Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shahzada Dawood Aur Surah e Noor

Shahzada Dawood Aur Surah e Noor

شہزادہ داؤد، مقصود قادر شاہ اور دنیا بھر کے بحری ماہرین یہ تینوں مختلف اکائیاں ہیں، یہ تینوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے لیکن سورۃ نور کی چالیسویں آیت نے ان سب کو ایک دوسرے سے باندھ دیا، ٹائیٹن آب دوز 18 جون کوکینیڈا کے علاقے نیو فاؤنڈ لینڈ سے400میل دور ڈوب گئی لیکن یہ ڈوبتے ڈوبتے قرآن مجید کا ایک اور راز کھول گئی، اس نے دنیا کو حقانیت کی ایک اور مثال دے دی۔

شہزادہ داؤد پاکستان کے امیر ترین بزنس مین حسین داؤد کے صاحبزادے ہیں، حسین داؤد کھرب پتی ہیں، یہ بجلی، فوڈ اینڈ ایگری کلچر، پیٹرو کیمیکل، کیمیکل اسٹوریج، سولر انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل شعبوں میں کاروبار کرتے ہیں، داؤد خاندان سو سال سے کاروبار کر رہا ہے، یہ اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہرکولیس کے مالک ہیں، شہزادہ داؤد ان کے بڑے صاحب زادے ہیں، حسین داؤد کے چار بچے ہیں۔

سبرینا، شہزادہ، عظمیٰ اور صمد، شہزادہ داؤد کی عمر 48سال تھی، ان کی بیگم کرسٹین برطانوی ہیں اور ان کے دو بچے ہیں، بیٹا سلیمان اور بیٹی علینا، یہ لوگ برطانیہ میں رہتے ہیں، حسین داؤد نے 2021 میں شہزادہ کو اینگرو کا نائب چیئرمین بنا دیا، شہزادہ غیرمعمولی انسان تھے، انھیں فوٹو گرافی اور جانور پالنے کا شوق تھا، یہ نیچر لور بھی تھے اور فلاح وبہبود کے بے تحاشا کام بھی کرتے تھے۔

یہ اپنے 19 سالہ بیٹے سلیمان کے ساتھ 18 جون 2023 کو ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے ٹائیٹن آب دوز کے ذریعے سمندر میں اترے اور پھر باہر نہیں آ سکے، یہ آب دوز اوشین گیٹ کمپنی کی ملکیت تھی اور اس کا سی ای او اسٹاکن رش بھی ان کے ساتھ تھا، آب دوز میں پانچ لوگوں کی گنجائش تھی اور اس میں پانچ ہی لوگ تھے، تین مسافر اور دو عملے کے لوگ، شہزادہ، سلیمان اور برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، آب دوز کو پال ہنری چلا رہا تھا جب کہ سی ای او اسٹاکن رش بھی ان کے ساتھ تھا۔

اوشین گیٹ 2021سے ارب پتیوں کو سمندر کی تہہ میں 3300 میٹر نیچے ٹائی ٹینک کے ملبے کی سیر کرا رہی تھی، ٹائی ٹینک 1912میں دنیا کا سب سے بڑا اور جدید بحری جہاز تھا، یہ جہاز اپنے پہلے سفر کے دوران ہی نیو فاؤنڈلینڈ سے 400 ناٹیکل میل دور برف کے پہاڑ سے ٹکرا کرتباہ ہوگیا اور اس کا ملبہ ساڑھے تین ہزار میٹر گہرائی میں ڈوب گیا۔

جہاز پر دو ہزار مسافر سوار تھے، ان میں سے 1500 ڈوب کر مر گئے، ٹائی ٹینک کا ملبہ 1985 میں دریافت ہوا اور اوشین گیٹ نے 2021 سے دنیا بھر کے امراء کو اس کی سیر کرانی شروع کر دی، یہ سیر ساڑھے دس ہزار کلو گرام وزنی اور 21فٹ چوڑی آب دوز ٹائیٹن میں کرائی جاتی تھی جس میں 96 گھنٹوں کا لائف سسٹم موجود ہوتا تھا اور کمپنی فی کس اڑھائی لاکھ ڈالر وصول کرتی تھی، آب دوز سمندر میں 13 ہزار ایک سو فٹ گہرائی میں جا سکتی تھی، شہزادہ داؤد اور سلیمان داؤد 18 جون کو بحری جہازایم وی پولرپرنس کے ذریعے ٹائیٹن میں سوار ہوئے اور آب دوز پانی میں اتر گئی۔

ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد آب دوز کا کنٹرول روم سے رابطہ ٹوٹ گیا، امریکی بحریہ نے عین اس وقت اپنے لانگ رینج سونار سسٹم کے ذریعے پانی میں دھماکے کی آواز سنی تھی، امریکا نے یہ سسٹم 1950 میں بحیرہ اوقیانوس میں روسی آب دوزوں سے بچنے کے لیے لگایا تھا، آج تک کی تحقیقات کے مطابق آب دوز پونے دو گھنٹے بعد باتھ پی لوجک زون (Bathypelagic Zone) میں دھماکے سے پھٹ گئی تھی، یہ زون 3 ہزار میٹر کی گہرائی میں ہے۔

آب دوز کی دم اور لینڈنگ فریم ٹائی ٹینک کے ملبے سے 1600 فٹ کے فاصلے سے ملا تاہم لاشیں غائب تھیں اور یہ لاشیں سرے دست کسی ٹیکنالوجی کی مدد سے دریافت نہیں ہو سکتیں، کیوں نہیں ہو سکتیں؟ ہمیں اس کے لیے مقصود قادر شاہ کی کہانی سننا ہوگی۔

مقصود قادر شاہ پنجاب سول سروس کے ملازم تھے، ان کی بیگم گائناکالوجسٹ ہیں، بیگم صاحبہ ملازمت کے سلسلے میں بحرین گئیں اور یہ بہت جلد شاہی خاندان کی ڈاکٹر بن گئیں، 2012 میں مقصود قادر کی ٹرانسفر بحرین ایمبیسی میں ہوگئی، یہ وہاں کام کرتے رہے اور پھر انھوں نے ریٹائرمنٹ لے کر بحرین میں کاروبار شروع کر دیا، بیگم صاحبہ رائل ڈاکٹر ہیں اور مقصود قادر بزنس مین، اب ان کا شہزادہ داؤد کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ہمیں یہ جاننے کے لیے بحری ماہرین کی طرف جانا ہوگا، ٹائیٹن میں بلینئر سوار تھے چناں چہ پوری دنیا کے میڈیا نے یہ خبر اٹھا لی، دنیا جہاں کے بحری ماہرین بھی سامنے آئے اور دنیا کو پہلی مرتبہ پتا چلا سمندر میں تہہ در تہہ بحریں (ویوز) ہوتی ہیں۔

ایک بحر کے بعد دوسری بحر اور دوسری کے بعد تیسری بحر آتی ہے اور یہ بحریں سمندر میں سناٹا اور اندھیرا کرتی چلی جاتی ہیں، بحروں کا باقاعدہ وزن بھی ہوتا ہے، سمندر کے بالائی پانی کا وزن 6 اعشاریہ 6 کلو گرام فی مربع انچ ہوتا ہے، ہر دس میٹر بعد بحر تبدیل ہو جاتی ہے اور پانی کا وزن دگنا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ تین ہزار میٹر گہرائی میں جا کر پانی کا وزن (دباؤ) تین سو گنا بڑھ جاتا ہے، سمندر میں دو گھنٹے گہرائی میں سفر کے بعد پانی میں اندھیرے کے ایسے گہرے بادل چھا جاتے ہیں۔

جنھیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، کیوں؟ کیوں کہ یہ اندھیرا دنیا کے کسی بھی مقام پر انسان کے تجربے میں نہیں آتا، بحری ماہرین اس اندھیرے کو پچ ڈارک نیس (Pitch Darkness) کہتے ہیں، یہ اندھیرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ انسان دوسرے ہاتھ کو ٹٹول نہیں سکتا، اس گہرائی میں دباؤ اور اندھیرے کے بعد سردی اور کمیونی کیشن کا عذاب بھی نازل ہو جاتا ہے۔

پچ ڈارک نیس کی سردی ناقابل برداشت ہوتی ہے وہاں پہنچ کر دنیا کے تمام جی پی ایس سسٹم بھی جواب دے جاتے ہیں، کیوں؟ وجہ آج تک معلوم نہیں ہو سکی، سائنس دان اس مقام کو مڈ نائٹ زون کہتے ہیں اور ٹائیٹن آب دوز اس مقام پر حادثے یا دھماکے کا شکار بنی لہٰذا وہاں سے لاشوں کی تلاش ممکن نہیں۔

اب سوال یہ ہے ان معلومات کامقصود قادر اور ٹائیٹن آبدوز سانحہ کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ہمیں یہ جاننے کے لیے سورۃ نور کی آیت چالیس پڑھنا پڑے گی، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں میڈنائٹ زون اور پچ ڈارکنس کے بارے میں بتایا ہے۔

آج کے لیے اہم ترین آیت بھی ملاحظہ کیجیے "یا جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہو، موجوں کے اوپر موجیں اٹھ رہی ہوں، اوپرسے گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہوں، اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہوں اور اگر کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو وہ اس کو بھی نہ دیکھ پائے " اس کا انگریزی ترجمہ ہے:

the darkness in a deep sea, covered by waves upon waves, topped by dark clouds. darkness upon darkness! if one stretches out their hand، they can hardly see it.

آپ یہ آیت دوبارہ پڑھیں اور اس کے بعد ٹائیٹن آب دوز کے سانحے پر ماہرین کی رائے بھی دوبارہ سنیں اور پھر اپنے آپ سے سوال کریں، آج سے چودہ سو سال پہلے جب انسان سمندر میں تین میٹر سے زیادہ گہرائی میں نہیں گیا تھا۔

اس وقت قرآن مجید میں کس نے ڈکلیئر کیا سمندر میں موجوں کے اوپر موجیں ہوتی ہیں اور یہ گہرے بادلوں کی طرح ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہیں اور یہ ایک ایسا اندھیرا تخلیق کر دیتی ہیں جس میں ایک ہاتھ دوسرے کو شناخت نہیں کر سکتا، یہ حقیقت14 سو سال پہلے کس طرح معلوم ہوگئی؟ دنیا 1985 میں ٹائی ٹینک کا ملبہ تلاش کر پائی جب کہ اللہ تعالیٰ نے 628ئ(چھ ہجری) میں بتا دیا ہم سمندر میں موج کے اوپر موج چلاتے ہیں، یہ موجیں گہرے بادل جیسی ہوتی ہیں اور یہ ایک ایسی پچ ڈارک نیس تخلیق کرتی ہیں جس میں بینائی جواب دے جاتی ہے اور ٹائیٹن اس پچ ڈارک نیس میں گم ہوئی یا تباہ ہوگئی۔

کیا یہ محض اتفاق تھا؟ مجھے یہ آیت مقصود قادر نے بحرین سے بھجوائی تھی، میں نے اس کا بار بار مطالعہ کیا اور میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے اپنے اس دین میں پیدا کیا جس نے دنیا کو 1400 سال پہلے پچ ڈارک نیس، موج کے اوپر موج اور پھر اندھیرے کے بادلوں کے بارے میں اطلاع دے دی تھی اور ساتھ یہ بھی فرما دیا تھا، اللہ جس کو روشنی نہ دے اسے کبھی روشنی نصیب نہیں ہوتی اور مجھے ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا اللہ تعالیٰ نے شاید دنیا کو اپنی آیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ٹائی ٹینک اور ٹائیٹن کو ڈبویا تاکہ لوگوں تک اس کا پیغام پہنچ سکے۔

شاید اللہ تعالیٰ اس سانحے کے ذریعے عالم اسلام کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہو تم لوگ بلاوجہ احساس کمتری کا شکار ہو اور اس احساس کمتری میں ان لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہو جنھیں اللہ نے ایمان کی روشنی سے محروم رکھا ہوا ہے، تم ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو اور صرف اورصرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاؤ، تمہارے حالات صرف وہی بدلے گا۔

حسین داؤد اس المناک حادثے کے بعد زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، اللہ پاک انھیں صبر و ہمت عطا کرے تاہم انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی یاد میں پاکستان میں کوئی ایسا قرآن سینٹر بنائیں جس میں ماڈرن لائف اور قرآن مجید پر ریسرچ کے ذریعے ثابت کیا جاسکے ہمارا دین سچا اور دنیا کا جدید ترین سائنٹیفک معجزہ ہے۔

شاید اس تخریب میں تعمیر کا کوئی راز چھپا ہوا ہو؟ شایداللہ تعالی حسین داؤد فیملی سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہو؟ بے شک اللہ جس کو روشنی سے نوازتا ہے اس کے ذہن سے اندھیرے کے سارے بادل خودبخود چھٹ جاتے ہیں اور آخری بات انسان کو بعض اوقات اپنی موت کے مقام تک پہنچنے کے لیے اڑھائی لاکھ ڈالر ادا کرنا پڑجاتے ہیں، اسے اپنی موت خریدنا پڑ جاتی ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.