Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Saakh Bachni Chahiye

Saakh Bachni Chahiye

مجھے چنددن قبل ایک صاحب نے امریکا سے فون کیا، وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے، میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا "میں امریکا میں کام کرتا ہوں، میری فیملی پاکستان میں رہتی ہے، میں نے ڈی ایچ اے اسلام آباد میں ایک کمرشل پلاٹ خریدا، میری خواہش تھی میں ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان واپس آ جاؤں، کمرشل پلاٹ پر پلازہ بنائوں، یہ پلازہ کرائے پر دے دوں اور اس کے بعد اطمینان سے زندگی گزار لوں " وہ سانس لینے کے لیے رکے، ان کی آواز میں گھبراہٹ کے ساتھ ساتھ ڈپریشن بھی تھا، وہ بولے " مگر میرا خواب درمیان ہی میں رہ گیا، میں پاکستانی میڈیا پر دیکھ رہا ہوں، سپریم کورٹ ڈی ایچ اے کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اس کے اکائونٹس منجمد ہو چکے ہیں جس کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے یہ اتھارٹی ختم ہو جائے گی اور میرے سمیت ہزاروں لاکھوں لوگ برباد ہو جائیں گے، میں نے اپنا پلاٹ سیل پر لگا دیا مگر کوئی شخص میرا پلاٹ خریدنے کے لیے تیار نہیں، پراپرٹی ڈیلرز کا کہنا ہے ڈی ایچ اے کے ہزاروں پلاٹس مارکیٹ میں آ گئے ہیں مگر کوئی انھیں خریدنے کے لیے رضا مند نہیں، مجھے لگتا ہے میری عمر بھر کی کمائی ضایع ہو گئی، آپ بتائیے میں کیا کروں " وہ خاموش ہو گیا۔

میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، کاروبار میں ساکھ کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو جسم میں سر کی ہوتی ہے، سر نہیں تو جسم نہیں، کاروباری ادارے، کاروباری شخصیات دہائیاں لگا کر تھوڑی تھوڑی ساکھ، تھوڑی تھوڑی عزت جمع کرتی ہیں مگر پھر کوئی چھوٹی سی غلطی، کوئی چھوٹا سا حادثہ اس ساکھ کو چند لمحوں میں ہوا میں اڑا دیتا ہے، آپ دنیا کے کسی سافٹ ڈرنک کا مونو گرام لیں، آپ بوتل میں سیاہ رنگ کا پانی بھریں، بوتل پر یہ مونو گرام چھاپیں اور یہ بوتل مارکیٹ میں رکھ دیں، لوگ اسے چند لمحوں میں خرید لیں گے، کیوں؟ کیونکہ کمپنی کا مونو گرام مارکیٹ میں اپنی ساکھ قائم کر چکا ہے، لوگوں کو اس مونوگرام پر یقین ہے، آپ آج جعلی کاغذات پر بیرون ملک جانے والے لوگوں کی کہانیاں سنیں آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ان میں سے اکثر لوگ برطانیہ کا جعلی پاسپورٹ بنا کر یورپ یا امریکا پہنچے اور یہ ممالک ان کو پناہ دینے پر مجبور ہو گئے، اس کی وجہ برطانیہ کے پاسپورٹ کی کریڈیبلٹی تھی۔

برطانیہ دنیا کا واحد ملک تھا جس کے سفارت خانے میں جب کوئی جعلی پاسپورٹ تصدیق کے لیے بھجوایا جاتا تھا تو جواب ملتا تھا ہمارا پاسپورٹ جعلی بن ہی نہیں سکتا، برطانیہ کا خیال تھا ہم نے اگر کسی ایک پاسپورٹ کو مشکوک قرار دے دیا تو پھر ہمارے تمام پاسپورٹ مشکوک ہو جائیں گے اور یہ ہمارے ملک کی توہین ہے اور یہ ہے وہ ساکھ جس کی حفاظت برطانیہ جیسا ملک بھی کرتا ہے، پاکستان اس وقت ساکھ کے شدید بحران سے گزر رہا ہے دنیا کو ہمارے کسی ادارے، کسی یونیورسٹی اور کسی سر ٹیفکیٹ پر یقین نہیں رہا، ہماری کریڈیبلٹی کا یہ عالم ہے ہمارے جہاز جرمنی کے راستے یورپ داخل ہوتے ہیں، ہماری فلائیٹس جوں ہی جرمنی کے قریب پہنچتی ہیں جرمن ائیر فورس کے دو طیارے اس کے اوپر اور نیچے پرواز کرتے ہیں اور یہ طیارے جب تک ہمارے جہاز کو کلیئر نہیں کرتے ہماری فلائیٹس جرمنی اور یورپ میں داخل نہیں ہو سکتیں، دنیا ہمارے پاسپورٹس اور ہمارے نوٹوں تک پر یقین نہیں کرتی، اسے ہمارے اسٹیٹ بینک تک پر یقین نہیں، اس بے یقینی کے عالم میں ہمارے چند اداروں نے بڑی مشکل سے اپنی ساکھ بنائی، ہم ملک ریاض کو لاکھ برا کہیں، ہم ان پر ہزار مرتبہ الزامات لگائیں اور ہم انھیں ہر روز عدالتوں میں گھسیٹیں لیکن یہ ماننا پڑے گا۔

انھوں نے بہرحال ڈیلیور کیا، انھوں نے ملک میں جدید ترین ہائوسنگ کی بنیاد رکھی اور آج بحریہ ٹائون پاکستانی نوٹ سے زیادہ کریڈیبل ہے، ڈی ایچ اے کی ساکھ بھی سی ڈی اے، ایل ڈی اے اور کے ڈی اے سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے، آج اگر ملک کے وزراء اعظم، گورنرز، وزراء اعلیٰ، آرمی چیف اور سابق چیف جسٹس تک جب اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں تو یہ سیدھا ڈی ایچ اے جاتے ہیں، آپ تحقیق کر لیں آپ کو ملک کے 90 فیصد اہم لوگوں اور ان کے خاندانوں کے گھر ڈی ایچ اے میں ملیں گے، تارکین وطن بھی سی ڈی اے پر یقین نہیں کرتے، یہ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹائون کا رخ کرتے ہیں، ہمیں فوج اور ملک ریاض سے لاکھ اختلاف کے باوجود یہ حقیقت ماننی ہو گی چنانچہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے ہم چند لوگوں کو سزا دیتے ہوئے اداروں کو تباہ نہ کریں، ان کی ساکھ خراب نہ کریں کیونکہ اگر یہ ادارے تباہ ہوئے تو اس کا نقصان براہ راست ملک کو پہنچے گا، اس سے لاکھوں لوگ ڈوب جائیں گے۔

میں اب ڈی ایچ اے کے تازہ ترین ایشو کی طرف آتا ہوں، حکومت کا ایک ادارہ ہے ای او بی آئی (ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن)۔ قانون کے مطابق ملک کے وہ تمام پرائیویٹ اور کمرشل ادارے جن میں پانچ سے زائد ملازمین ہیں وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کا پانچ فیصد اور ملازمین ایک فیصد اس ادارے میں جمع کرواتے ہیں، یہ ادارہ اس رقم کو مختلف اسکیموں میں انویسٹ کر دیتا ہے، اس سے شیئرز خریدے جاتے ہیں، کمرشل پراپرٹی خریدی جاتی ہے اور اس انویسٹمنٹ سے جتنا منافع ہوتا ہے یہ منافع ان ملازمین کو بڑھاپے میں ادا کیا جاتا ہے یا ان ملازمین کے لواحقین کے کام آتا ہے، ای او بی آئی نے 2011ء میں ڈی ایچ اے اسلام آباد سے 22 ارب روپے میں 221 کنال کمرشل زمین خریدی، ڈی ایچ اے نے یہ زمین ڈویلپ کر کے جنوری 2013ء تک ای او بی آئی کے حوالے کرنی تھی، ڈی ایچ اے کا دعویٰ ہے اس نے ای او بی آئی کو مارکیٹ سے کم قیمت میں یہ زمین فروخت کی اور اس کی قیمت میں اس وقت 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

یہ معاملہ مارچ 2013ء میں سپریم کورٹ میں آیا اور سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس سودے کو مشکوک قرار دے دیا، ڈی ایچ اے کو حکم دیا 19 جولائی تک 22 ارب روپے عدالت میں جمع کرا دیے جائیں، ڈی ایچ اے نے موقف اختیار کیا ہمارے پاس اتنی رقم موجود نہیں، عدالت نے 19 جولائی کو ڈی ایچ اے کے تمام اکائونٹس منجمد کرنے کا حکم جاری کر دیا اور یوں ایک بحران پیدا ہو گیا، اب صورتحال یہ ہے ڈی ایچ اے اور ای او بی آئی دونوں سرکاری ادارے ہیں، دونوں ایک ہی حکومت کے ماتحت ہیں، ان دونوں کے درمیان ڈیل ہوئی، یہ ڈیل غلط تھی یا درست، اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے کیونکہ فریقین کے موقف میں ٹھیک ٹھاک اختلاف پایا جاتا ہے مگر حتمی فیصلے سے قبل ڈی ایچ اے کے وہ ہزاروں پلاٹ ہولڈرز ڈیپریشن میں چلے گئے جنہوں نے اس اسکیم میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

اس فیصلے کا نقصان ڈی ایچ اے کے ان پندرہ سے بیس ہزار ملازمین کو بھی ہورہا ہے جن کی تنخواہیں اکائونٹس منجمد ہونے کے بعد بند ہو چکی ہیں اور یہ اب تنخواہ کے بغیر عید کریں گے اور اس کا نقصان وہ تمام وینڈرز، ٹھیکے دار اور ڈویلپمنٹ فرمیں بھی اٹھا رہی ہیں جو اس وقت ڈی ایچ اے کے ساتھ وابستہ ہیں، یہ ممکن ہے اس سودے میں گڑ بڑ ہوئی ہو، یہ ڈیل واقعی غلط ہو اور چند لوگوں نے اس ڈیل میں پیسے بنالیے ہوں لیکن سوال یہ ہے اس میں ڈی ایچ اے کے ملازمین، پرائیویٹ کمپنیوں اور پلاٹ ہولڈرز کا کیا قصور ہے، انھیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ سپریم کورٹ ہر لحاظ سے سپریم ہے اور ہم سب کے لیے اس کے احکامات پر عمل واجب ہے لیکن ہمیں اب کچھ بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہمیں اس نوعیت کے ایشوز کوکیسے ہینڈل کرناچاہیے، سپریم کورٹ ملک کی آخری عدالت ہے، یہ ایشو اس عدالت تک نہیں پہنچنے چاہئیں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر چیف جسٹس کو چاہیے یہ سماعت سے قبل ایسی شکایات کے جائزے کے لیے ایماندار لوگوں پر مشتمل کمیشن بنا دیا کریں۔

یہ کمیشن رپورٹ تیار کریں اور اس رپورٹ کی روشنی میں ملزموں کے خلاف کارروائی کی جائے، ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جائے مگر یہ کارروائی بند کمرے میں ہو، ان کی اوپن سماعت نہ ہو تاکہ اداروں اور ان کی ساکھ متاثر نہ ہو، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا ہم کمپنیوں اور اداروں کے اکائونٹس سیز نہ کریں کیونکہ اس سے ادارے بیٹھ جاتے ہیں اور ہم اگر ان اداروں کو دوبارہ اٹھانا یا کھڑا کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ساکھ عورت کی عصمت کی طرح ہوتی ہے، یہ اگر ایک بار چلی جائے تو یہ دوبارہ واپس نہیں آتی، صدر ریگن نے امریکا کے ایک کار ساز ادارے کی ساکھ بچانے کے لیے بینک کو کانگریس سے گارنٹی لے دی تھی، کیا ہم اتنا نہیں کر سکتے کہ ہم ایسے مقدمے جن کا تعلق اداروں کی ساکھ سے ہو ہم ان کی کھلی سماعت پر پابندی لگا دیں۔

ہم انھیں وکیلوں کی بحث اور دلائل کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیں اور ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ سرکاری ادارے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں یا نہیں، یہ کاروبار میں رقم لگا سکتے ہیں یا نہیں، اگر ہاں تو پھر ہمیں اس کے لیے واضح قانون سازی کرنا ہوگی اور اگر نہیں تو پھر اس قانون کا اطلاق تمام اداروں پر ہونا چاہیے، پھرکوئی ادارہ بشمول ڈویلپمنٹ اتھارٹیز ہائوسنگ اسکیم نہ بنا سکے، ہم اس سیکٹر کو پوری طرح پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کر دیں تا کہ بانس اور بانسری دونوں ختم ہو جائیں، یہ ایشو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے، ہم نے ای او بی آئی کو اگر سرمایہ کاری کی اجازت دے رکھی ہے تو پھر ہمیں اس ادارے کو کھل کر بزنس کی اجازت دینی چاہیے، ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہیے اس کی سرمایہ کاری سے منافع ہوا یا نہیں اور اگر نہیں ہوا تو پھر صرف ذمے داروں کا احتساب ہونا چاہیے، پورے ادارے کا نہیں، ساکھ ہر حال میں قائم رہنی چاہیے کیونکہ اس کے نقصان سے پورا ملک متاثر ہوتاہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.