ڈاکٹر احمد دلدار ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں، یہ بیک وقت پاکستان اور سوئٹزرلینڈ میں پریکٹس کرتے ہیں، چار پانچ ہفتے سوئٹزر لینڈ میں رہتے ہیں اور چار پانچ پاکستان میں، یہ فیصل آباد کے رہنے والے ہیں اور سوئٹزرلینڈ میں چھور کنٹون کے چھوٹے سے شہر پورنٹری میں رہتے ہیں، یہ فرنچ کنٹون ہے، فرانس کے بارڈر پر واقع ہے، پورنٹری شہر کی آبادی پانچ ہزار لوگوں پر مشتمل ہے، یہ پہاڑوں میں گھرا ہوا پرسکون اور خوبصورت شہر ہے، ڈاکٹر احمد دلدار اس ٹائون بلکہ اس کنٹون کے تیسرے پاکستانی ہیں، ایک پاکستانی دس بچوں کا والد ہونے کے باوجود اولڈ پیپل ہوم میں پڑا ہے، دوسرا اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ ڈالی موئونٹ میں رہائش پذیر ہے جب کہ تیسرے ڈاکٹر صاحب ہیں، ڈاکٹر صاحب ڈرائیونگ سوئٹزر لینڈ میں سیکھی تھی، یہ فریضہ کسی سوئس خاتون نے سرانجام دیا تھا۔
خاتون نے نئی نئی گاڑی خریدی تھی اور وہ اس گاڑی پر پارٹ ٹائم ڈرائیونگ سکھاتی تھی، خاتون نے ڈرائیونگ کے دوران ڈاکٹر صاحب کو گاڑی خریدنے کا واقعہ سنایا، خاتون کا کہنا تھا یہ گاڑی کے لیے قرضہ لینے بینک گئی، بینک نے اس سے گارنٹی مانگی، اس کے پاس والدہ کے سوا کوئی گارنٹی نہیں تھی، یہ والدہ کے پاس گئی، والدہ نے اس سے پوچھا بینک تمہیں کتنے فیصد سود پر قرض دے رہا ہے، اس نے بتایا " تین فیصد پر" والدہ نے اسے پیش کش کی " تم مجھے چار فیصد سالانہ ادا کر دو، میں تمہیں قرض دے دیتی ہوں " والدہ کا کہنا تھا، تم گارنٹی کے بغیر کسی بینک سے قرض نہیں لے سکو گی، میں تمہیں گارنٹی کے بغیر قرضہ دوں گی اور یہ ایک فیصد اس " اندھے اعتماد" کی قیمت ہے، خاتون کا کہنا تھا اس نے والدہ کی پیش کش قبول کر لی اور یوں چار فیصد سالانہ سود پر یہ گاڑی خرید لی۔
یہ واقعہ بنیادی طور پر سوئس مزاج کا آئینہ دار ہے، سوئس لوگ بزنس مائینڈڈ ہیں، یہ کاروبار کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے، باپ بیٹے کے ساتھ، ماں بیٹی، بھائی بھائی اور سسر داماد کے ساتھ کاروبار کرتا ہے اور اس کاروبار پر فخر بھی کرتا ہے، یہ مزاج سوئٹزر لینڈ کی کامیابی کا پہلا گُر ہے، یہ مانگا تانگا ملک ہے، یہ ملک جرمنی، فرانس، آسٹریا اور اٹلی کے " فضول" علاقوں کو جمع کر کے بنایا گیا، اس میں معدنیات ہیں، زمین ہے اور نہ ہی سمندر، یہ ملک سال کے سات ماہ برف میں دفن رہتا ہے اور باقی پانچ ماہ برف میں دفن ہونے کی تیاری کرتا رہتا ہے چنانچہ دیکھا جائے تو سوئس لوگوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے کچھ نہیں بچتا لیکن ان لوگوں نے اپنی اس محرومی کو اپنی طاقت بنا لیا، انھوں نے کٹے پھٹے، ادھار لیے مشکل علاقوں کو دنیا کا خوبصورت ترین خطہ بنا لیا، یہ چھوٹی چھوٹی انڈسٹری میں گئے اور پوری دنیا کی توجہ کھینچ لی، سوئس گھڑیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔
اس ملک میں دس ڈالر سے لے کر دس ملین ڈالر تک کی گھڑیاں بنتی اور بکتی ہیں، یہ ہیروں کے کاروبار میں آئے اور سوئس ہیرے اور زیورات شاہی خاندانوں کے لیے اعزاز بن گئے، یہ بینکنگ سیکٹر میں آئے اور پوری دنیا کے آمروں اور کرپٹ عمائدین کی دولت کھینچ لی، سوئس چاکلیٹ، سوئس مکھن، سوئس پنیر اور سوئس دودھ صحت اور ذائقے کا معیار بن گیا اور سوئس ریلوے کی پوری دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی، ہم نے 1857ء میں سور کی چربی کے خلاف ہندوستان میں جنگ لڑی تھی اور ہم 1871ء میں جب بہادر شاہ ظفر کی موت کا ماتم کر رہے تھے سوئٹزر لینڈ اس وقت تک مائونٹین ریلوے (پہاڑی ریلوے) مکمل کر چکا تھا، اس نے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گلیشیئرز تک ریل کی پٹڑی، انجن اور ڈبے پہنچا دیے، ہم کراچی سے لاہور تک ٹرین نہیں پہنچا پاتے جب کہ سوئس ٹرینیں ایک سیکنڈ کی تاخیر کے بغیر چوٹیوں تک پہنچ جاتی ہیں، دنیا میں ٹرینیں مختلف نامو ںسے پکاری جاتی ہیں لیکن سوئس ٹرینیں وقت سے پکاری اور جانی جاتی ہیں، یہ دس بج کر پانچ منٹ کی ٹرین ہے اور یہ نو بج کر ایک منٹ کی ٹرین اور یہ ٹرینیں وقت پر آئیں گی اور مقررہ وقت پر جائیں گی خواہ مسافر موجود ہو یا نہ ہو۔
سوئس مزاج کی بعض عادتیں، بعض چیزیں حیران کن بھی ہیں اور قابل تقلید بھی مثلاً ریاست ریٹائرمنٹ کے بعد بوڑھوں کو پنشن دیتی ہے، یہ پنشن ہر بوڑھے مرد و زن کو ملتی ہے مگر ریاست یہ پنشن فری نہیں دیتی، حکومت ریٹائرمنٹ کے بعد بابوں اور مائیوں کو دوبارہ ملازم رکھتی ہے، انھیں ان کے علاقے میں چھوٹی موٹی ملازمت دے دی جاتی ہے اور اس کے عوض انھیں پنشن دی جاتی ہے، مثلاً حکومت کسی مائی کو محلے کی جاسوسی کا فریضہ سونپ دے گی، یہ مائی سارا دن کھڑکی میں بیٹھ کر محلے میں آنے اور جانے والوں پر نظر رکھے گی، کسی بابے کو ریلوے اسٹیشن پر بیٹھ کر مسافروں کی حرکات سکنات نوٹ کرنے کی ذمے داری سونپ دی جائے گی، کسی ریٹائر شخص کو صبح کے وقت ایک گھنٹے کے لیے ٹریفک کنٹرول کرنے کا ٹاسک دے دیا جائے گا، کسی کو محلے کی صفائی کا خیال رکھنے کا فرض دے دیا جائے گا، کسی کو محلے بھر کے کتوں کا ڈیٹا جمع کرنے پر لگا دیا جائے گا اور کسی کو سوشل سروس، دوسروں کو زبان سکھانے یا بچے کھلانے کی ذمے داری دے دی جائے گی۔
اس سے بابے اور مائیاں بیکاری سے بھی بچ جاتے ہیں، یہ ایکٹو بھی رہتے ہیں اور ریاست پر بوجھ بھی کم ہو جاتا ہے، سوئس بابے اورمائیاں بھی خود کو ایکٹو رکھنے کے لیے چھوٹے موٹے کاروبار کرتی رہتی ہیں، مجھے مارکوٹی کی تمام دکانوں اور ریستورانوں پر مائیاں نظر آئیں اور یہ بڑھاپے میں ٹھیک ٹھاک کام کر رہی تھیں، دنیا جوہری جنگ کے خطرے سے بڑی حد تک نکل چکی ہے لیکن سوئس لوگوں اور ریاست نے اس کا بھرپور بندوبست کر رکھا ہے، سوئٹزر لینڈ کے تمام گھروں اور میونسپل کمیٹیوں میں ایسے تہہ خانے ہیں جن میں یہ لوگ چھ ماہ تک چھپ کر رہ سکتے ہیں، تمام سوئس بچے فوجی ٹریننگ لیتے ہیں، سوئٹزر لینڈ کی آبادی 74 لاکھ ہے لیکن تمام لوگ فوجی انداز میں رائفل چلانا جانتے ہیں لہٰذا اگر جنگ ہو جائے تو تمام بالغ سوئس لوگ فوجی بن جائیں گے، تمام گھروں میں ایک چھوٹا سا دفتر ہوتا ہے جس میں گھر کی فائلیں، فیکس مشین اور کمپیوٹر ہوتا ہے، یہ گھر کا دفتر ہوتا ہے جس میں گھر کا تمام ریکارڈ، بل اور باقی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔
یہ لوگ ہماری طرح ضرورت کے وقت شناختی کارڈ تلاش نہیں کرتے رہ جاتے، مجھے ڈالی موئونٹ میں ایک عجیب چیز دیکھنے کا اتفاق ہوا، حکومت نے فلیٹس میں رہنے والوں کو چھوٹے فارم ہائوس الاٹ کر رکھے ہیں، یہ فارم ہائوس فلیٹس کے قریب ہوتے ہیں، تین سے پانچ مرلے کے ہوتے ہیں، الاٹی اس فارم ہائوس میں چھوٹا سا لکڑی کا ہٹ بنا سکتا ہے، لکڑی یا تار کی دو تین فٹ اونچی فینس لگا سکتا ہے اور باربی کیو کی ایک انگیٹھی بنا سکتا ہے، لوگوں نے ان فارم ہائوسز میں سبزیاں اور پھل اگا رکھے ہیں، ہر فارم ہائوس میں انگور کی بیلیں، سٹرابری کے پودے اور موسمی سبزیاں اگی تھیں، یہ لوگ شام کے وقت اپنے فارم ہائوسز میں باغبانی کرتے ہیں اور چھٹی کے دن خاندان کے ساتھ بار بی کیو۔ یہ فارم ہائوس کی پانی کی ضرورت بارش سے پوری کرتے ہیں، ہٹ کی چھت کے ساتھ پرنالے لگے ہیں اور پرنالوں کے نیچے بڑے بڑے ڈرم پڑے ہیں، بارش کا پانی ڈرموں میں جمع ہوتا ہے اور یہ پانی بعد ازاں پودوں کے کام آتا ہے، مجھے یہ آئیڈیا انوکھا بھی لگا اور پریکٹیکل بھی، ہم کم از کم اسلام آباد میں ایسا ضرور کر سکتے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ میں عام لوگوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، لوگوں کے آرام کے لیے رات کے وقت ائیر پورٹس تک بند کر دیے جاتے ہیں، زیورچ اور جنیوا شاید دنیا کے واحد انٹرنیشنل ائیر پورٹس ہیں جہاں رات کے وقت کوئی جہاز لینڈ کرتا ہے اور نہ ہی ٹیک آف۔ یہ رات کے وقت ملک سے بھاری اور شور کرنے والی ٹریفک بھی نہیں گزرنے دیتے، آپ فلیٹس کی عمارت میں رات کے وقت فلش سسٹم بھی نہیں چلا سکتے، سیڑھوں پر دھپ دھپ کر کے بھی نہیں چڑھ سکتے اور آپ کا کتا بھی رات کے وقت نہیں بھونک سکتا، اوور اسپیڈنگ پر بھاری جرمانہ ہوتا ہے اور یہ پاکستانی روپوں میں ڈیڑھ دو لاکھ روپے بنتا ہے، یہ لوگ صفائی کو پورا ایمان سمجھتے ہیں، پہاڑوں کی چوٹیوں تک ڈسٹ بن اور کچرا گھر بنے ہیں اور میونسپل کمیٹیوں کی گاڑیاں روزانہ ان کی صفائی کرتی ہیں، میں مارکوٹی میں جس جگہ رہ رہا ہوں، یہ پہاڑی علاقہ ہے۔
پہاڑ پر کچرا گھر بنے ہیں، یہ کچرا گھر اوپر سے بظاہر "ڈسٹ بن" محسوس ہوتے ہیں لیکن یہ اندر سے " ٹنل" ہیں، یہ ٹنلز تین فٹ قطر کے پائپوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں، یہ ٹنلز پہاڑ کے نیچے تک چلی جاتی ہیں، آپ پہاڑ کے اوپر "ڈسٹ بن" میں کچرا پھینکتے ہیں اور یہ کچرا چند سیکنڈ میں نیچے سڑک تک آ جاتا ہے، صبح کے وقت کمیٹی کا ٹرک آتا ہے، یہ لوگ ٹنل کے سرے پر پائپ لگاتے ہیں اور یہ پائپ چند سیکنڈ میں پورا کچرا کھینچ لیتا ہے، گھاس کاٹنا لازم ہے اور اگر کسی کے لان میں گھاس بڑی ہو اور وقت پر نہ کٹی ہو تو جرمانہ ہو جاتا ہے، آپ کو پورے ملک میں کوئی فقیر نظر نہیں آتا، آپ کسی جگہ پھیلا ہوا ہاتھ نہیں دیکھتے، لوگ چادر سے باہر پائوں نہیں نکالتے، روپے کی قدر کرتے ہیں، کاروبار کو نوکری پر فوقیت دیتے ہیں، دوسرے انسان کا احترام کرتے ہیں، چار پانچ زبانیں سیکھنا فرض سمجھتے ہیں۔
پیدل چلنا اعزاز سمجھتے ہیں اور ملک کا ماں باپ سے زیادہ احترام کرتے ہیں، سوئٹزر لینڈ سوشیالوجی کا عجائب گھر ہے، آپ جب تک اس کا مطالعہ نہیں کرتے آپ اس وقت تک " ماڈرن لیونگ" کو نہیں سمجھ سکتے اور ان کی ماڈرن لیونگ کاروبار ہے، یہ کاروبار کرتے ہیں خواہ یہ ماں یا باپ ہو یا پھر بیٹا اور بیٹی۔ یہ بیٹی کو بھی گاڑی خریدنے کے لیے قرضہ دیتے ہیں تو ایک فیصد اضافی سود وصول کرتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا عار محسوس نہیں کرتے، اس سے والدین اور اولاد کا رشتہ کمزور نہیں پڑتا یہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے اور یہ وہ سوئس مزاج ہے جس نے سوئٹزر لینڈ کو سماجی جنت بنا دیا۔