شیخ حفیظ صاحب میں چاروں خوبیاں تھیں، وہ صاحب مطالعہ تھے، وہ آخری عمر تک کتابیں پڑھتے رہے، مجھے امیر تیمور سے انھوں نے ہی متعارف کرایا تھا، میں نے سیرت کی درجنوں کتابیں بھی ان کی "ریکمنڈیشن" سے پڑھیں، ان کی کتابوں میں"عکس سیرت" جیسی معرکۃ الآراء کتاب بھی شامل تھی، میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے دنیا میں کتابیں پڑھنے والا کوئی شخص تنگ نظر نہیں ہو سکتا، مطالعہ آپ کے دماغ اور ظرف دونوں کو وسیع کرتا ہے اور شیخ حفیظ کھلے دل و دماغ کے انسان تھے، ان کی دوسری خوبی سفر تھی، وہ عین جوانی میں پورا یورپ پھر کر واپس آ گئے تھے، یہ سفر ان کی شخصیت کا حصہ تھا، وہ گفتگو میں ہمیشہ کسی نہ کسی ملک کا حوالہ دیتے تھے، میرا یہ بھی تجربہ اور مشاہدہ ہے سفر بھی انسان کے وژن کو کھولتا ہے اور مسافر کبھی "بائیسڈ" نہیں ہو سکتے، یہ تمام انسانوں سے محبت کرتے ہیں۔
شیخ صاحب ہمیشہ مشورہ دیا کرتے تھے تم دنیا کو جتنا دیکھ سکتے ہو بڑھاپے سے پہلے دیکھ لو کیونکہ انسان ساٹھ سال کی عمر کے بعد بے بس ہونے لگتا ہے، اس کے ہاتھ اور پاؤں کنٹرول میں نہیں رہتے، میں نے ان کا یہ مشورہ بھی پلے باندھ لیا، ان کی تیسری خوبی دنیا داری تھی، وہ زندگی کی تمام بھٹیوں سے گزرے ہوئے انسان تھے، بچپن اور جوانی میں بے انتہا امارت دیکھی، والد رئیس آدمی تھے، انھوں نے بیٹے کو 1960ء کی دہائی میں پڑھنے کے لیے لندن بھجوا دیا، وہ جوانی میں زندگی کی تمام فکروں سے آزاد رہے لیکن خاندان پھر زوال کا شکار ہوگیا اور سیٹھ کا بچہ ہوٹل میں کام کرنے پر مجبور ہوگیا، عروج و زوال کے اس کھیل نے ان کے سامنے انسانوں، دوستوں، رشتے داروں اور دشمنوں کے سارے رنگ کھول کر رکھ دیے۔
میرا یہ بھی تجربہ اور مشاہدہ ہے دنیا کا جو انسان جوانی میں عروج اور زوال دونوں دیکھ لے وہ مردم شناس ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں انسانوں کی شاخت کی سینس پیدا کر دیتا ہے اور شیخ صاحب مرحوم میں یہ خوبی بھی موجود تھی، وہ چند لمحوں میں دوسروں کو سمجھ جاتے تھے، وہ مجھے ہمیشہ کہتے تھے کسی شخص کے ساتھ چلنے سے پہلے اسے چیک کر لیا کرو، دھوکے سے بچ جاؤ گے، وہ کہتے تھے وعدہ کردار کا مین سورس ہوتا ہے، جو شخص وعدہ خلاف ہو وہ کبھی اچھا نہیں ہو سکتا اور جو شخص بات کرنے کے بعد کھڑا رہے وہ کبھی برا نہیں ہو سکتا، آپ خود کبھی وعدہ خلافی نہ کرو اور کسی وعدہ خلاف کے ساتھ چلنے کی غلطی نہ کرو، وہ کہتے تھے لوگ زیادہ تر پیسے پر "ایکسپوز" ہوتے ہیں۔
آپ کے دوست اگر آپ سے ادھار لے کر واپس نہ کریں تو یہ آپ کے دوست نہیں ہیں اور اگر اسی طرح آپ کے مشکل وقت میں آپ کا خوش حال دوست آپ کی مدد نہیں کرتا تو آپ اسے اپنا دوست سمجھ کر غلطی کر رہے ہیں اور ان کی چوتھی خوبی ان کے باطنی علوم تھے، وہ رمل کے ماہر تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اس علم پر کمال دسترس دے رکھی تھی، وہ اعداد کا حساب لگا کر چند لمحوں میں پیش گوئی کر دیتے تھے اور ان کی پیش گوئی عموماً سچ ثابت ہوتی تھی، میں ان سے یہ علم سیکھنے کی کوشش کرتا رہا لیکن میں 15 سال کی تپسیا کے باوجود نہ سیکھ سکا، وہ کہتے تھے، یہ مشکل علم ہے، یہ چالیس سال کی مسلسل مشقت کے بغیر نہیں آ سکتا۔ شیخ حفیظ مرحوم ہر لحاظ سے میرے استاد تھے، میں نے زندگی کے ہر مشکل لمحے میں ان کی مدد لی اور انھوں نے دل و جان سے میری مدد کی۔
کل رات شب برأت تھی، مجھے کل اچانک شیخ حفیظ صاحب یاد آ گئے، میں نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کے لیے دعا کی اور پھر سوچا میرے استاد کی کوئی ایسی خواہش جسے میں پورا نہ کر سکا ہوں، میں سوچتا رہا لیکن مجھے یاد نہیں آیا، ہاں البتہ وہ زندگی کے آخری حصے میں اپنے پینشنر دوستوں کے لیے پریشان رہتے تھے، وہ کہا کرتے تھے "ہم نے پینش کے لیے محتسب اعلیٰ کو درخواست دے رکھی ہے، کیا یہ فیصلہ میری زندگی میں ہو جائے گا" میں اس وقت ان کی اس بات کو سیریس نہیں لیتا تھا لیکن کل رات یہ بات اچانک یاد آ گئی۔
شیخ حفیظ صاحب نے پوری زندگی حبیب بینک میں ملازمت کی، یہ 1997ء میں وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، حکومت نے 2002ء میں حبیب بینک کی نج کاری کر دی، نج کاری کے وقت فیصلہ ہوا بینک کے ریٹائر ملازمین کو 1977ء کی اسکیم کے تحت پینشن اور مراعات دی جائیں گی، حکومت نے 30 نومبر 1977ء کو حکم جاری کیا تھا حکومت کے ملازمین کی پینشن اور گریجویٹی میں جب بھی اضافہ ہوگا، بینکوں کے ملازمین کو بھی اتنا ہی اضافہ دیا جائے گا، حبیب بینک کی نجکاری کے وقت یہ شق بھی معاہدے میں شامل کر دی گئی۔
اس وقت بینک کے 880 سینئر ملازمین ریٹائر ہو چکے تھے، نئی انتظامیہ انتظامات سنبھالنے کے بعد معاہدے سے منحرف ہوگئی اور اس نے پینشن میں اضافے سے انکار کر دیا، یہ انکار آج تک جاری ہے، یہ ملازمین اس وقت چار، پانچ اور چھ ہزار روپے پینشن لے رہے ہیں، یہ آج کے مہنگائی کے دور میں ان چند ہزار روپوں میں گزارہ کر رہے ہیں، یہ ملازمین انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف وفاقی محتسب کی عدالت میں چلے گئے، یہ کیس 14 سال چلا یہاں تک کہ وفاقی محتسب نے 2014ء میں ریٹائر ملازمین کے حق میں فیصلہ دے دیا، بینک نے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کے سامنے اپیل کر دی۔ صدر نے یہ فیصلہ پینڈنگ کر دیا، یہ فیصلہ تاحال معطل ہے، اس دوران 880 سینئر ملازمین سے آدھے شیخ حفیظ صاحب کی طرح انتقال کر گئے جب کہ باقی آدھے ایوان صدر کی طرف دیکھ رہے ہیں، بینک انتظامیہ کی پوری کوشش ہے یہ لوگ بھی فیصلے پر عملدرآمد سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو جائیں، یہ لوگ اس وقت ستر اور اسی کی دہائی میں ہیں، یہ تیس، پینتیس اور چالیس سال بینک کی خدمت کرتے رہے لیکن بینک نے انھیں گنڈیری کی طرح چوس کر پھینک دیا، کیا یہ ظلم نہیں؟ اور یہ لوگ اگر اسی طرح دنیا سے محروم چلے گئے تو کیا یہ انصاف ہوگا؟
صدر ممنون حسین خود بزرگ شہری ہیں، یہ چند لمحوں کے لیے خود کو ان ملازمین کی قطار میں کھڑا کر کے دیکھیں، یہ چند لمحوں کے لیے سوچیں یہ ریٹائر لوگ بزرگ بھی ہیں، یہ بیمار بھی ہیں اور یہ بے آسرا بھی ہیں اور ان کے اس ادارے نے بھی انھیں چھوڑ دیا ہے جس کو انھوں نے زندگی کے تیس چالیس سال اپنا خون دیا تو ان کی کیا حالت ہوگی؟ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو آپ کیا محسوس کرتے؟ صدر ممنون حسین اگر چند لمحے دے دیں، یہ اگر دو منٹ کے لیے حبیب بینک کے پینشنرز کی فائل منگوا کر پڑھ لیں تو مجھے یقین ہے یہ اپنی ناک کے نیچے ہونے والا ظلم دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے۔
یہ جان لیں گے ہمارا دفتری نظام ظالم کے ساتھ کس حد تک مل جاتا ہے، یہ کس طرح تاخیری حربے استعمال کر کے مظلوم کو مزید مظلوم بنا دیتا ہے، یہ جان لیں گے وفاقی محتسب اعلیٰ نے 2014ء میں حبیب بینک کے ملازمین کے حق میں فیصلہ دیا، بینک نے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کی اور صدر نے معاملہ "پینڈنگ" کر دیا، اس "پینڈنگ" کو دوسال گزر چکے ہیں، ان دو برسوں میں شیخ حفیظ جیسے درجنوں ریٹائر ملازمین انتقال کر گئے ہیں، باقی تیاری میں بیٹھے ہیں یا پھر اسپتالوں میں آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ان کا کیا قصور ہے؟
مجھے یقین ہے صدر صاحب جب یہ فائل دیکھیں گے تو یہ خود کو ان بزرگوں، ان بیماروں کے مسائل کا ذمے دار سمجھیں گے، صدر صاحب اگر حکومت کے دوسرے اداروں کے ریٹائر ملازمین کی پینشن کا ریکارڈ بھی دیکھ لیں تو انھیں معلوم ہو جائے گا 16 برسوں میں سرکاری اداروں بشمول اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ملازمین کی پینشنوں میں سات گنا اضافہ ہوا، حبیب بینک کے وہ ریٹائر ملازمین جو آج صرف پانچ چھ ہزار روپے پینشن لے رہے ہیں ان کے مقابلے میں مساوی گریڈ کے حامل سرکاری ملازمین کو آج ستر اسی ہزار روپے پینشن مل رہی ہے۔
کیا یہ زیادتی نہیں! اور یہ زیادتی اس وقت مزید زیادتی ہو جاتی ہے جب بینک نے یہ پینشن بھی ذاتی اکاؤنٹ سے ادا نہیں کرنی، یہ وہ رقم ہے جو یہ ملازمین دوران ملازمت اپنی تنخواہ سے کٹواتے رہے، بینک نے اس رقم کی سرمایہ کاری کی، اربوں روپے کمائے لیکن یہ اب ان ملازمین کو ان کا حصہ دینے کے لیے تیار نہیں، کیوں؟ ان ملازمین کے ساتھ انصاف کون کرے گا؟ میری صدر مملکت اور وزیراعظم سے درخواست ہے، میری چیف جسٹس آف پاکستان اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور ججز سے بھی درخواست ہے۔
مہربانی فرما کر آپ ریٹائر ملازمین کی تمام فائلیں منگوائیں اور ان کا فوری فیصلہ کر دیں، ہم لوگوں کو خوبصورت بچپن اور شاندار جوانی نہیں دے سکتے، نہ دیں لیکن ہم کم از کم ایک دستخط، ایک فیصلے سے چند بوڑھوں، چند بزرگوں کی مشکلات تو کم کر سکتے ہیں، بزرگ ڈاکیے ہوتے ہیں، یہ معاشرے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے پیغامبر ہوتے ہیں، یہ ڈاکیے موت کی دہلیز پر بیٹھے ہیں، یہ کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہو جائیں گے، آپ صدر صاحب، وزیراعظم صاحب اور چیف جسٹس صاحب! آپ چند لمحوں کے لیے سوچئے، یہ لوگ اللہ کے پاس آپ کی طرف سے کیا پیغام لے کر جائیں گے، آپ سوچیں گے تو آپ بہتر فیصلہ کر سکیں گے چنانچہ آپ سوچئے اور فیصلہ کیجیے۔