Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shandar Tareen Intekhabi Islah

Shandar Tareen Intekhabi Islah

اور ہمارے انتخابی نظام کی سب سے بڑی خامی امیدوار ہیں، پاکستان کے انتخابی حلقوں کا 85فیصد حصہ آج بھی دیہات پر مشتمل ہے اور دیہات میں ذات، برادری اور دھڑے بندی کا عفریت 2014ء میں بھی حکمرانی کر رہا ہے، آپ اگر ن لیگ میں چلے جاتے ہیں تو آپ کا مخالف پاکستان پیپلزپارٹی یا پاکستان تحریک انصاف میں پناہ لے گا، آپ پاکستان پیپلز پارٹی میں آ جائیں گے تو آپ کا مخالف دھڑا پاکستان مسلم لیگ ن جوائن کر لے گا، آپ اگر سیاسی پارٹی ہیں تو آپ کو بھی حلقے کے کسی ایک مضبوط دھڑے یا برادری کو ٹکٹ دینا پڑیگا۔

آپ 2013ء کے الیکشن کا تجزیہ کر لیجیے، پاکستان مسلم لیگ ن نے پچھلے سال 129سیٹس حاصل کیں، اس ہیوی مینڈیٹ کی تین وجوہات میں سے ایک وجہ ٹکٹوں کی تقسیم تھی، ن لیگ پے درپے الیکشنوں کے بعد حلقوں کی سیاست سمجھ گئی ہے چنانچہ اس نے ٹکٹ جاری کرتے وقت حلقے کی بڑی برادریوں کو ذہن میں رکھا، علاقے میں راجپوت زیادہ ہیں تو ٹکٹ راجپوتوں کو ملا، گجر زیادہ ہیں تو ٹکٹ گجروں کو عنایت ہوا، جاٹوں کے علاقے میں جاٹ، آرائیوں کے علاقے میں آرائیوں اور سیدوں کے علاقے میں شاہ صاحب کو ٹکٹ دیا گیا، ٹکٹوں کی تقسیم میں علاقے کے مذہبی رجحانات کو بھی مدنظر رکھا گیا، سنی اکثریت کے علاقے میں سنی کوٹکٹ ملا اور شیعہ اکثریتی علاقے میں شیعہ امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا، میاں صاحب کا یہ طریقہ کار کارآمد ثابت ہوا۔

یہ المیہ صرف حکمران جماعت تک محدود نہیں، ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں بھی سیاست کی ان حقیقتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی قدیم جب کہ پاکستان تحریک انصاف جدید ترین جماعت ہے، عمران خان انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے تھے لیکن آپ کو ان کے اردگرد بھی وہ لوگ نظر آئیں گے جو اپنے حلقے میں بھی مضبوط ہیں اور جن کے خاندان دہائیوں سے سیاست کے کاروبار سے وابستہ ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں کھمبوں کو ٹکٹ دیے لیکن وہ بھی جلد روایتی اور علاقائی سیاست کے سامنے پسپا ہوگئے، یہ روایت ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو اور داماد آصف علی زرداری نے بھی جاری رکھی۔

ملک میں صرف ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی اس بلیک میلنگ سے پاک ہے لیکن آپ اس کا نتیجہ ملاحظہ کیجیے، ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد تک محدود ہے، یہ اپنی پالیسی کی وجہ سے سندھ تک میں اپنی جڑیں نہیں پھیلا سکی، یہ جس دن ملک گیر جماعت بننے کا فیصلہ کرے گی اسے اس دن حلقوں میں موجود دھڑوں اور برادریوں کے سامنے سر جھکانا پڑے گا، اسے اس دن "متوسط طبقے کی قیادت" کا نعرہ بھلانا پڑے گا، پیچھے رہ گئی جماعت اسلامی تو آپ اس کی سیاست کا حشر بھی دیکھ لیجیے، جماعت اسلامی عموماً پڑھے لکھے، ایماندار اور شفاف ماضی کے حامل امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے، اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہےاس کے 80فیصد امیدوار الیکشن ہار جاتے ہیں اور یہ پارلیمنٹ میں زندہ رہنے کے لیے آئی جے آئی جیسے سہارے لینے پر مجبور ہو جاتی ہے.

آپ پھر خود سوچئے، سیاست میں جب امیدوار کی واحد کوالی فکیشن اس کی ذات، اس کی برادری اور اس کا دھڑا ہوگا تو پھر آپ کو اچھا امیدوار، اچھی قیادت کہاں سے ملے گی؟ اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے دھڑے، برادری اور ذات کی موجودگی میں میرٹ ہو سکتا ہے، ایمانداری، کردار اور نہ ہی عدل، قانون اور انصاف۔ آپ جب کسی دھڑے کا حصہ بنتے ہیں یا وہ دھڑا آپ کی کامیابی کی بنیاد بنتا ہے تو پھر آپ اقرباء پروری بھی کرتے ہیں، میرٹ کی دھجیاں بھی بکھیرتے ہیں، آپ اپنے دھڑے کے گندے انڈوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔

ان کے پرچے بھی خارج کرواتے ہیں اور آپ انھیں عدالتوں سے بھی بچاتے ہیں اور آپ کوان تمام دھندوں کے لیے اپنا ایس ایچ او بھی چاہیے ہوتا ہے، پٹواری بھی، تحصیلدار بھی، سول جج بھی اور امام مسجد بھی۔ آپ میڈیا سے بچنے کے لیے اپنے علاقے میں اخبارات اور ٹیلی ویژن کے نمایندے بھی اپنے رکھوا لیتے ہیں اور آپ کو یہ سارے کام کرنے کے لیے ایک خاص نوعیت کا مائینڈ سیٹ درکار ہوتا ہے، ایک ایسا مائینڈ سیٹ جو جہالت، جرم، برائی، بے انصافی، جھوٹ، اقرباء پروری، فرقہ واریت اور ظلم کو برا نہ سمجھے اور آپ اس مائینڈ سیٹ میں لوگوں کی غلطیوں اورجرائم کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، میرے بندے کا جرم اور مخالف کے بندے کا جرم۔

اور انسان جب کردار کی اس نچلی سطح پر جاتا ہے تو پھر اسے دوسروں کا کتا کتا اور اپنا کتا ٹامی دکھائی دینے لگتا ہے اور ہماری سیاست بری طرح اس ٹامی ازم کا شکار ہے، میرا دعویٰ ہے اگر ملک میں آج اسلامی انقلاب آ جائے تو اس انقلاب کو بھی کسی نہ کسی وٹو، چوہدری، وڑائچ، گجر، شیخ، مخدوم، سید، خواجہ اور خان کی ضرورت پڑ جائے گی اور اسلامی انقلاب کے ان علم برداروں کا تعلق بھی ن لیگ، ق لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ان بزرگوں کے ساتھ ہو گا جن کے ظلم کے رد عمل میں اسلامی انقلاب جنم لے گا۔

ملک میں جب ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے مضبوط لوگ حلقوں کی ذات، برادریوں اور دھڑوں کے ہاتھوں اپنی وردیاں اتروا بیٹھے ہیں تو پھر یہ سیاسی جماعتیں کس کھیت کی مولی ہیں، سیاست میں ذات برادری اس قدر مضبوط ہے کہ اگر جمشید دستی جیسا غریب آدمی بھی سیاست میں آئے تو اسے کامیابی کے لیے غربت کو اپنی برادری ڈکلیئر کرناپڑتا ہے اور مولانا فضل الرحمن کلین شیو اکرم درانی کو ہلکی سی داڑھی رکھوا کر خیبر پختونخواہ میں اپنا وزیراعلیٰ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یہ خرابی اگر یہاں تک رہتی تو شاید یہ اتنا خطرناک نہ ہوتا لیکن سیاسی دھڑوں نے اسے مزید برا، مزید بدبودار بنا دیا، یہ لوگ سیاست کی نکیل اپنے خاندان کے جاہل ترین، ظالم ترین اور بدکردار ترین نوجوان کے حوالے کرتے ہیں، آپ کسی سیاسی خاندان کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو اس میں پڑھے لکھے لوگ بھی ملیں گے، اس میں ڈاکٹر بھی ہوں گے، انجینئر بھی، وکیل بھی، بزنس مین بھی، پروفیسر بھی اور عالم دین بھی مگر یہ لوگ سیاست کا قلم دان خاندان کے نالائق، ان پڑھ، جرائم پیشہ اور بدمعاش بچے کے حوالے کریں گے۔

چنانچہ اس روایت کے نتیجے میں ہماری پارلیمنٹ ہر دور میں ایسے لوگوں کا جمعہ بازار بن جاتی ہے جنھیں کھانے کی تمیز ہوتی ہے، بیٹھنے اور اٹھنے کی، چلنے پھرنے کی اور نہ ہی بولنے کی، یہ زندگی میں اپنا اشتہار تک نہیں پڑھتے، ان میں سے ننانوے فیصد لوگ پوری زندگی آئین کا مطالعہ نہیں کرتے اور یہ لوگ اگر وزیر بن جائیں تو ان کی وزارتی صلاحیت صرف دستخط کرنے اور اپنے دھڑے کے نالائق لوگوں کو نوکریاں، ٹھیکے اور مراعات دینے تک محدود ہوتی ہے لہٰذا آپ جب تک سیاست کو اس ذات برادری اور دھڑے سے پاک نہیں کرتے، آپ خواہ کچھ بھی کر لیں، آپ خواہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بھارت جیسا الیکشن کمیشن بنا لیں۔ آپ ملک میں فیئر، فری اور ٹرانسپیرنٹ الیکشن نہیں کرا سکیں گے اور آپ نے اگر کروا بھی لیے تو بھی قوم اسی زیرو پوائنٹ پر کھڑی ہو گی، کیوں؟ کیونکہ الیکشنوں کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے" اچھی حکومت" اور آپ ملک میں خواہ کتنا ہی صاف اور شفاف الیکشن کروا لیں آپ کی پارلیمنٹ تک یہی لوگ پہنچیں گے، آپ ایک اسمبلی کے مخدوموں، سیدوں، میائوں، خواجوں، سائیوں، گجروں، وڑائچوں، وٹووئں اور چوہدریوں سے جان چھڑانے کے لیے الیکشن کرائیں گے اور آپ کو اگلی اسمبلی میں بھی چوہدری، وٹو، وڑائچ، گجر، سائیں، میاں، خواجے، سید اور مخدوم نظر آئیں گے، فرق صرف "میرا وٹو اور تیرا وٹو" کا ہوگا۔

میں اس ملک کے حکمرانوں کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں، یہ اگر ملک سے دھڑے بندی، ذات اور برادری کا ڈنک نکالنا چاہتے ہیں تو یہ سرکاری سطح پر ناموں سے برادریوں کا سابقہ یا لاحقہ ختم کرنے کا سلسلہ شروع کریں، آپ اعلان کردیں ملک میں اس وقت تک کوئی شخص سیاست میں حصہ نہیں لے سکے گا وہ جب تک اپنے نام سے وٹو، خواجہ، بٹ، میاں، زرداری، ہاشمی اور مخدوم اور قریشی کا سابقہ اور لاحقہ نہیں ہٹاتا، آپ اس وقت تک کوئی ڈگری نہیں لے سکتے، آپ سرکاری اور غیر سرکاری جاب نہیں کرسکتے، جب تک آپ اپنے نام سے اپنی برادری، شہر، قبیلے اور فرقے کی شناخت نہیں ہٹاتے۔

خدا کی پناہ ہم بندے سے بعد میں ملتے ہیں اور ہمیں اس کی ذات، برادری، علاقے، سماجی حیثیت اور فرقے کا علم پہلے ہو جاتا ہے، یہ کتنی بدقسمتی ہے، میاں نواز شریف کی وجہ سے آدھا لاہور میاں ہو جاتا ہے اور باقی لاہور خواجہ، بٹ اور امرتسری بن جاتا ہے، یہ بدعت اعلیٰ سرکاری افسروں میں بھی موجود ہے، آپ کسی دفتر میں داخل ہوجائیں اورافسروں کی نیم پلیٹس پڑھنا شروع کر دیں، آپ ملاقات کے بغیر ان سب کی خاندانی، سیاسی اور سماجی حیثیت سے واقف ہو جائیں گے، آپ کو ڈیوڈ کیمرون اور اینجلا مرکل کے ناموں سے کچھ معلوم نہیں ہوتا مگر آپ میاں نواز شریف کے نام ہی سے سب کچھ جان جاتے ہیں، کیا یہ زیادتی نہیں۔

اور عمران خان نیازی صاحب ملک میں جب تک دھڑے، برادریاں اور ذاتیں موجود ہیں، آپ جتنی چاہیں انتخابی اصلاحات کر لیں پارلیمنٹ میں یہی چراغ جلیں گے، اسمبلیوں تک یہی لوگ پہنچیں گے چنانچہ طاقت کے تین ہزار انجیکشنوں کے بعد بھی اگر خچر نے خچر ہی رہنا ہے تو پھر اتنی بھاگ دوڑ کی کیا ضرورت ہے آپ بس اپنے مخدوموں میں ٹاس کرا لیا کریں اور حکومت بنا لیا کریں، قوم کے اربوں روپے بھی بچ جائیں گے اور آپ لوگوں کا کام بھی ہو جائے گا اور یہ ملک کے لیے شاندار ترین انتخابی اصلاح ہو گی، آپ بھی خوش اور عوام بھی خوش۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.