یہ در ست ہے ذوالفقار علی بھٹو نے جنوری1972ء میں ملک کے تمام بڑے تجارتی، صنعتی اور کاروباری ادارے قومیا لیے تھے، ملک کے 13 بڑے بینک بھی اس پالیسی کی زد میں آئے، اتفاق گروپ اس وقت پنجاب کا دوسرا بڑا صنعتی ادارہ تھا، یہ ادارہ سات بھائیوں کی ملکیت تھا، میاں محمد شریف گروپ کے سربراہ تھے، یہ ساتوں بھائی بھٹو صاحب کے ایک حکم سے ایک رات میں سڑک پر آ گئے، یہ حقیقت سو فیصد درست ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ میاں شریف اور ان کے چھ بھائیوں کے گھروں سے صرف اسی ہزار روپے جمع ہوئے، میاں شریف کے پاس اس وقت چنگڑ محلے (اردو بازار) میں برف کا ایک کارخانہ تھا، یہ کارخانہ مدت سے بند پڑا تھا، میاں شریف اگلے دن اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر اس بند کارخانے میں چلے گئے، کارخانہ کھولا، ٹوٹی ہوئی میز اور کرسیاں سیدھی کیں، اپنے ہاتھ سے گرد جھاڑی اور یہ نئے سرے سے کام میں جت گئے۔
یہ حقیقت بھی سو فیصد درست ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ لاہور مال روڈ پر گرینڈ لیز بینک ہوتا تھا، میاں محمد شریف بینک منیجر سے ملے اور قرضے کی درخواست دے دی، میاں صاحب کے پاس گروی رکھنے کے لیے کوئی پراپرٹی نہیں تھی، ان کا کوئی گارنٹر بھی نہیں تھا، یہ اس وقت حکومت کے عتاب کا شکار بھی تھے اور "کیا یہ دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو سکیں گے" دنیا کا کوئی شخص یہ بھی نہیں جانتا تھا مگر بینک منیجر نے اس کے باوجود ذاتی ضمانت پر میاں شریف کو قرضہ دے دیا، میاں صاحب نے اس قرضے سے نئے صنعتی یونٹ لگائے اور یہ آہستہ آہستہ ایک بار پھر قدموں پر کھڑے ہو گئے۔
یہ حقیقت بھی سو فیصد درست ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ میاں نواز شریف نے 16 مئی 2016ء کو قومی اسمبلی کے فلور پر انکشاف کیا "میرے والد 1972ء میں دوبئی گئے اور دوبئی میں 10 لاکھ مربع فٹ رقبے پر محیط گلف اسٹیل مل لگائی" میاں نواز شریف نے مل کے افتتاح کی چند تصویریں بھی ایوان میں پیش کیں، ان تصویروں میں میاں شریف، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کے ساتھ کھڑے ہیں، میاں نواز شریف نے مزید انکشاف کیا "ہم نے یہ مل 1980ء میں 33۔ 37 ملین درہم میں فروخت کر دی، یہ 9 ملین ڈالر بنتے ہیں، ہمیں جب جنرل پرویز مشرف نے 2000ء میں جلاوطن کیا تو ہم نے سعودی عرب میں نئی اسٹیل مل لگا لی، جدہ کی اسٹیل مل میں گلف اسٹیل مل کا سرمایہ خرچ ہوا، ہم نے 2005ء میں سعودی عرب کی اسٹیل مل فروخت کر دی، یہ سرمایہ لندن شفٹ کیا اور وہاں فلیٹس خرید لیے"۔
یہ حقیقت بھی سو فیصد درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں اور یہ سوال جوں جوں آگے بڑھتے ہیں ان کی تعدادمیں اضافہ ہوتا جاتا ہے، وہ سوال کیا ہیں، ہم ان میں سے چند سوال یہاں پیش کرتے ہیں، مثلاً میاں شریف کے پاس 1972ء میں 80 ہزار روپے تھے، یہ سات بھائیوں کا کل سرمایہ تھا، یہ لوگ پاکستان میں انڈسٹری لگانے کے لیے گرینڈ لیز بینک سے قرض لینے پر مجبور تھے چنانچہ پھر ان کے پاس دوبئی میں 10 لاکھ مربع فٹ وسیع مل لگانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آ گیا؟ کیا یہ سرمایہ پاکستان سے دوبئی شفٹ کیا گیا تھا؟ اگر ہاں تو سرمایہ کی منتقلی کے لیے کون سا ذریعہ استعمال کیا گیا، کیا یہ سرمایہ بینک کے ذریعے دوبئی گیا؟
اگر ہاں تو کیا یہ حقیقت نہیں ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں بینکوں کے ذریعے سرمایہ باہر منتقل کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی، یہ پابندی 1991ء تک جاری رہی اور میاں نواز شریف نے پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد یہ پابندی اٹھائی، پاکستانی سرمایہ کار، صنعت کار اور تاجر اس دوران 20 سال تک اسٹیٹ بینک کی خصوصی اجازت کے ذریعے مشینری، خام مال اور اجناس کے لیے "فارن ایکسچینج" باہر بھجواتے رہے چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے اگر یہ مل میاں برادران نے پاکستانی سرمائے سے لگائی تھی تو یہ سرمایہ دوبئی کیسے گیا تھا؟ کیا ہنڈی کا ذریعہ استعمال کیا گیا، اگر ہاں تو کیا یہ قدم غیر قانونی نہیں تھا؟ دوسرا آپ کے پاس 1972ء میں کل 80 ہزار روپے تھے۔
کیا کوئی شخص اس رقم سے پاکستان اور دوبئی دو جگہوں پر اتنی بڑی انڈسٹریل ایمپائر کھڑی کر سکتا ہے؟ ہم اگر چند لمحوں کے لیے میاں صاحب کا استدلال مان لیں، ہم یہ تسلیم کر لیں یہ مل لگی، یہ 8 سال چلی اور یہ 1980ء میں 9 ملین ڈالر میں فروخت بھی ہوگئی، اب سوال پیدا ہوتا ہے، یہ نو ملین ڈالر کہاں گئے؟ کیا یہ پاکستان لائے گئے، اگر ہاں تو اس کے لیے کون سا چینل استعمال کیا گیا؟ کیا یہ بینک کے ذریعے آئے، اگر ہاں تو اس کا ریکارڈ کہاں ہے اور میاں برادران نے پوری زندگی یہ 9 ملین ڈالر اپنی بیلنس شیٹس میں ظاہر کیوں نہیں کیے؟ ہم فرض کر لیتے ہیں یہ 9 ملین ڈالر دوبئی کے بینکوں میں پڑے رہے، اب سوال پیدا ہوتا ہے، آپ نے یہ رقم 36 سال چھپائے رکھی، کیوں؟ کیا یہ غیر قانونی نہیں؟
ہم یہ بھی چھوڑ دیتے ہیں اور ہم حسین نواز کے سات مارچ 2016ء کے انٹرویو کی طرف آتے ہیں، حسین نواز نے میرے ساتھ انٹرویو میں دعویٰ کیا، ہم نے 2000ء میں سعودی بینک اور چند ہمدرد دوستوں سے قرضہ لے کر حدیبیہ میں اسٹیل مل لگائی، حسین نواز نے اس انٹرویو میں گلف اسٹیل مل اور ان 9 ملین ڈالر کا ذکر نہیں کیا تھا، کیوں؟ ہم چند لمحوں کے لیے میاں نواز شریف اور میاں حسین نواز کے خیالات کو کنفیوژن سمجھ لیتے ہیں اور ہم انھیں"گریس مارکس" دے دیتے ہیں لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے۔
یہ نو ملین ڈالر کس چینل کے ذریعے سعودی عرب لائے گئے تھے، شریف فیملی جدہ میں جلاوطن تھی، ان کے پاس پاسپورٹ تک نہیں تھے اور کیا یہ حقیقت نہیں دنیا کا کوئی جلاوطن شخص کسی بینک کے ذریعے اتنی بڑی رقم دوسرے ملک میں شفٹ نہیں کر سکتا، یہ اتنی بڑی رقم بینک سے نکال بھی نہیں سکتا چنانچہ پھر یہ رقم کیسے نکالی گئی، یہ کیسے سعودی عرب لائی گئی؟ ہم چند لمحوں کے لیے یہ بھی مان لیتے ہیں یہ رقم دوبئی کے کسی بینک میں پڑی تھی اور شریف فیملی یہ رقم بینک سے نکال کر جدہ لے گئی، اب سوال یہ ہے یہ رقم بینک سے کس نے نکلوائی؟ کیونکہ شریف فیملی کا کوئی فرد 2005ء سے قبل سعودی عرب سے باہر نہیں گیا، یہ سعودی عرب میں"اوپن جیل" کے قیدی تھے۔
یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے، حسن نواز فیملی کے پہلے فرد تھے جنھیں علاج کے لیے نومبر2005ء میں لندن جانے کی اجازت دی گئی اور شریف فیملی کی مل اس وقت تک نہ صرف مکمل ہو چکی تھی بلکہ یہ پروڈکشن کے نقطہ انتہا کو بھی چھو رہی تھی چنانچہ پھر یہ پیسہ جدہ کیسے پہنچا؟ میاں حسین نواز نے 7 مارچ کے انٹرویو میں دعویٰ کیا، گلف اسٹیل 2000ء تک ختم ہو چکی تھی، مالک مشینری کو اسکریپ میں بیچ رہا تھا، میں دوبئی گیا، میں نے وہ مشینری بہت ارزاں قیمت میں خریدی، جدہ لایا، اسے ری کنڈیشن کیا اور دوبارہ مل لگا لی، یہاں بھی دو سوال پیدا ہوتے ہیں، گلف اسٹیل مل 1972ء میں لگی، مشینری کو 2000ء میں 28 برس ہو چکے تھے، کیا کوئی مشینری 28 برس بعد دوبارہ کام کے قابل رہتی ہے؟
اور وہ بھی اتنی کہ نئی مل لاکھوں ڈالر سالانہ کما کر دے اور آخر میں 17 ملین ڈالر میں فروخت بھی ہو جائے، کیا یہ ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیا یہ بات پرانے مالک کے علم میں نہیں تھی؟ اس بے وقوف نے اتنی کار آمد مشینری اسکریپ کے بھاؤ کیوں بیچ دی؟ دوسرا حسین نواز شریف 2006ء تک سعودی عرب میں مقیم رہے، یہ سعودی عرب سے باہر نہیں گئے، ان کے پاس سفری دستاویز تک نہیں تھیں، یہ پھر مشینری خریدنے کے لیے دوبئی کیسے اور کب گئے؟ یہ تمام سوال جواب مانگتے ہیں اور مجھے یقین ہے جس دن میاں نواز شریف ان میں سے کسی ایک سوال کے جواب کی غلطی کر بیٹھیں گے، یہ چند سوال سات ہزار سوال ہو جائیں گے اور میاں صاحب سوالوں کی اس دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔
ہم اب آتے ہیں جوڈیشل کمیشن کے "ٹی او آرز" کی طرف۔ یہ ٹی او آرز بن جائیں گے، کمیشن بھی تشکیل پا جائے گا اور کارروائی بھی ہوگی لیکن یہ کمیشن کسی ملزم کو سزا نہیں دے پائے گا، کیوں؟ کیونکہ ملک میں آف شور کمپنیوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں، آپ ملک کے کسی شہری کے پانچ سال سے زائد مدت کے ٹیکس معاملات بھی نہیں کھول سکتے چنانچہ آپ کو قانون بدلنا ہوگا اور آپ اگر قانون بدل دیتے ہیں تو پھر ملک میں ہزاروں نئے پنڈورا باکس کھل جائیں گے اور اگر یہ پنڈورا باکس کھل گئے تو انھیں بند کون کرے گا؟ لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ وہ کریں جو اس وقت دنیا کر رہی ہے، دنیا کے کسی ملک میں پانامہ لیکس پر تفتیش نہیں ہو رہی، دنیا اس وقت آف شور کمپنیوں کے خلاف قانون سازی کر رہی ہے، آپ بھی نئی آئینی دفعات کے ذریعے آف شور کمپنیوں کو غیر قانونی قرار دے دیں یا پھر انھیں قانونی کور دے دیں۔
آپ یہ قانون بنا دیں ملک کا ہر بالغ شہری غیر ممالک میں موجود کمپنیاں ڈکلیئر کرے گا اور جو اس قانون کی خلاف ورزی کر ے گا اس کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور جائیداد ضبط کر لی جائے گی، آپ اسی طرح نئی ٹیکس امیونٹی اسکیم بھی شروع کرسکتے ہیں، یہ اسکیم صرف آف شور کمپنیوں کے مالکان اور پانامہ لیکس میں شامل لوگوں کے لیے ہو، یہ اسکیم ملک کا سرمایہ اور وقت دونوں بچا لے گی ورنہ دوسری صورت میں 7 سوال پہلے 70 ہوں گے، پھر 700 اور آخر میں 7000 ہو جائیں گے اور یہ سات ہزار سوال گرد اڑانے کے سوا کسی کام نہیں آئیں گے۔
آپ یقین کریں آج شریف فیملی سوالوں کی زد میں ہے، آج ان کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں، کل یہ سوال عمران خان، بلاول بھٹو، چوہدری شجاعت حسین اور سراج الحق سے بھی پوچھے جائیں گے اور یہ بھی شریف فیملی کی طرح لاجواب ہو جائیں گے، سوالوں کی اس جنگ میں قوم کو کیا ملے گا؟ خاک، راکھ اور ڈپریشن! آپ قوم پر ترس کھائیں، مسئلہ حل کریں، مسئلے کی نسل کشی نہ کریں، سات سوالوں کو سات ہزار نہ بنائیں کیونکہ یہ سات ہزار سوال قوم کو سات سو سال پیچھے لے جائیں گے۔