آپ سکندر اعظم سے اسٹارٹ کر لیجیے، الیگزینڈر20 سال کی عمر میں مقدوینہ کا بادشاہ بنا، دنیا فتح کرنا شروع کی اور ا س نے 33 سال کی عمر تک گیارہ ممالک اور 56 لاکھ کلو میٹر علاقہ فتح کر لیا، اس کی سلطنت یونان سے اسٹارٹ ہوتی تھی اورہندوستان میں ختم ہوتی تھی، سکندر اعظم عراق کے شہر بابل میں 10 جون 323 قبل مسیح میں فوت ہوااور اس کے انتقال کے صرف پانچ سا ل بعد دنیا میں اس کی وسیع وعریض سلطنت کا نام و نشان ختم ہوگیا۔
آپ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھی لے لیجیے، چنگیز خان نے دو نئی جنگی ٹیکنیکس ایجاد کیں، اسپیڈ اور تیر، منگول ایک مہینے کا سفر ہفتے میں طے کرتے تھے، یہ لوگ گھوڑے کی پیٹھ پر نیند پوری کر لیتے تھے، دوسرا، منگول دنیا کی پہلی فوج تھی جو دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلا لیتی تھی، چنگیز خان نے ان دونوں ٹیکنیکس سے آدھی دنیا فتح کر لی، اس کی سلطنت چین سے جارجیا تک پھیلی ہوئی تھی، یہ شہر جلانے اور کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا شوقین تھا، یہ کھوپڑیاں اور یہ مینار آج بھی تاریخ میں موجود ہیں، ہلاکو خان اس کا پوتا تھا، اس نے اپنے دادا کا نام زندہ رکھا لیکن اس کے بعد کیا ہوا، ٹوفون تیمر چنگیز سلطنت کا آخری بادشاہ ثابت ہوا اور یوں یہ سلطنت بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئی۔
آپ امیر تیمور کی مثال بھی لے لیجیے، کیش کے اس ازبک جرنیل نے کمال کر دیا، یہ آندھی کی طرح اٹھا، بگولے کی طرح دوڑا اور35سال میں دنیا کے 58 ملک فتح کر لیے، اس کی سلطنت بھی ثمرقندسے دمشق، سکندریا سے سائبیریا اور ایران سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی، یہ بادشاہوں کا بادشاہ کہلاتا تھا، یہ17 فروری1405ء میں فوت ہوگیا، امیر تیمور کے بعد اس کی صرف دو نسلیں اس عظیم سلطنت کا بوجھ اٹھا سکیں، تیسری نسل کی آمد کے ساتھ ہی امیر تیمور کی پوری سلطنت تتر بتر ہوگئی یہاں تک کہ مزید دو نسلوں کے بعد ظہیر الدین بابر اندیجان سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔
آپ اورنگزیب عالمگیر کی مثال بھی لے لیجیے، یہ ہندوستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا بادشاہ تھا جس کی سلطنت شمالی ہند سے جنوبی ہند تک پھیلی ہوئی تھی، یہ 21 فروری1707ء میں فوت ہوا اور اس کے انتقال کے چند سال بعد اس کا ہندوستان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا اور یوں یہ سلطنت بھی تاریخ میں دفن ہوگئی، نادر شاہ درانی تاریخ کا پہلا حکمران تھا جس کے پاس چھ لاکھ ریگولر آرمی تھی، یہ باقاعدہ تنخواہ دار فوج تھی، اس کی سلطنت بھی ایران سے افغانستان اورانڈیاتک پھیلی ہوئی تھی، 2 جون1747ء میں نادر شاہ کو خبوشان شہر میں قتل کر دیا گیا، اس کے قتل کے صرف دو گھنٹے بعد اس کی پوری فوج بھی تتر بتر ہوگئی اور اس کا جنازہ تک اٹھانے کے لیے کوئی نہ بچا اور ملٹری گورنمنٹ کی آخری مثال ہٹلر تھا۔
یہ جنوری 1933ء سے اپریل 1945ء تک اقتدار میں رہا، اس نے ان 12برسوں میں دنیا کے 20 ملک فتح کر لیے، ہٹلر نے اس وقت کی دو سپر پاورز کو ناکوں چنے چبوا دیے لیکن یہ ہٹلر 30 اپریل 1945ء کو خودکشی پر مجبور ہوگیا، پیچھے رہ گئی سلطنت تو وہ اس کی موت سے پہلے ہی دھڑن تختہ ہو چکی تھی، یہ تاریخ کی چند مثالیں ہیں، آپ اگر ان مثالوں میں اشوک اعظم، ذوالقرنین، سلطان صلاح الدین ایوبی، عبدالرحمن اول، خوارزم شاہ، محمود غزنوی، سلجوق، شاہ سلیمان، نپولین بونا پارٹ اور راجہ رنجیت سنگھ کو بھی شامل کر لیں تو آپ کے لیے فیصلہ آسان ہو جائے گا۔
یہ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری کا پہلا سبق ہے کہ تاریخ میں آج تک کوئی ملٹری گورنمنٹ نہیں چل سکی، جرنیلوں نے ملک فتح ضرور کیے لیکن یہ آج تک کوئی ملک چلا نہیں سکے، دنیا کی ہر فوجی ریاست بالآخر ختم ہوئی اور اس کے بعد اس کا نام و نشان تک مٹ گیا، یہ تاریخ کا پہلا سبق تھا، آپ اب دوسرا سبق بھی ملاحظہ کیجیے، انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری میں آج تک کوئی مذہبی ریاست بھی نہیں چل سکی، آپ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ سے اسٹارٹ کیجیے، یہ دونوں پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں سلطنتیں بھی عنایت کی تھیں۔
حضرت سلیمانؑ دنیا کے پہلے اور آخری ایسے نبی بادشاہ تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے خشکی، پانی اور ہوا تینوں پر حق حکمرانی عطا کر رکھا تھا لیکن آج حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ دونوں کی سلطنتیں صرف مذہبی حوالوں میں ملتی ہیں، بیت المقدس، خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ سے پہلے دنیا کا متبرک ترین مقام تھا لیکن یہ مقام انبیاء کرام کی موجودگی میں کتنی بار اجڑا، یہ کتنی بار تباہ ہوا اور اسے کتنی بار نذر آتش کیا گیا آپ کسی دن تاریخ نکال کر دیکھیں، آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
آپ حضرت موسیٰؑ کی سلطنت کے آثار بھی تلاش کیجیے، آپ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات پر بننے والی ریاستوں کی تاریخ بھی دیکھ لیجیے، آپ مہاتما بودھ کے مذہب پر تعمیر ہونے والی ریاست بھی ڈھونڈیئے اور آپ اسلامی ریاست کی تاریخ بھی دیکھ لیجیے، آپ چند لمحوں میں حقیقت تک پہنچ جائیں گے، مدینہ منورہ اسلامی ریاست کا دارالخلافہ ہوتا تھا، حضرت عمر فاروقؓ اسی شہر میں شہید ہوئے، حضرت عثمانؓ بھی اسی شہر رسولؐ میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے مسند شہادت پر فائز ہوئے، آپؓ کا جسم اطہر تین دن تک قرآن مجید پر پڑا رہا۔
حضرت علیؓ 657ء میں مدینہ سے نکلے اور کوفہ کو اسلامی ریاست کا دارالخلافہ بنایا، حضرت علیؓ کی اس نقل مکانی کو آج 1359 سال ہو چکے ہیں لیکن مدینہ اس کے بعد کبھی دارالخلافہ نہیں بن سکا، مکہ اور مدینہ دونوں ہم مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہیں، یہ ہماری عبادت اور عقیدت دونوں کے دارالحکومت ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے پوری زندگی باوضو رہنے اور تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے والے بادشاہ بھی ان دونوں روحانی دارالحکومتوں کو حضرت علیؓ کے بعد اپنی سلطنت کا دارالخلافہ نہیں بنا سکے اور ان میں وہ ترک بادشاہ بھی شامل ہیں جنھوں نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی توسیع کے دوران عقیدت اور محبت کی عظیم داستان رقم کی تھی۔
تاریخ بڑی ظالم، بڑی بے رحم ہے، یہ جب گواہی دینے پر آتی ہے تو اسے یہ مانتے چند سیکنڈ لگتے ہیں کہ دنیا میں یہودی ریاست چل سکی، عیسائی ریاست، بودھ ریاست، ہندو ریاست اور نہ ہی اسلامی ریاست، ہماری اسلامی ریاست کی کل تاریخ چار خلفاء راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے اڑھائی سالہ دور پر مبنی ہے اور یہ پانچ عظیم ہستیاں بھی پوری زندگی اندرونی محاذوں پر لڑتی رہیں اور ان میں سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سوا تین خلفاء شہید ہوئے۔
ہماری آخری اسلامی ریاست طالبان کی شکل میں سامنے آئی، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ دنیا کے 58 اسلامی ملکوں میں سے کسی ایک نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا، افغانستان سے دنیا کے پانچ مضبوط اسلامی ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں، یہ پانچوں ملک بھی نہ صرف طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف تھے بلکہ یہ آج تک امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں، دنیا میں اس وقت صرف دو مذہبی ریاستیں ہیں، پاکستان اور اسرائیل، آپ ان دونوں کے حالات دیکھ لیجیے۔
اسرائیل اور پاکستان دونوں کے شہریوں کو سکون کی نیند نصیب نہیں، آپ بھارت کی مثال بھی لے لیجیے، ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہیں لیکن ریاست کا مذہب سیکولرازم ہے، یہ ملک آج تک اس لیے قائم ہے کہ یہ لوگ مسلمان کو صدر، سکھ کو وزیراعظم، عیسائی کو کانگریس کی چیئرپرسن اور پارسی کو چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیتے ہیں، یہ جس دن بھارت کو ہندوستان ڈکلیئر کر دیں گے یہ ملک اس دن ختم ہو جائے گا، یورپ آج اس لیے یورپ، امریکا اس لیے امریکا اور چین اس لیے چین ہے کہ یہ مذہبی ریاستیں نہیں ہیں۔
آپ سعودی عرب میں چرچ نہیں بنا سکتے، آپ کو وہاں امام بارگاہ تعمیر کرنے کے لیے ناقابل یقین مشکلات سے گزرنا پڑے گا لیکن آپ یورپ کے کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں، آپ امریکا میں مسجد بنائیں، مندر بنائیں یا سینا گوک تعمیر کریں آپ کو ریاست نہیں روکے گی لیکن آپ پاکستان میں مندر، چرچ، سیناگوک اور جماعت خانہ بنا بھی لیں تو اسے چلا کر دکھائیں، آپ کو حفاظت کے لیے پولیس اور رینجرز کی ضرورت پڑ جائے گی، یہ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ تاریخ کا دوسرا سبق ہے، دنیا میں آج تک کوئی مذہبی ریاست نہیں چل سکی، یہاں تک کہ بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰؑ کے نام پر بننے والی ریاستیں بھی ختم ہوئیں اور ان کی داستان تک نہ رہی داستانوں میں جب کہ ہم پچھلے 70 سال سے اس ملک میں یہ دونوں کوششیں کر رہے ہیں۔
ہم نے اپنی ریاست کو مذہبی اور فوجی دونوں رنگ دے رکھے ہیں، ہم نے چار بار فوج کے ذریعے ملک چلانے کی کوشش کی، اس کوشش میں ملک آدھا رہ گیا، یہ اسامہ بن لادن اور ملا منصور کی پناہ گاہ بن گیا لیکن ہم نے کوشش ترک نہیں کی، ہم اس ملک کو 70 سال سے مذہبی ریاست بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور اس کوشش میں ہماری مسجدیں محفوظ ہیں اور نہ ہی امام بارگاہیں، ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں اور یہ20 کروڑ لوگ (نعوذباللہ) خدا بن کر روزانہ دوسروں کا حساب کر رہے ہیں۔
ہمیں بہرحال اس مغالطے سے بھی باہر آنا ہوگا، ہمیں ماننا ہوگا فوج ملک کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے، حکومت کرنے کے لیے نہیں اور مذہب انسان اور خدا کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، ریاست اور خدا کے درمیان نہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان سے خطاب کیا، یہ کسی ریاست، مملکت یا ملک سے مخاطب نہیں ہوا اور حشر کے دن بھی انسانوں کا حساب ہوگا۔
کسی ملک، معاشرے یا ریاست کا نہیں، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ملک قانون سے چلتے ہیں اور قانون جب تک تمام شہریوں کو طبقے، فرقے، حسب نسب اور مذہب سے بالاتر ہو کر ایک آنکھ سے نہ دیکھے، جب تک یہ گورے اور کالے، عربی اور عجمی، امیر اور غریب اور مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کو برابر حقوق نہ دے یہ اس وقت تک قانون نہیں کہلا سکتا چنانچہ ہمیں تاریخ سے سیکھنا ہوگا، ہمیں یہ ماننا ہوگا اگر سکندر اعظم کی فوج ملک نہیں چلا سکی تھی تو یہ کام ہماری فوج بھی نہیں کر سکے گی اور اگر دنیا میں بنی اسرائیل کی سلطنت قائم نہیں رہ سکی تو یہ ہمارے مولانا شیرانی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے بس کی بات بھی نہیں ہوگی، ہمیں بہرحال تاریخ کو سنجیدہ لینا ہوگا۔