آج سے چند برس قبل ملک کے ایک نامور سیاستدان کو اپنے بچوں کے لیے کسی ایسی کتاب کی تلاش تھی جو بچوں کی کردار سازی، علم اور ذہانت میں اضافہ کر سکے، وہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا "کوئی ایک ایسی کتاب بتا دیں جس میں تمام خوبیاں ہوں " میں نے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر" تاریخ فرشتہ" لکھ کر ان کے حوالے کر دیا، وہ ملک کے لاکھوں لوگوں کی طرح "تاریخ فرشتہ" سے واقف نہیں تھے، انھوں نے پوچھا "کیا یہ کوئی روحانی یا دینی کتاب ہے" میں نے عرض کیا "جی نہیں، یہ ہندوستان کی مسلم تاریخ کا آئینہ ہے، پاکستان کے ہر سیاستدان، ہر جرنیل اور ہر بیوروکریٹ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تا کہ یہ تاریخ کی وہ غلطیاں نہ دہرا سکیں جن کا مطالعہ یہ سرزمین سیکڑوں سال سے کر رہی ہے" وہ تشریف لے گئے، چند دن بعد ان کا فون آیا اور وہ دیر تک کتاب کی تعریف کرتے رہے۔
"تاریخ فرشتہ" حقیقتاً تعریف کے قابل ہے، یہ کتاب 1606ء میں محمد قاسم فرشتہ نام کے ایک سچے اور کھرے مورخ نے لکھی اور کمال کر دیا، یہ کتاب ملک کے ہر سیاستدان، فوجی افسر، بیوروکریٹ اور جج کے سرہانے ہونی چاہیے اور اسے روزانہ اس کا ایک باب پڑھ کر سونا چاہیے تا کہ یہ اگلے دن اٹھے تو یہ وہ غلطیاں نہ کرے جو اس خطے میں پچھلے دو، دو ہزار سال سے ہو رہی ہیں اور ہر غلطی کا نتیجہ وہ نکلا جو اس وقت پاکستان میں صاف نظر آ رہا ہے۔
"تاریخ فرشتہ" کی بارہ ابواب پر مشتمل چار جلدیں ہیں اوراس کا ہر باب انسان کے بارہ طبق روشن کر دیتا ہے، اسے پڑھتے ہوئے تاریخ کے تمام کردار آپ کو اپنے آگے پیچھے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں، مثلاً آپ قطب الدین مبارک شاہ خلجی کو لے لیجیے، یہ علائوالدین خلجی کے بعد ہندوستان کا بادشاہ بنا، اس کی سلطنت دوتہائی ہندوستان پر پھیلی ہوئی تھی، یہ مذہباً مسلمان تھا لیکن اس کی حرکات انسانیت کی تمام حدیں کراس کر گئیں، یہ مک مکا کا ماہر تھا، اس نے ملک کے تمام اہم لوگوں کو خطاب، اعزازات، جاگیر یں اور وزارتیں دے کر اپنے ساتھ ملا لیا، ملک کے تمام حق گو، ایماندار اور بااثر لوگوں کو ایک ایک کر کے قتل کرا دیا، ملک کا جو بھی شخص اس کو چیلنج کرتا تھا یہ اسے دولت کے ذریعے خرید لیتا تھا یا پھر قتل کرا دیتا تھا، یہ معاملہ اس حد تک رہتاتودرست تھا کیونکہ دنیا کے زیادہ تر بادشاہ یہی کرتے ہیں لیکن وہ فطرتاً ایک مکروہ کردار تھا، وہ ہم جنس پرست تھا، وہ گجرات کاٹھیاواڑ کے ایک نوجوان ہندو لڑکے پر عاشق ہو گیااور اس نے اس لڑکے کو اپنی ذمے داری میں لے لیا، اسے خسرو خان کا خطاب دیا، وزیر بنایا اور اس کے ساتھ رہنے لگا، بادشاہ سلامت ہرروز خسرو خان کے ساتھ شادی کرتے تھے، یہ ایک دن خسرو خان کا دولہا بنتے، باقاعدہ بارات تیار ہوتی، ملک کے تمام عمائدین لباس فاخرہ پہن کر اس بارات میں شامل ہوتے، شامیانے لگتے، باراتیوں کو کھانا کھلایا جاتا، قاضی صاحب آتے اور بادشاہ سلامت کا خسرو خان کے ساتھ نکاح پڑھایا جاتا اور اس کے بعد ڈولی رخصت ہوجاتی، اگلے روز خسرو خان دولہا بنتااور بادشاہ سلامت قطب الدین مبارک شاہ خلجی اس کی دولہن بنتے اور اس تقریب میں بھی عمائدین سلطنت باقاعدہ شرکت کرتے تھے، اس "نکاح" کا ولیمہ بھی ہوتا تھا، بادشاہ سلامت نے ملک میں حسن فروشی اور شراب نوشی کی کھلی اجازت دے دی، انھوں نے اپنے محلات کے دروازے سستی عورتوں پر کھول دیے، وہ دربار میں سرعام برہنہ بھی ہو جاتے تھے اور درباریوں کو بھی اطاعت کا حکم جاری کر دیتے تھے، بادشاہ سلامت دربار میں زنانہ کپڑے اور زیورات پہن کر بھی تشریف لے آتے تھے اور درباری ان کے جمال کی کھل کر تعریف کرتے تھے۔ قطب الدین مبارک شاہ نے ہندوستان پر چار سال، چار ماہ حکومت کی، اس دوران خسرو خان اس کی کمزوری بن گیا، خسرو خان نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا، اس نے بادشاہ کے کان بھر بھر کر اس کے تمام وفادار ساتھی قتل کروا دیے، عزیز رشتے داروں کو جیلوں میں پھینکوا دیا، محل اور دربار میں اپنی برادری کے لوگ لگوا دیے اور پھر ایک دن بادشاہ کو عین اس وقت قتل کر دیا جب وہ زنانہ کپڑے پہن کر خسرو خان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا، بادشاہ کا سر محل سے باہر پھینک دیا گیا اور خواجہ سرا خسرو خان ہندوستان کا بادشاہ بن گیا، خسرو خان نے اقتدار سنبھالتے ہی محل میں موجود قرآن مجید جمع کروائے اور (نعوذباللہ) انھیں دربار کی کرسیاں بنا دیا، مسلمان عمائدین کو ان پر بیٹھنے کا حکم دیا اور یہ لوگ ان کرسیوں پر بیٹھتے بھی رہے، نیا بادشاہ دربار میں درباریوں پر پیشاب بھی کر دیتا تھا، یہ حرکات اس قدر بڑھ گئیں کہ لوگوں نے خدا اور رسول ؐ کا واسطہ دے کر دیپالپور کے امیر غازی ملک کو دلی آنے کی دعوت دی، غازی ملک نے دلی فتح کی، خسروخان کو قتل کیا اور سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے حکومت شروع کر دی۔
قطب الدین مبارک شاہ اور خسرو خان محمد قاسم فرشتہ کی 1300 صفحات کی کتاب کے دو کردار تھے جب کہ اس کتاب میں سیکڑوں اچھے برے کردار موجود ہیں، قاسم فرشتہ کا دعویٰ ہے ہندوستان میں جب بھی کوئی اچھا حکمران آیا، اس خطے نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی لیکن جونہی قطب الدین مبارک شاہ جیسا کوئی کردار تخت نشین ہوا، یہ ملک تباہی اور بربادی کا منظر پیش کرنے لگا، آج اگر محمد قاسم فرشتہ زندہ ہوتا اور اس کی تاریخ نویسی جاری ہوتی تو یہ یقیناً آج کے پاکستان کے چند کردار بھی اپنی کتاب میں شامل کر لیتا اور ان کرداروں میں یقیناًنواب اسلم رئیسانی جیسا جید سیاستدان بھی شامل ہوتا، پاکستان نے تاریخ میں ایک سے ایک بڑا نمونہ بھگتا ہے لیکن نواب اسلم رئیسانی مدظلہ العالی کا کوئی جواب نہیں،
نواب صاحب 9اپریل 2008ء میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے اور اس کے بعد انھوں نے اسلام آباد کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا، یہ مہینے میں اوسطاً 22 دن اسلام آباد میں قیام کرتے، سڑک پر ہیوی موٹر بائیک چلاتے، اسپورٹس کار میں جلوے دکھاتے، ریمورٹ کنٹرول سے حکومت چلاتے اور ٹیلی ویژن پر حیران کن بلکہ بعض اوقات شرمناک بیانات جاری کرتے مثلاً" ڈگری ڈگری ہوتی ہے جعلی ہویا اصلی، کرسی کرسی ہوتی ہے لکڑی کی ہو یا پلاسٹک کی، جس میں ہمت ہے مجھے ہٹائے 10روپے انعام دوں گا، جس کو بخار ہوا اسے اسپرین دیں گے، اسپرین سے آرام نہ ہوا تو انجکشن لگا لیں گے، جب سردی ہو گی تو میں آپ کو دھوپ میں کھڑا کر دوں گا اور مئی جون میں چھائوں میں کھڑا کر دوں گا"وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام بیانات ان کی ذہانت اور دماغی زرخیزی کا ادبی نمونہ ہیں مگر کوئٹہ میں 10جنوری کو 120لوگوں کی ہلاکت کے بعد ان کے بیانات بین الاقوامی ادب تک پہنچ گئے، کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے ہزاروں سوگوار 86 میتیں سڑک پر رکھ کر بیٹھ گئے، یہ لوگ بلوچستان حکومت کی برطرفی اور کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن نواب صاحب اس وقت لندن میں تشریف رکھتے ہیں، میڈیا نے ان سے رابطہ کیا تو نواب صاحب کے خیالات نے ہر دکھی دل کو رلا دیا، نواب صاحب نے پہلے بیان جاری کیا "میں کوئٹہ کے سوگواروں کے لیے ٹشو پیپرز کے دو ٹرک بھجوا رہا ہوں، یہ ان سے اپنے آنسو پونچھ لیں "اور اس کے بعد فرمایا "میں نے لندن میں ہوٹل کا کرایہ ادا کر دیا ہے، میں ہوٹل چھوڑ کر کوئٹہ کیسے آ جائوں "۔ یہ بیانات خسرو خان اور قطب الدین مبارک شاہ کی حرکتوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے، آپ بے حسی ملاحظہ کیجیے، لوگ 86لاشیں سڑک پر رکھ کر شدید سردی اور بارش میں بیٹھے تھے، ملک بھر میں دھرنے ہو رہے تھے، لوگ ملک کے 112 شہروں میں بچوں کو ساتھ لے کر سڑکوں پر بیٹھے تھے اور وزیراعلیٰ بلوچستان فرما رہے ہیں میں نے ہوٹل کے کمرے کا کرایہ دے دیا ہے، میں کیسے واپس آ جائوں یا میں دو ٹرک ٹشو پیپرز بھجوا رہا ہوں۔ دنیا میں اس سے زیادہ ستم گری اور سنگدلی کیا ہو سکتی ہے، آپ وفاقی حکومت کا رویہ دیکھ لیجیے، صدر آصف علی زرداری تین ہفتوں سے کراچی میں بیٹھے ہیں، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے صاحبزادے کی شادی کی تقریبات میں مصروف ہیں اور کابینہ کراچی، لاہور اور آبائی حلقوں کے درمیان گم ہو چکی ہے، وزیراعظم تیسرے دن ایکٹو ہوئے اور انھوں نے آئین کی دفعہ 234 کے تحت بلوچستان حکومت ختم کرکے وہاں گورنر راج لگا دیا اور یہ وہ وزیراعظم ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ کے 31 اکتوبر 2012ء کے فیصلے بلوچستان حکومت اپنا حق حکمرانی کھو چکی ہے اس کی شدید مذمت بھی کی تھی اور اس فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین بھی قرار دیاتھا لیکن 86 لاشوں کے بعد حکومت نے نہ صرف عوامی مینڈیٹ کی توہین قبول کر لی بلکہ وہ کام بھی کیا جس کا مطالبہ سپریم کورٹ کر رہی تھی۔ اگریہ جمہوریت ہے، اگر یہ عوامی مینڈیٹ ہے اور اگر یہ وہ سسٹم ہے جس کے تحفظ کا دعویٰ صدر، وزیراعظم اور میاں نواز شریف کر رہے ہیں تو پھر عوام کو اسے ایک لمحے میں مسترد کر دینا چاہیے، اگر بیلٹ باکس سے اسلم رئیسانی جیسے لوگوں نے نکلنا ہے اور اگر حکومت نے پانچ برس بعد لاشیں اٹھانے کے لیے گورنر راج لگانا ہے تو پھر ہم جمہوریت کے اہل ہی نہیں ہیں پھر علامہ طاہر القادی سمیت اس ملک کا ہر وہ شخص سچا ہے جو چوراہوں کو پھانسی گھاٹ بنانا چاہتا ہے اور سڑکوں کو پارلیمنٹ۔
مجھے خطرہ ہے اگر علامہ طاہر القادری ناکام ہو گئے تو اس کے بعد وہ لوگ مارچ کریں گے جو گولی پہلے ماریں گے اور مقدمہ بعد میں سنیں گے کیونکہ ہمارے حکمران ٹشو پیپرز کے ٹرک ہیں، یہ سب اسلم رئیسانی ہیں اور یہ ملک اب اسلم رئیسانیوں کے ذریعے نہیں چل سکے گا۔