نہیں کر سکیں گے۔
یہ اندازہ سیاسی لحاظ سے درست ہے، حکومت نے مولانا کا جہاز ڈائی ورٹ کر کے انقلاب کو شدید دھچکا پہنچایا، مولانا کے کارکن اسلام آباد میں جمع تھے، جہاز اچانک لاہور آ گیا، مولانا نے لاہور میں جہاز سے اترنے سے انکار کر دیا، جہاز ساڑھے پانچ گھنٹے پھنسا رہا، پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی، مولانا کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا، مولانا کور کمانڈر لاہور کی ضمانت پر جہاز چھوڑنا چاہتے تھے لیکن فوج کی طرف سے گورنر سندھ عشرت العباد اور حکومت کی طرف سے گورنر پنجاب نے مذاکرات کیے اور یوں مولانا گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنی گاڑی میں بطور "زر ضمانت " رکھ کر جہاز سے باہر آگئے۔
مولانا کی ان حرکات نے ان کی کریڈیبلٹی کو متاثر کیا اور حکومت کے مطابق ان کا دوسرا حملہ بھی پسپا ہو گیا، حکومت مولانا کی ناکامی پر خوشیاں منا رہی ہے مگر مجھے اس ناکامی سے مستقبل کی بے شمار کامیابیوں کی بو آ رہی ہے، مولانا نظام پر حملوں کا راستہ بنا چکے ہیں، ہمارا نظام حقیقتاً ڈیلیور نہیں کر رہا، یہ نظام غریب کو غریب سے غریب تر اور امیر کو امیر سے امیر تر بنا رہا ہے، ملک میں بے روزگاری، بیماری، لاقانونیت، ظلم، زیادتی اور ناانصافی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔
حکومت موجود ہے لیکن اس سے حکمرانی غائب چکی ہے، ادارے اداروں کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں، فوج اور حکومت کی لڑائی بھی ختم نہیں ہو رہی، سرکاری اہلکاروں کی نالائقی آخری حدود کو کراس کر چکی ہے، بل بڑھ رہے ہیں بجلی کم ہو رہی ہے، ڈگریاں مل رہی ہیں مگر تعلیم ختم ہو چکی ہے، نوکریاں ہیں مگر میرٹ نہیں، مسجدیں آباد ہیں لیکن خوف خدا ختم ہو چکا ہے اور جس دن اس بے انصافی، لاقانونیت، بیماری اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام نے مولانا طاہر القادری کے بنائے ہوئے راستے پر قدم رکھ دیا اس دن یہ نظام دم توڑ جائے گا اور وہ دن شاید ہمیں روانڈا، برونڈی اور عراق بنا دے۔
مولانا خانہ جنگی کا راستہ بنا چکے ہیں، ہمیں عوام کے قدم اٹھنے سے قبل اس نظام کی ڈینٹنگ پینٹنگ کر دینی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں وقت کے ہاتھی ہمیں چٹنی بنا کر مولانا کے بنائے راستے سے گزر جائیں گے۔