قومی معیشت کی بحالی کے لیے امن اور سیاسی استحکام ضروری ہے۔ یہ امر اطمنان بخش ہے کہ عسکری قیادت اِس حوالے سے سیاسی قیادت کے ساتھ یکسو ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے جو خوش آئند ہے۔ بدقسمتی سے اپوزیشن کا کام احتجاجی سیاست سے حکومت کو زچ کرنا روایت بن چکا ہے اور آجکل ملک کو پھر ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس سے سرمایہ کاری کا تسلسل ٹوٹ سکتا ہے۔
اب جبکہ دنیا کے کئی ممالک سے حکومتی اور نجی سطح پر روابط میں تیزی آئی ہے اور بیرونی وفود سے تجارتی معاہدے خاصے حوصلہ افزا ہیں اِن حالات میں جس امن اور استحکام کی ضرورت ہے وہ ملک میں ناپید ہے جس سے خطرہ ہے کہ کہیں عالمی اقوام بددل ہو کر کسی اور طرف متوجہ نہ ہو جائیں جس طرح ماضی میں ہوا جب آئی ٹی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں حالات سازگارنہ ملے تو بھارت نے موقع سے فائدہ اُٹھالیا اور آجکل اُس کی صرف آئی ٹی مصنوعات کے سامان کی تجارت ہی پاکستان کی کُل معیشت سے زیادہ ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان میں دگرگوں امن و مان کی صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر گارمنٹس انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہوگئی جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کی برآمدات بُری طرح متاثر ہوئیں اور درآمدات میں اضافہ ہوا بلکہ زرِمبادلہ پر بھی اِتنا دباؤ آیا کہ ملک کے لیے قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی بھی دوبھر ہوگئی۔ آج حالات یہ ہیں کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ پچاسی ہزار آٹھ سو چھتیس ارب ہوگیا ہے۔ قرضوں کے بڑھتے دباؤ سے عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا اندازہ ہے کہ 2025 تک قرض اور واجبات بجٹ کے چالیس فیصد تک ہوسکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ کُل بجٹ کا چالیس فیصد سود اور اقساط کی ادائیگی کی نظر ہو جایا کرے گا اور دفاع، صحت، تعلیم اور دیگر اخراجات کے لیے مزید قرض لیناہماری مجبوری ہوگا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی معیشت کی ناگفتہ بہ حالت کا ادارک کرتے ہوئے تمام فریق اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور ایک دوسرے کوزچ کرنے والا رویہ بدلیں اور ملک کے بارے سوچیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تشویشناک معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا رویہ ضدوہٹ دھرمی پرمبنی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی اپنے گھر کی بنیادیں کھودتے ہوئے یہ تصور کرے کہ گھر کی مضبوطی متاثر نہیں ہوگی۔ گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں سیاسی استحکام ناپید ہے اور گزرے چند ماہ کے دوران امن و امان کی صورتحال میں بھی تشویشناک حد تک بگاڑ آچکا ہے۔ اِس کے باوجود کوئی بھی فریق اپنی ضد وہٹ دھرمی ترک کرنے پرتیار نہیں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں حالانکہ اب تو دوست ممالک بھی خراب معاشی حالات پر توجہ مبذول کرانے لگے ہیں لیکن ملک کے مقتدرطبقات کی لاپرواہی اور غیر ذمہ داری پر مبنی رویے سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ ملک و قوم کے مفاد کی خاطر ضدوہٹ دھرمی چھوڑنے پر آمادہ ہیں، جسے کسی صورت مستحسن قرار نہیں دیاجا سکتا یہ رویہ اپنی زات پر قومی و ملکی مفاد کو قربان کرنے کے مترادف ہے۔
دنیا کے کسی ملک میں ایسی سیاست نہیں ہوتی جس طرح کی سیاست وطنِ عزیز کا مقدرہے۔ یہاں وقفے وقفے سے جتھے دارالحکومت پر چڑھائی کرتے رہتے ہیں۔ کسی کو حکومت سے شکوہ ہوتا ہے تو کسی کو امن قائم کرنے والے اِداروں کا کردار پسند نہیں ہوتا کوئی قومیت پرستی کا عملبردار، تو کوئی صوبائیت کا راگ آلاپ رہا ہوتا ہے۔ یہ پنپنے کے اطوار نہیں بلکہ نفاق کی آبیاری کے مترادف ہے۔ ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں کا تقاضا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے سیاسی و ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ملک وقوم کے بارے سوچا جائے تاکہ قرضوں میں جکڑے پاکستان کی معیشت بہتر ہو۔
برکس کے کامیاب انعقاد سے پاکستان کا نہ صرف عالمی امیج بہتر ہوا بلکہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں بھی مدد ملی۔ مڈل ایسٹ کے کئی ممالک کی طرف سے بھی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا گیا اور اِس حوالے سے کئی بھاری معاہدے طے پائے۔ روس اور بیلا روس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں نے بھی مشترکہ منصوبوں کی خواہش کا اظہار کیا۔ آئیڈیاز 2024 سے نہ صرف فروغ پذیر دفاعی صنعت سے دنیا آگاہ ہوئی بلکہ آمدہ برس بجٹ میں دفاعی ہتھیاروں کی برآمد سے حاصل ہونے والی رقوم بڑھنے کا امکان ہے۔
چین جو ایک سے زائد بار ملک میں سیاسی استحکام کا مطالبہ کرچکا ہے تاکہ پالیسیوں میں تسلسل رہے لیکن ملک کی سیاسی قیادت اپنے روزوشب پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں۔ اب تو بدامنی سے تنگ آکر چینی قیادت باقاعدہ خفگی کا اظہار کرنے لگی ہے۔ یہ صورتحال ثابت کرتی ہے کہ دوست ممالک ہمارے اطوار سے تنگ اور مایوس ہیں حالات کا ادراک کرنے کی بجائے اپوزیشن نے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کردی ہے حالانکہ کسی کو تحفظات یا خدشات ہیں تو اظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں جن سے احتجاج ریکارڈ کرایا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کرنا ہی ضروری تو نہیں نہ ہی عین پارلیمنٹ کے سامنے تماشہ لگانے سے احتجاج کے نتائج بہتر ہو سکتے ہیں، کیا احتجاج کے لیے لازم ہے کہ زرائع آمدورفت ہی بند کردیے جائیں؟ عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ایسا احتجاجی رواج دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں جیسا ہمارے یہاں رائج ہے۔
بیلا روس کے صدر لوکا شنکو کی سربراہی میں اسی رُکنی وفد چار دن کے دورے پر اسلام آباد میں ہے۔ اِس دوران تجارت بڑھانے، ٹیکنالوجی کی منتقلی سمیت کئی شعبوں میں تعاون کی مفاہمتی یاداشتیں طے پارہی ہیں لیکن دارالحکومت میں امن و سکون نام کی حد تک بھی نہیں اپوزیشن کے شور و افراتفری کا دنگل عروج پر ہے، حالانکہ ہوشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے زعما بات چیت سے کوئی ایسا مفاہمتی حل تلاش کرتے کہ احتجاج اگر مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوتا تو کم ازکم وقتی طور پرہی سہی ملتوی کر دیا جاتا تاکہ مہمان اچھا تاثر لے کر جاتے، لیکن ایک تو حکومت نے رابطہ کرنے میں بے دلی و سُستی کا مظاہرہ کیا تو اپوزیشن نے بھی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے بغیر احتجاج موخر کرنے سے صاف انکار کر دیاجس سے ملک کا دارالحکومت میدانِ جنگ بن چکا ہے۔
تحریکِ انصاف کی قیادت وکلا کے پاس ہے ظاہر ہے وہ آگاہ ہوں گے کہ کسی ایسے قیدی کو حکومت معاہدے کے نتیجے میں رہا نہیں کر سکتی جس کے درجنوں کیس انڈر ٹرائل ہوں اور کچھ میں سزا بھی سنائی جا چکی ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام کیس درست ہیں بلکہ غلط بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں حکومتوں کا تختہ مشق اکثر اپوزیشن ہوتی ہے لیکن رہائی بہرحال عدالتی فیصلوں سے ہی ممکن ہے علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیلا روس کے وفد کی آمد کے حوالے سے احتجاج کی اجازت نہ دینے کا حکم دے رکھا ہے مگر پی ٹی آئی کی قانوندان قیادت عدالتی احکامات تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہے۔ زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ انداز گھر کی جڑیں کھوکھلی کرنے والا نہیں ہے؟ اگر ہے توحکومت اور اپوزیشن دونوں سے دست بستہ التماس ہے اپنا رویہ بدلیں۔