میں اکتوبر کے آخر میں سمرقند سے واپس آ گیا لیکن سمر قند کی دو قبریں، دو مقبرے بھی میرے ساتھ آ گئے اور میں کوشش کے باوجود ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکا، میں آج تک ان کے سحر میں گرفتار ہوں۔ سمرقند کی شام گہری اور سرخ تھی، سورج بی بی خانم مسجد کے مغربی مینار پر پہنچ کر ٹھہر گیا اور اس کی کند کرنیں سمرقند کے لوگوں کو شام کا پیغام دینے لگیں، ہم عین اس وقت حضرت قثم بن عباس ؓ کے مزار میں داخل ہو رہے تھے، یہ نبی اکرمﷺ کے کزن بھی تھے اور انھوں نے نبی رسالتﷺ کو لحد میں اتارنے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔
ہم مزار پر فاتحہ کے بعد باہر نکلے تو مزار کے دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر بائیں جانب ایک انتہائی خوبصورت مقبرہ تھا، مقبرے کی خوبصورتی دیکھنے والے کی نظروں کو جکڑ لیتی تھی، میں اس مقبرے کے سامنے رک گیا اور اپنی گائیڈ سے پوچھا "یہ کس کا مزار ہے" اس نے افسوس سے گردن ہلائی اور دکھ بھری آواز میں بولی "یہ مقبرہ دنیا کے عظیم المیوں میں سے ایک المیہ ہے" میں نے پوچھا "وہ کیسے؟ " روسی گائیڈ نے جواب دیا "یہ امیر تیمور کی سب سے چھوٹی اور بارہویں بیوی کا مقبرہ ہے، یہ انتہائی خوبصورت اورلاڈلی تھی اور انقلابی خاتون تھی، امیر تیمور اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتا تھا اور اس کی وہ باتیں بھی مان جاتا تھا جس کے اظہار تک کی دوسروں کو جرات نہیں ہوتی تھی۔
یہ تیمور کے حرم کی پہلی خاتون تھی جو پردے کے بغیر گھر سے باہر نکلی، جس نے شہر کے لیے، شہر کی خواتین کے لیے بے شمار کام کیے اور جو تنِ تنہا شہر اور اس کے مضافات میں چلی جاتی تھی اور امیر تیمور اس کی یہ گستاخی برداشت کر جاتا تھا، وہ سرخ بالوں والی، چھوٹے سے قد کی بھرپور عورت تھی جس کی ایک جھلک دیکھنے والوں کو دیوانہ بنا دیتی تھی۔ وہ حضرت قثم بن عباسؓ کی معتقد تھی، اس کی خواہش تھی وہ ان کے مزار کی دہلیز پر دفن ہو چنانچہ اس نے ابن عباسؓ کے مزار کے سامنے اپنے مقبرے کی تعمیر شروع کرا دی، اس نے مقبرے کی تعمیر کے لیے ڈیزائننگ کا فن سیکھا، زمانے کے شاندار ترین تعمیراتی ماہر جمع کیے اور انھیں مقبرے کی تعمیر کا کام سونپ دیا، وہ مقبرے کی تعمیر کے دوران روزانہ سائٹ کا وزٹ کرتی تھی۔
وہ ماہرین کو مشورے بھی دیتی تھی اور ان کے ساتھ کام بھی کرتی تھی، اس نے مقبرے کے ساتھ مدرسہ بھی بنوایا، اس مدرسے میں دو سو طالب علم تعلیم حاصل کر سکتے تھے، مقبرے کی تعمیر کے دوران امیر تیمور کا انتقال ہو گیا، حکومت تیمور کے صاحبزادے شاہ رخ مرزا کے پاس چلی گئی لیکن چھوٹی ملکہ اپنا مقبرہ بنواتی رہی، یہ مقبرہ کئی برسوں کی محنت اور اس دور کے ہزاروں طلائی سکوں کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، ملکہ نے مقبرے کے عین درمیان اپنی قبر بنوا دی، یہ سنگ مر مر کی خوبصورت قبر تھی جس کے اوپر ملکہ کے نام کا تعویذ رکھ دیا گیا، ملکہ کا خیال تھا یہ جب فوت ہو گی تو اس کی تدفین کے وقت قبر کی سل اٹھائی جائے گی، اس کی میت قبر کے اندر اتاری جائے گی اور سل دوبارہ قبر کے منہ پر رکھ دی جائے گی اور یوں اس کا مقبرہ مکمل ہو جائے گا لیکن آپ قسمت کے رنگ دیکھئے، ملکہ کو پے در پے شورشوں کی وجہ سے سمر قند چھوڑنا پڑا۔
یہ مزار شریف چلی گئی اور وہیں کسی وقت خاموشی سے فوت ہو گئی اور اس کی نعش مزار شریف کے کسی گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں دفن کر دی گئی، اس بیچاری کو اپنی وہ قبر تک نصیب نہ ہوئی جس کو اس نے ایک ایک اینٹ رکھ کر بنایا تھا چنانچہ یہ مقبرہ دنیا کے ان چند بد نصیب مقبروں میں شمار ہوتا ہے جن میں صاحبان مزار دفن نہیں ہیں "۔ گائیڈ کی گفتگو ختم ہوئی تو میں نے دوبارہ مقبرے کی طرف دیکھا، مقبرے کا شکوہ چھ سو سال بعد قائم تھا لیکن وہ بدنصیب ملکہ کہاں دفن ہے کوئی نہیں جانتا اور شاید جان بھی نہ سکے اور اس کے ساتھ ہی وہ مقبرہ اپنی جڑوں سے اٹھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ چل پڑا اور میں اب جہاں بھی جاتا ہوں یہ مقبرہ میرے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔
سمر قند کا دوسرا مقبرہ اس سے کہیں زیادہ سلگتی ہوئی یاد ہے اور یہ یاد بھی شاید اب مجھے کبھی اپنے حصار سے نہ نکلنے دے۔ آپ اگر حضرت ابن عباسؓ کے مزار کے سامنے گلی میں کھڑے ہوں تو سمر قند شہر آپ کی پشت پر ہو گا، دائیں ہاتھ حضرت ابن عباسؓ کا مزار ہو گا، بائیں جانب چھوٹی ملکہ کا مقبرہ اور آپ کے بالکل سامنے ایک قدیم مقبرہ ہوگا، یہ مقبرہ کس کا ہے کوئی نہیں جانتا کیونکہ اس کے دروازے، اس کے تعویذ اور اس کی دیواروں پر کوئی نام، کوئی نشان نہیں کھدا۔ یہ تیمور خاندان یا اس کے وزراء میں شامل کسی ایسے اہم وزیر کا مقبرہ ہے جسے زمانے نے بھلا دیا، اس جگہ ایسے سیکڑوں مقبرے بکھرے ہوئے ہیں، کچھ مقبرے مکمل مقبرے ہیں، قبروں پر سیاہ، سفید یا سبز سنگ مرمر لگا ہے، بلند چھت سے روشنی کی آمد کا مناسب بندوبست ہے، دروازوں اور کھڑکیوں پر کنندہ کاری ہے اور اینٹیں بھی باقاعدہ فنکاری اور نفاست کے ساتھ جوڑی گئی ہیں۔
یہ سمر قند کی تاریخ کے شاندار، مضبوط اور رئیس لوگوں کے مقبرے ہیں، ان مقبروں کے بعد رئوسا کے قبرستان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، سمر قند کے اس قبرستان میں سیکڑوں قبریں ہیں اورہر قبر ہنر کاری کا خوبصورت ترین نمونہ ہے اور فن کے ان نمونوں کے درمیان اس گمنام مقبرے کی کیا حیثیت ہے؟ یہ سوال اس وقت یقیناً آپ کے دماغ میں گردش کر رہا ہوگا، اس مقبرے کی اہمیت اس کے دروازے پر درج ایک چھوٹا سا فقرہ ہے، مقبرے کے مالک نے مرنے سے قبل دروازے کی آرچ پر نیلے پتھروں سے ایک فقرہ لکھوایا اور اس فقرے نے اس مقبرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی دے دی۔ میں نے یہ فقرہ پڑھا، گائیڈ سے اس کا ترجمہ کروایا اور چند لمحوں کے لیے سن ہو کر رہ گیا۔
مقبرے کے دروازے پر درج تھا "آپ خواہ چین کے بادشاہ ہوں، یا مصر کے فرمانروا آپ نے آنا بہرحال اسی جگہ ہے" میں نے موت کی حقیقت کے بارے میں سیکڑوں فقرے پڑھے ہیں لیکن اس فقرے نے مجھے جکڑ لیا، آپ بھی ایک لمحے کے لیے سوچیے آپ کیا ہیں؟ آپ صدر آصف علی زرداری ہوں گے، راجہ پرویز اشرف ہوں گے، میاں نوازشریف، چوہدری شجاعت حسین، مولانا فضل الرحمان یا الطاف حسین ہوں گے یا پھر آپ ان سے بھی کہیں زیادہ طاقتور، امیر، خوبصورت اور بااثر ہوں گے، آپ اوباما بھی ہو سکتے ہیں، ملکہ الزبتھ بھی ہو سکتے ہیں، سعودی شاہ بھی ہو سکتے ہیں، آپ بل گیٹس یا وارن بفٹ بھی ہو سکتے ہیں اور آپ بشار الاسد بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس ساری جدوجہد، اس ساری کوشش، اس ساری افراتفری اور اس سارے تام جھام کا اختتام کیا ہوگا؟
ہم اپنی کامیابیوں سے کتنی دیر لطف اندوز ہو سکیں گے، ہم خواہ دس لاکھ لوگوں کی کھوپڑیوں پر تخت بچھا کر بیٹھ جائیں لیکن ایک نہ ایک دن اس تخت نے ٹوٹناہے اور اس سے قبل ہم نے اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے اور ہماری کھوپڑی نے بھی دوسری کھوپڑیوں کے ساتھ مٹی کا رزق بن جانا ہے، ہم نے بھی ان کروڑوں، اربوں لوگوں کی طرح گم نام ہڈیاں بننا ہے جو ہم سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کے پیاروں نے انھیں مٹی کے سپرد کر دیا۔ یہ دنیا عجیب جگہ ہے اس میں فرعون بھی مر جاتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کا وقت بھی پورا ہو جاتا ہے، اس میں نمرود کی خدائی بھی ختم ہو جاتی ہے اور حضرت ابراہیمؓ بھی اس سے رخصت ہو جاتے ہیں اور اس سے حضرت امام حسینؓ بھی چلے جاتے ہیں اور یزید بھی انتقال کر جاتا ہے اور پیچھے اچھائی اور برائی کی صرف کہانیاں رہ جاتی ہیں۔ آپ صدیقؓ بن جاتے ہیں یا ابوجہل کہلاتے ہیں۔
موت دنیا کی دلچسپ ترین حقیقت ہے، اس میں دو خوبیاں ہیں۔ ایک، دنیا کا ہر جاندار وہ خواہ کتنا ہی اہم، مضبوط اور عظیم کیوں نہ ہو جائے اسے موت ضرور آتی ہے اور دو، یہ صرف ایک بار آتی ہے، دنیا میں کوئی شخص دوسری یا تیسری بار نہیں مرتا، ہم نے مرنا صرف ایک بار ہے اور اس مقبرے کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے سوچا جس موت نے ضرور آنا ہے ہم اس کے بارے میں سنجیدگی سے کیوں نہیں سوچتے اور جس زندگی نے ہر صورت چلے جانا ہے ہم اس کے بارے میں اتنے سنجیدہ کیوں ہوتے ہیں، ہم اس کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کیوں کرتے ہیں اور ہم اس کے لیے ہر حد کیوں پار کر جاتے ہیں۔۔ !
دنیا میں جب چین اور مصر کے بادشاہ گم نام قبروں میں اتر گئے تو ہم، ہماری انا اور ہمارے اقتدار کی کیا حیثیت ہے؟ ہم دنیا میں کتنی دیر رہ لیں گے، ہم اپنی انا کو کتنی دیرتک دوسروں کا ناحق خون پلا لیں گے اور ہم معصوم لوگوں کو کتنی دیر بے وقوف بنا لیں گے کیونکہ ہم نے بالآخر جانا اسی گم نام قبر میں ہے جس میں سمرقند کا وہ بے نام شہزادہ دفن ہے جس نے اپنے دروازے پر لکھ کر لگا دیا میں یہاں آ گیا اور تم نے بھی یہاں آنا ہے خواہ تم چین یا مصر کے بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔
میں سمر قند سے واپس آ گیا لیکن یہ دو مزار، یہ دو مقبرے بھی میرے ساتھ آ گئے اور یہ شاید اب پوری زندگی میرے ساتھ رہیں گے۔