سمرقند میں خنکی تھی، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، شرکاء نے گرم کوٹ پہن رکھے تھے مگر میں اور ڈاکٹر رازق داد ہاف سلیو شرٹس میں ٹھٹھر رہے تھے، میں پاکستان سے آیا تھا اور پاکستان میں 30 اگست کو درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، میرے گمان میں بھی نہیں تھا سمر قند میں اس وقت سردی شروع ہو چکی ہو گی، ڈاکٹر صاحب تاشقند سے آئے تھے اور تاشقند میں بھی جمعہ کے دن گرمی تھی لہٰذا ہم سادگی میں مارے گئے مگر سمرقند کے لوگ ہماری طرح سادہ نہیں تھے، یہ کوٹ اور مفلر لے کر ریگستان پہنچے تھے اور خاصے مطمئن اور خوش تھے جب کہ ہم لوگ بار بار ٹانگیں ہلا کر اور ہاتھ مل کر خود کو گرم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ازبکستان میں ہر سال انٹرنیشنل میوزک فیسٹول ہوتا ہے۔
اس میں دنیا جہاں سے بہترین موسیقار اور گلوکار شریک ہوتے ہیں، 30 اگست کی شام سمرقند میں نواں انٹرنیشنل میوزک فیسٹول تھا، فیسٹول کے لیے ریگستان اسکوائر میں اسٹیج لگایا گیا تھا، ریگستان سمرقند کے اس علاقے کو کہتے ہیں جس میں ماضی کے تین عظیم مدارس ہیں، یہ تین مدارس سامنے اور دائیں بائیں واقع ہیں، ان کے درمیان اسکوائر یا خالی جگہ ہے جب کہ سامنے کی سائیڈ خالی ہے، آپ اس جگہ کو لاہور کی بارہ دری سمجھ لیں، آپ جب لاہور کی بارہ دری میں پہنچتے ہیں تو آپ کے دائیں جانب شاہی قلعے کا بلند و بالا دروازہ آتا ہے، بائیں جانب بادشاہی مسجد جب کہ سامنے راجہ رنجیت سنگھ کی مڑھی یا گردوارہ ہے اور ان تینوں کے درمیان سنگ مرمر کی سفید بارہ دری ہے اور اس کے گردا گرد گھاس کے قطعات ہیں، ریگستان بھی ایک ایسا ہی علاقہ ہے۔
اس کے تین اطراف مدارس کے اونچے گیٹ، مینار اور گنبد ہیں جب کہ درمیان میں خالی جگہ ہے، یہ خالی جگہ جمعہ کی شام انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول کا اسٹیج تھی، انٹری کی سائیڈ پر شرکاء اور تماشائیوں کی کرسیاں لگی تھیں جب کہ سامنے ہزاروں مربع فٹ کے اسٹیج پر پھول، رنگین کپڑے اور قالین بچھے تھے، ریگستان میں شام اتر رہی تھی، شام کے رنگ پورے ماحول کو رومان پرور بنا رہے تھے، شرکاء محدود تعداد میں تھے، اس کی وجہ دنیا کے حالات ہیں، تقریب میں مختلف ممالک کے سفیر، اعلیٰ سرکاری عہدیدار اور 52 ممالک کے سو سے زائد فنکار موجود تھے چنانچہ انتظامیہ نے محدود کارڈز اور پاس جاری کیے تھے، قوم یہ تقریب ٹی وی پر براہ راست دیکھ رہی تھی، یہ فیسٹول تین دنوں سے جاری تھا، 30 اگست کی شام اس کا آخری دن تھا، ہم اختتامیہ تقریب کے مہمان تھے۔
میں صبح کی فلائٹ سے تاشقند پہنچا اور ڈاکٹر رازق داد کے ساتھ ائیر پورٹ سے بائی روڈ سمرقند روانہ ہو گیا، تاشقند اور سمرقند کے درمیان چار سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے، سڑک اچھی ہے مگر ہماری موٹروے کا مقابلہ نہیں کرتی، راستے میں چھوٹے چھوٹے قصبے اور دیہات آئے، ہم مختلف جگہوں پر رکتے ہوئے شام چھ بجے سمرقند پہنچ گئے، دیہات میں پسماندگی اور غربت دکھائی دیتی ہے مگر یہ ہمارے دیہات کے مقابلے میں صاف ستھرے ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں کوڑا دکھائی نہیں دیتا، محلوں میں کاغذ، شاپنگ بیگز اور ریپر بھی اڑتے نظر نہیں آتے، گھروں کے باہر اور اندر بھی ترتیب اور صفائی ملتی ہے تاہم لوگ واش روم کے معاملے میں زیادہ صاف نہیں ہیں، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے اندر واش روم بنانے کا رجحان نہیں، یہ ہندوستان کے پرانے شہروں کی طرح رہائشی علاقے سے ذرا ہٹ کر واش روم بناتے ہیں اور یہ بہت گندے اور بدبودار ہوتے ہیں، یہ واش روم میں صابن بھی نہیں رکھتے۔
یہ اس میں خاصے پاکستانی واقع ہوئے ہیں تاہم یہ خوراک کے معاملے میں صاف ستھرے ہیں، آپ کو چھوٹے چھوٹے علاقوں کے ریستورانوں میں بھی اچھی خوراک ملتی ہے، یہ گوشت خور اور پھلوں کے شیدائی ہیں، آپ کو ہر جگہ باربی کیو ملتا ہے، یہ کھانے کے بعد پھل کھاتے ہیں، ازبکستان کو پھلوں کا گھر کہا جاتا ہے، آپ کو سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں تازہ پھلوں کے ڈھیر ملتے ہیں، شام کے وقت لوگ گاڑیوں کی ڈکیاں فروٹ سے بھر کر گھر آتے ہیں، یہ لوگ کھانے کے درمیان چائے پیتے ہیں، یہ پانی میں سیاہ چائے کی پتی ڈال کر قہوہ بناتے ہیں اور یہ قہوہ کھانے کے دوران پیتے رہتے ہیں، یہ یقیناً معدے کے لیے اچھا ہوتا ہو گا اور یہ گوشت کو ہضم کرنے میں معاون ہوتا ہو گا، ان کے ڈرائیور بہت ایکٹو ہوتے ہیں، آپ رینٹ پر کار لیں، ڈرائیور آپ کا محافظ بھی بن جائے گا، گائیڈ بھی اور میزبان بھی، یہ آپ کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے اور یہ اور اس کے مہمان دونوں مائینڈ نہیں کرتے، یہ گاڑیوں کو پٹھان کی سائیکل کی طرح سجا کر رکھتے ہیں، گاڑی کے اندر ہر جگہ چمکیلے کاغذ اور پلاسٹک کے کور چڑھے ہوتے ہیں۔
یہ سیٹوں پر بھی تین تین قسم کے کور چڑھا کر رکھتے ہیں، ڈکی کے فرش پر قالین بچھاتے ہیں اور ڈیش بورڈ کو کپڑے، قالین کے ٹکڑے یا موم کے کاغذ سے ڈھانپ کر رکھتے ہیں، سوسائٹی بے خوف ہے، لوگ سڑکوں پر بلاخوف پھرتے ہیں بالخصوص لوگ شام کے وقت فیملی کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں، گارڈنز اور پارکوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور فواروں کے پانی سے کھیلتے ہیں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شام کے وقت اکثر جگہوں پر ناچتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں اور کوئی ان کی طرف نفرت سے نہیں دیکھتا، شہر کی تمام گاڑیاں ٹیکسیاں ہیں، آپ کسی خالی گاڑی کو ہاتھ دیں وہ آپ سے پانچ دس ہزار سم (دو چار امریکی ڈالر) لے کر آپ کو منزل مقصود تک پہنچا دے گی، لوگوں کی اکثریت مذہبی ہے مگر یہ لوگ شدت پسند نہیں ہیں، یہ دوسرے کے عقیدے کو برا نہیں کہتے، مسجدیں ہیں مگر اذان کی آواز مسجد کی حدود سے باہر نہیں جاتی، علماء کرام مسجد میں تقریر نہیں کر سکتے، وعظ ٹولیوں میں دیا جاتا ہے اور اس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جا سکتی جس میں مذہبی شدت ہو یا اختلاف کو ہوا دیتی ہو۔
سمر قند کے میوزک فیسٹول میں ان 52 ممالک کے جھنڈے لہرا رہے تھے جن کے فنکار اس میلے میں شریک تھے، جھنڈوں کی دوسری قطار میں پاکستان کا جھنڈا بھی موجود تھا جس کا مطلب تھا فیسٹول میں پاکستان کا کوئی بینڈ بھی موجود ہے، میں پاکستانی فنکاروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، قطاروں میں مختلف ملکوں کے فنکار بیٹھے تھے۔ میں ان مختلف لوگوں کے درمیان اپنے مختلف لوگ تلاش کر رہا تھا اور پھر وہ مجھے مل گئے، یہ صنم ماروی اور اس کا خاوند تھا اور ان کے ساتھ ان کے سازندے تھے، صنم کے لہجے میں صوفیوں کا رچائو اور آواز میں ماضی کی گم گشتہ آوازوں کی تڑپ ہے، یہ صرف گاتی نہیں ہے یہ انسان کو ٹائم مشین پر بٹھا کر ان زمانوں میں لے جاتی ہے جن میں انسان صحرا کی ریت میں پانی اور محبت دونوں تلاش کرتا تھا، جن میں محبت انسان کو چڑھے دریا پار کرنے پر مجبور کر دیتی تھی یا پھر بھنبھور کے اجڑے شہروں میں سسی بنا کر بگولے کی طرح تڑپاتی تھی یا پھر کان میں جوگیوں کے مندرے ڈال کر ہاتھ میں کشکول پکڑا دیتی تھی۔
دنیا میں ہزاروں سزائیں ہیں اور ہر سزا انسان کی روح کی جڑیں تک ہلا دیتی ہے لیکن یقین کیجیے محبت کی سزا دنیا کی سخت ترین سزا ہے، اس سزا میں انسان کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کی کھال بھی کھینچی جاتی ہے اور یہ منہ سے اف تک نہیں کر سکتا، اس کے پائوں بھنور بن جاتے ہیں اور آنکھیں ہزاروں سال سے پانی کو ترستی ہوئی زمین۔ دنیا کا ہر عاشق آدھا ولی ہوتا ہے کیونکہ ولایت محبت کی دوسری منزل ہوتی ہے اور یہ شخص یہ منزل چند دنوں میں طے کر لیتا ہے، آپ محبت کی کوئی لوک داستان پڑھ لیں، آپ کو عاشق کسی نہ کسی درگاہ، کسی نہ کسی صوفی کے پاس جاتا ہوا ضرور ملے گا اور وہ صوفی اس کے لیے سارے دروازے کھول دے گا، کیوں؟ کیونکہ ولایت محبت کا پہلا اسٹیشن ہے اور مسافر اس وقت تک دوسرے اسٹیشن تک نہیں جا سکتا وہ جب تک پہلے اسٹیشن سے نہ گزر جائے اور یہ بھی حقیقت ہے عاشق اس اسٹیشن پر چند ماہ سے زیادہ نہیں ٹھہرتا، یہ کانوں کی مندریاں اتار کر آگے چل پڑتا ہے، اپنی اصل منزل کی طرف اور صنم ماروی کی آواز میں محبت کے اس سفر کی گونج ہے، میں اس کے پاس پہنچا، وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی۔
ملک سے ہزاروں میل دور، ایک میوزک فیسٹول میں ایک پاکستانی مداح کی موجودگی نے اسے نہال کر دیا تھا، وہ خوش بھی تھی اور شاداں بھی، ہم دیر تک صوفیانہ کلام پر بات کرتے رہے، وہ گزشتہ شب اپنی پرفارمنس دے چکی تھی، اس پرفارمنس کے دوران مجمعے میں اردو سمجھنے والا کوئی شخص موجود نہیں تھا مگر میوزک سے پیار کرنے والوں نے نشست سے اٹھ کر اس کے لیے تالیاں بجائی تھیں اور وہ اس پذیرائی پر خوش تھی، ہم بیٹھ گئے، تقریب شروع ہوئی، نویں نمبر پر ماروی کے گروپ کو اسٹیج پر بلایا گیا، یہ لوگ اپنا ایوارڈ لینے کے لیے اسٹیج پر گئے، ہم دو پاکستانیوں نے ان کے لیے دیوانہ وار تالیاں بجانا شروع کر دیں، ہماری دیوانگی دیکھ کر تمام شرکاء بھی تالیاں بجانے لگے اور یوں ماروی ایوارڈ لے کر واپس آئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، یہ خوشی کے آنسو تھے یا پھر یہ اجنبی زمین پر دو پاکستانیوں کو دیکھ کر اس کی پلکوں تک پہنچے تھے، میں سمرقند کی ٹھنڈی ہوتی شام میں اس کا اندازہ نہ کر سکا، دنیا آج تک جس طرح فنکاروں کے فن کی وجہ دریافت نہیں کر سکی یہ اسی طرح انسان کے آنسوئوں کی وجوہات بھی نہیں سمجھ سکی، میں بھی نہیں سمجھ سکا۔