یہ آخری موقع ہے، ہم نے اگر یہ موقع بھی کھو دیا تو ہم بحیثیت ریاست ماضی کا قصہ بن جائیں گے، قدرت نے ہمیں آخری موقع سے قبل تین مواقع دیے تھے مگر ہم نے قدرت کی مہربانی سے فائدہ نہیں اٹھایا، وہ مواقع کیا تھے، ہم آخری موقع کی طرف جانے سے قبل ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
ہمیں پہلا موقع صدر ایوب خان کے دور میں ملا، ایوب خان کے دور میں سوویت یونین اور امریکا دو سپر پاور تھیں اور برصغیر اس وقت دونوں سپر پاورز کا میدان جنگ تھا، خطے میں تین بڑی طاقتیں تھیں، چین، بھارت اور پاکستان۔ بھارت سوویت یونین کا اتحادی بن گیا، چین سوشلسٹ ملک تھا، یہ نظریاتی لحاظ سے روس کے قریب اور امریکا سے دور تھا، پاکستان غیر جانبدار تھا چنانچہ امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، امریکا نے پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
ایوب خان نے یہ ہاتھ تھام لیا، ہم پر ترقی کے دروازے کھل گئے، پاکستان ساٹھ کی دہائی میں ایشیا میں ترقی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا، ہمارے ملک میں ڈیم بنے، سڑکیں، پل اور نہریں بنیں، ہم نے ایشیا میں بجلی سے چلنے والی پہلی ٹرین چلائی، کراچی میں زیر زمین میٹرو کے لیے کھدائی ہوئی، پاکستان خطے میں فیملی پلاننگ شروع کرنے والا پہلا ملک تھا، ملک میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنیں، صنعتی یونٹس لگے، ٹیلی ویژن شروع ہوا۔
پی آئی اے ایشیا کی سب سے بڑی ائیر لائین بنی، ہم نے نئے بینک بھی بنائے، اسلام آباد کے نام سے ایشیا کا جدید ترین شہر بھی آباد کیا اور ہماری مرچنٹ نیوی دنیا کی تمام بڑی بندرگاہوں پر بھی دستک دینے لگی، ترقی کا یہ سفر جاری رہتا تو پاکستان 1980ء تک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا لیکن پھر ہم نے ترقی کا میدان چھوڑ کر سیاست کی غلیظ نالی میں چھلانگ لگا دی، ہمارا ملک بھی ٹوٹ گیا، ہم دنیا بھر کی نظر میں بھی مشکوک ہو گئے اور ہماری ترقی کو ریورس گیئر بھی لگ گیا، بھٹو صاحب نے ایوب خان سے بدلہ لینے کے لیے پوری قومی پالیسی بدل دی، ہم امریکا سے روس چلے گئے۔
ملک میں اسلامی سوشلزم آیا اور پرائیویٹ ادارے قومیا لیے گئے، ہماری پالیسی کی اس شفٹ نے امریکا اور یورپی اتحادیوں کو پریشان کر دیا اور یہ پاکستان کا متبادل تلاش کرنے لگے، امریکا نے ہم سے مایوس ہو کر اپنے دروازے متحدہ عرب امارات اور ایران پر کھول دیے، امریکا نے انڈیا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات ٹھیک کر لیے اور یہ چین کے ساتھ بھی فاصلے کم کرنے لگا۔
ہم 1970ء تک خطے میں امریکا کے واحد اتحادی تھے لیکن 1972ء کے بعد متحدہ عرب امارات، بھارت اور چین بھی امریکا کی میز پر آگئے اور ایران بھی امریکا کا "بڈی" بن گیا جب کہ ہم باہر دہلیز کی طرف دھکیلے جانے لگے یوں ہم نے 1960ء اور 1970ء کی دہائی کا پہلا موقع ضایع کر دیا۔
ہمیں دوسرا موقع افغان روس جنگ کی صورت میں ملا، امریکا کے پاس 1980ء میں پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، چین اور بھارت روس کے اتحادی تھے، ایران میں انقلاب آ چکا تھا اور سعودی عرب اور یو اے ای کے پاس فوج نہیں تھی چنانچہ ہم واحد ملک تھے جو اس نازک گھڑی میں امریکا کی مدد کر سکتے تھے لہٰذا ہم 1980ء میں اپنے سارے قرضے بھی معاف کرا سکتے تھے۔
پاکستان کو سنگا پور، تائیوان اور کوریا کی طرح سرمایہ کار ملک بھی بنا سکتے تھے اور امریکا سے ملک بھر میں جدید انفرا سٹرکچر بھی بچھوا سکتے تھے لیکن ہم نے جنرل ضیاء الحق کو یونیفارم میں صدر قبول کرانے کے سوا کچھ نہ کیا، ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ملک کو بارود، افغان مہاجرین، بم دھماکوں، ہیروئن اور قرضوں کی دلدل بنا دیا، ہمارے معاشرے کی جڑیں تک کھوکھلی ہو گئیں، ہم نے دوسرا موقع بھی کھو دیا۔
ہمیں تیسرا موقع نائین الیون کے بعد ملا تھا، امریکا ہر حال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتا تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس، چین، بھارت، ترکی، سعودی عرب اور یو اے ای ہمارے خطے کے تمام ممالک امریکا کے ساتھی تھے، ایران بھی طالبان حکومت کے خلاف تھا چنانچہ یہ بھی امریکا کے خلاف ہونے کے باوجود طالبان کے معاملے میں امریکا کے ساتھ تھا لیکن ان تمام اتحادیوں کے باوجود امریکا پاکستان کے بغیر یہ جنگ نہیں لڑ سکتا تھا، ہم اگر اس وقت عقل سے کام لیتے تو ہم اپنے ملک کا مقدر بدل سکتے تھے۔
ہم قرضے معاف کراتے، ملک میں صنعتی یونٹس لگواتے، پاکستان کو عالمی منڈی بناتے اور غربت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر آ جاتے لیکن افسوس اس بار جنرل پرویز مشرف نے خود کو یونیفارم میں صدر منوا کر تیسرا موقع بھی ضایع کر دیا، ہم امریکا اور طالبان دونوں کو خوش رکھنے کے چکر میں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے، آج افغانستان میں امن ہو رہا ہے اور پاکستان عالمی دہشت گردوں کا میدان جنگ بن گیا ہے، ہم بارہ سال سے مر رہے ہیں لیکن امریکا سے فائدہ چین، بھارت، سعودی عرب، یو اے ای اور سینٹرل ایشیا کے ممالک اٹھا رہے ہیں۔
دنیا میں 60ء اور 70ء کی دہائیاں صنعتی انقلاب کا دور تھا، ہم نے وہ دور ضایع کر دیا، 1980ء کی دہائی سرمایہ کاری کا دور تھا، ہم نے وہ بھی ضایع کر دیا اور 2000ء سے 2010ء تک سروسز کے شعبے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور تھا، ہم نے یہ تینوں مواقع، یہ تینوں دور ضایع کر دیے، ہمارے پاس اب چوتھا اور آخری موقع بچا ہے، ہم نے اگر یہ بھی ضایع کر دیا تو ہم واقعی تاریخ کی اندھی گلیوں میں گم ہو جائیں گے، یہ آخری موقع کیا ہے؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو پاکستان کی تازہ جغرافیائی پوزیشن سمجھانا چاہتا ہوں۔
پاکستان اس وقت تین اہم معاشی طاقتوں کے درمیان موجود ہے، ہمارے ایک طرف قدرتی وسائل سے مالامال سینٹرل ایشیا ہے، یہ خطہ تیل، گیس، معدنیات، پانی اور بجلی سے مالا مال ہے، سینٹرل ایشیا کے ممالک اپنے قدرتی وسائل فروخت کرنا چاہتے ہیں، یورپ 1980ء سے خام مال کے بجائے تیار شدہ مصنوعات خرید رہا ہے۔
یہ تیل، گیس، بجلی اور معدنیات کا خریدار نہیں رہا، دنیا میں اس وقت قدرتی وسائل کے تین بڑے خریدار ہیں، چین، امریکا اور بھارت۔ پاکستان چین، بھارت اور سینٹرل ایشیا کے درمیان واقع ہے چنانچہ پائپ لائین بنے، بجلی کے کھمبے لگیں یا پھر سڑک بنے ہم درمیان میں ہوں گے، دوم، چین اور بھارت دنیا کی دو بڑی صنعتی طاقتیں ہیں، سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ، یورپ اور امریکا ان دونوں طاقتوں کی منڈیاں ہیں، چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔
یہ ہر سال شنگھائی پورٹ سے 466 بلین ڈالر کا سامان ایکسپورٹ کرتاہے، چین کی یہ پورٹ سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ اور یورپ سے بہت دور ہے، چین کے بحری جہاز7ہزار چار سو دو کلو میٹر سفر کر کے مڈل ایسٹ، سینٹرل ایشیا اور یورپ پہنچتے ہیں، چین یہ فاصلہ کم کرنا چاہتا ہے اور پاکستان چین کی مدد کر سکتا ہے، بھارت بھی سینٹرل ایشیا کو اپنی مارکیٹ بنانا چاہتا ہے، یہ پاکستان سے گزر کر افغانستان، ایران اور سینٹرل ایشیا جانا چاہتا ہے۔
چین نے 1980ء کی دہائی میں گوادر کاشغر روٹ تیار کیا، چین کا منصوبہ تھا یہ گوادر پورٹ تیار کرے، کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائین اور سڑک بنائے، کاشغر کو ملک کی سب سے بڑی ڈرائی پورٹ بنائے، چینی مصنوعات کاشغر آئیں، وہاں سے گوادر پہنچیں اور گوادر سے دنیا بھر کی منڈیوں میں پہنچا دی جائیں، کاشغر سے گوادر تک روٹ پر 32 ارب ڈالر خرچ ہوں گے، چین یہ سرمایہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہے، چینی صدر پاکستان آئیں گے، گوادر کاشغرمعاہدے پر دستخط ہوں گے اور کام شروع ہو جائے گا لیکن چینی صدر کے دورے سے قبل پاکستان میں چند نئے ایشوز سامنے آ رہے ہیں۔
چین اور پاکستان نے گوادر کاشغر کے لیے تین روٹس تیار کیے ہیں، مشرقی، مغربی اور متبادل روٹ، مشرقی روٹ میں سڑک گوادر سے گڈانی، خضدار، رتو ڈیرو، سکھر، ملتان، لاہور، اسلام آباد، حویلیاں اور حویلیاں سے کاشغر پہنچے گی، یہ روٹ پاکستان کے چاروں صوبوں سے گزرے گا، مغربی روٹ گوادر، آواران، رتو ڈیرو، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، ڈی جی خان، ڈی آئی خان، سوات اور گلگت سے ہوتا ہوا کاشغر جائے گاجب کہ تیسرا متبادل روٹ گوادر، تربت، پنجگور، قلات، کوئٹہ، ڈی آئی خان، سوات اور گلگت سے کاشغر پہنچے گا، چین کو خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات پر یقین نہیں، چین کا خیال ہے یہ اگر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے سڑک گزارتا ہے تو قافلے بھی لوٹ لیے جائیں گے۔
چینی لوگ بھی اغواء ہوں گے اور یہ سڑکیں بھی بلاک ہوتی رہیں گی یوں یہ وقت پر ڈلیوری نہیں دے سکے گا، چین کا یہ خدشہ غلط نہیں کیونکہ بلوچستان میں چینی انجینئرز کے اغواء اور قتل کی بے شمار وارداتیں ہو چکی ہیں، چین شروع میں وہ مشرقی روٹ بنانا چاہتا ہے جو سندھ اور پنجاب سے ہوکر کاشغر پہنچے گا لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی سیاسی قیادت کو یہ سودا منظور نہیں، اسفند یار ولی نے مشرقی روٹ کو "نیا کالا باغ" بنانے کی دھمکی دے دی جب کہ بلوچ لیڈر گوادر کو اپنی ملکیت قرار دے رہے ہیں، چینی حکام اس صورت حال کو خوف بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
دنیا میں راہ داریوں کا دور ہے اور ہم چین، بھارت اور سینٹرل ایشیا کے درمیان "چونگی ریاست" یا ٹول پلازہ بن کر اربوں ڈالر سالانہ کما سکتے ہیں، یہ روٹ ہمارے ملک میں ہزاروں گودام بھی بنوائے گا، نئی فیکٹریاں اور انڈسٹریاں بھی لگوائے گا، لاکھوں نئی نوکریاں بھی پیدا کرے گا اور ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بھی بہتر بنائے گا لیکن ہم نے اگر یہ موقع بھی کھو دیا تو پھر دنیا کے پاس یہ آپشن بچے گا، یہ پاکستان کو "مائینس" کر کے نیا روٹ بنائے، چین تاجکستان، افغانستان اور ایران سے سڑک گزارے اور بھارت بلوچستان کی افراتفری میں سرمایہ کاری کرے۔
پاکستان ٹوٹ جائے، بھارت سندھ اور بلوچستان نئی ریاستوں کے ساتھ معاہدہ کرے، بھارت سندھ اور بلوچستان روٹ بنائے اور چین تاجکستان اور افغانستان سے ہوتا ہوا ایران پہنچے اور یہ وہاں آپس میں مل جائیں، یہ روٹ بہر حال بن کر رہے گا کیونکہ یہ سینٹرل ایشیا، چین اور بھارت تینوں کی معاشی بقا کے لیے ضروری ہے۔
ہم نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے، یہ روٹ موجودہ پاکستان سے گزرے گا یا پھر اس نئے پاکستان سے گزرے گا جو چار چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو چکا ہو گا، ہم وفاق کو بچا لیں یا وفاق کو توڑ دیں، ہمارے پاس اب صرف ایک آپشن باقی ہے اور اگر خدانخواستہ یہ ہو گیا تو ہم اس سلوک کو "ڈیزرو" کریں گے کیونکہ جو قوم ہر موقع ضایع کر دے، جو قوم ترقی کے خلاف ہو وہ قدرت کی نظر میں ٹوٹنا اور ذلیل ہونا ڈیزرو کرتی ہے۔