آدھ گھنٹے کے بعد بارش شروع ہو گئی، بلیک فاریسٹ سیاہ بادلوں میں گھر گیا، بادل گرج رہے تھے، جنگل سے شوریدہ آوارہ ہواؤں کی آوازیں آ رہی تھیں، جھیل کے کالے پانیوں پر بوندوں کا رقص جاری تھا، دور دور تک کوئی بندہ بشر نہیں تھا، سردی کی خوفناک لہر تھی اور تنہائی تھی اور میں اس تنہائی، بارش اور سردی کی اس اچانک لہر میں آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
میں نے پہلی بار محسوس کیا بارش تنہا انسان کو اداس کر دیتی ہے، یہ سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کی حس کو عارضی طور پر معطل کر دیتی ہے، بارش، بادلوں کی گرج، جنگل سے چھن چھن کر آتی آوازوں اور جھیل پر اترتے قطروں کے ساتھ اچانک ایک زنانہ آواز آئی، کوئی خاتون جرمن آواز میں چیخ رہی تھی، مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں جنگل میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو چڑیلیں ملتی ہیں، وہ لوگ ان چڑیلوں کو لاٹری سمجھ کر ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں لیکن وہ آخر میں اپنی عزت، حرمت اور جان تینوں گنوا بیٹھتے ہیں، میں اس دور میں سوچا کرتا تھا " چلیے عزت اور حرمت کی قربانی تو جائز ہے لیکن کسی بھٹکے ہوئے شخص کی جان نہیں لینی چاہیے۔"
میں نے گھبرا کر دائیں بائیں دیکھا، یہ کیمپنگ سائیٹ تھی، لوگوں نے سائیٹ میں ٹینٹوں کا شہر آباد کر رکھا تھا، کارواں بھی تھے اور لوگ کاروان میں بیٹھ کر بارش کا نظارہ کر رہے تھے، میں سر جھکا کر چل رہا تھا چنانچہ میں نے اس کیمپنگ سائیٹ پر توجہ نہیں دی تھی، میرے سامنے کیمپنگ گراؤنڈ کا آفس تھا، وہ خاتون آفس کے چوبی برآمدے میں کھڑی ہو کر مجھے آوازیں دے رہی تھی اورمیں بھیگے ہوئے کبوتر کی طرح دیکھ رہا تھا، اس کے ہاتھ میں چھتری تھی، وہ ہوا میں چھتری لہراتی تھی اور مجھے اشارہ کرتی تھی، اس تنہائی میں ایک جرمن خاتون آپ کو دور سے آواز دے رہی ہے، میرے اندر فوراً ایک مستنصر حسین تارڑ نے جنم لے لیا اور مجھے وہ تمام دعائیں یاد آ گئیں جو میں نے مستنصر حسین تارڑ بننے کے لیے بچپن سے جوانی تک کی تھیں اور ان کے جواب میں قدرت نے ایک گہری خاموش تان لی تھی، میں نے خاتون کی طرف دوڑ لگا دی۔
میں گرتا پڑتا آفس کے برآمدے میں پہنچا، میں سر سے لے کر پاؤں تک بھیگا ہوا تھا، خاتون قہقہے لگا رہی تھی، میں نے اس سے ٹشو پیپر مانگے، وہ اندر گئی اور ٹوائلٹ رول لا کر میرے ہاتھ میں پکڑا دیا، میں نے بڑی مشکل سے منہ، آنکھیں اور ماتھا صاف کیا، پتلون کی جیب سے عینک نکالی، صاف کی اور آنکھوں پر لگائی اور پھر شاک میں چلا گیا، وہ ایک بوڑھی "دعا" تھی، وہ مجھے فاصلے، بارش اور کمزور نظر کی وجہ سے جوان محسوس ہوئی تھی، میں نے تارڑ صاحب کی سلامتی کی دعا کی اور خاتون کی شفقت کا شکریہ ادا کرنے لگا، خاتون کیمپنگ سائیٹ پر عارضی دکان چلاتی تھی، دکان میں کھانے پینے اور عارضی قیام کی تمام اشیاء موجود تھیں، خاتون جس کا نام کوئی ڈکشا ٹائپ تھا، اس نے مجھے بارش میں بھیگتا دیکھا تو رحم آ گیا اور اس نے اپنی چھتری کی قربانی دینے کا فیصلہ کر لیا، میں نے اس کی دکان سے بسکٹ کا ایک پیکٹ، جوس کی ایک بوتل لی، چھتری کا شکریہ ادا کیا اور دوبارہ چل پڑا۔
فرائی برگ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے بارڈر پر جرمنی کا آخری قصبہ ہے، یہ اس کے خوبصورت ترین قصبوں میں شمار ہوتا ہے، اس سے فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحدیں دس دس منٹ کے فاصلے پر ہیں، یہ پہاڑوں میں گھرا ہوا پرسکون شہر ہے، اس کی دو اٹریکشن ہیں، بلیک فاریسٹ اور لطیف صاحب۔ لطیف صاحب اور ان کی بیگم شمع میرے پرانے فین ہیں، یہ برسوں سے مجھے فرائی برگ کی دعوت دے رہے تھے، میں نے ان سے وعدہ کیا تھا، کبھی نہ کبھی ضرور آؤں گا اور میں یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے فرائی برگ پہنچ گیا، اس شہر کی دوسری خوبی بلیک فاریسٹ ہے، یورپ کا سب سے بڑا جنگل ہے جو فرائی برگ کی بغل سے گزرتا ہے، بلیک فاریسٹ 160 کلو میٹر طویل جنگل ہے، جس میں گاؤں بھی ہیں، جنگلی حیات بھی، جھیلیں اور پہاڑ بھی۔
جنگل کے اندر پیدل چلنے کے راستے بنے ہیں، بلیک فاریسٹ بھی ایمزون کی طرح میری زندگی کی "ہٹ لسٹ" میں شامل ہے، اللہ تعالیٰ نے اگر زندگی اور مہلت دی تو میں نے ماؤنٹ ایوریسٹ جانا ہے، بودھوں کے مذہبی شہر لہاسا میں دو دن گزارنے ہیں، بحری جہاز پر قطب شمالی جانا ہے، ایمزون کے جنگلوں میں ایک ہفتہ گزارنا ہے اور سینا کے صحرا میں کوہ طور تک جانا ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش بیت اللحم کی زیارت کرنی ہے، مسجد اقصیٰ میں دو نفل نماز ادا کرنی ہے اور خانہ کعبہ کے اندر جا کر اور روضہ رسولؐؐ کی اندرونی دیوار سے سر لگا کر توبہ کرنی ہے، کاش زندگی مجھے اتنی مہلت دے دے۔ میں واپس بلیک فاریسٹ آتا ہوں، ٹی ٹی سی فرائی برگ کی طرف سے بلیک فاریسٹ کا نقطہ آغاز ہے، یہ پہاڑوں کے اندر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، گاؤں صنوبر اور چیڑھ کے درختوں میں گھرا ہوا ہے، اس کے عین درمیان ایک طویل جھیل ہے، بس، ٹیکسی اور ٹرین تینوں سہولتیں موجود ہیں، ہوٹل بھی ہیں، شاپنگ سینٹر بھی، ریستورانوں کی ایک طویل قطار بھی ہے، کلب بھی ہیں اور کرائے پر کشتیوں کی سہولت بھی۔
ہم جمعہ کی شام ٹی ٹی سی پہنچے، میں نے لطیف صاحب اور ان کی بیگم سے آہستہ آہستہ چلنے کی درخواست کی اور خود جھیل کے گرد کھنچے ٹریک پر آ گیا، میں نے جھیل کے گرد چکر لگانے کا فیصلہ کر لیا، جھیل طویل تھی لیکن میں چل پڑا، میری بائیں جانب پہاڑ تھے، پہاڑوں پر جنگل تھا، دائیں جانب جھیل تھی، زمین پر کنکریاں تھیں اور سر پر گہرے سیاہ بادل اور میں اس طویل پینٹنگ میں ایک متحرک سیاہ نقطہ۔ آدھ گھنٹے بعد بارش شروع ہو گئی اوروہ بھی انتہائی خوفناک، میرے پاس دو راستے تھے، میں واپس لوٹ جاتا یا پھر اپنا سفر مکمل کرتا، بارش بہرحال دونوں جانب تھی چنانچہ میں نے آگے کا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، میں چلتا رہا اور بارش برستی رہی، بارش کے دوران بوڑھی جرمن خاتون نے چھتری کی مہربانی کر دی، میں اس کا مشکور ہو گیا، جھیل کا دائرہ اڑھائی گھنٹے طویل تھا، میں اڑھائی گھنٹے بعد واپس ریلوے اسٹیشن پہنچا اور پورا گاؤں ویران ہو چکا تھا، لطیف صاحب اور ان کی بیگم انتہائی پریشان تھے، وہ دور دور تک میرے گم ہونے کی اطلاع پہنچا چکے تھے، بس پولیس کو اطلاع کرنے کی دیر تھی لیکن میں اس سے پہلے ان تک پہنچ گیا۔
یہ پریشان تھے اور میں بار بار سوچ رہا تھا، کاش میں گم ہو جاتا، شناخت بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے، ہم شناخت تک پہنچنے کے لیے سر توڑ جدوجہد کرتے ہیں، لوگ ہمارے نام، ہمارے چہرے سے واقف ہوں، یہ ہمیں ہمارے حوالے سے پہچانیں، یہ ہمارے ساتھ تصویریں بنوائیں، یہ آٹو گراف لیں اور یہ چلتے چلتے ایک دوسرے کو کہنی مار کر کہیں " وہ دیکھو، وہ جا رہا ہے" ہم زندگی میں ان کہنیوں، ان حوالوں اور اس شناخت کے لیے بہت جدوجہد کرتے ہیں لیکن شناخت کی ایک خاص سطح پر پہنچنے کے بعد انسان کو اچانک بے شناختی، گم نامی اور عام انسان ہونے کی قدر کا احساس ہوتا ہے، آپ کو اچانک محسوس ہوتا ہے، بے شناختی شناخت سے کہیں زیادہ قیمتی ہے، آپ جتنا ہجوم میں عام انسان بن کر زندگی کو انجوائے کرتے ہیں، آپ خاص انسان ہو کر اس کا تصور تک نہیں کر سکتے، میں آج کل اسی خبط سے گزر رہا ہوں، میں ایسی اجنبی زمینوں کی طرف نکل جاتا ہوں جہاں لوگ میرے چہرے، میرے نام اور میری شناخت تینوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یہ میری زبان نہیں سمجھتے اور میں ان کی زبان نہیں جانتا۔
بے شناختی کی اس دنیا میں پہنچ کر احساس ہوتا ہے ہمارے اردگرد ایک اور دنیا بھی موجود ہے، یہ دنیا لفظوں اور شناختوں پر یقین نہیں رکھتی، اس دنیا میں اشارے، آنکھیں اور "اورا" زبان ہیں، اس دنیا کے لوگ انسان کو محض انسان سمجھتے ہیں، یہ زبان ہلائے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ "کمیونی کیشن" کرتے ہیں، یہ دوسرے کی بات بھی سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو بات بھی سمجھاتے ہیں اور اس سارے معاملے میں زبان اضافی ہوتی ہے، میں اس دنیا کے خبط میں مبتلا ہو گیا ہوں، میں جگہ جگہ یہ دنیا تلاش کرتا ہوں، پاکستان کے اندر بھی اور پاکستان کے باہر بھی اور اس دنیا میں پہنچ کر میرا پہلا احساس "بے خوفی" ہوتا ہے، میں نے اس دنیا میں جانا، شناخت خوف کا سب سے بڑا سورس ہوتا ہے، لوگ آپ کو جانتے ہیں، خوف یہاں سے شروع ہوتا ہے اور آپ جب بے شناختی کے عمل سے گزرتے ہیں تو آپ سب سے پہلے گندی جراب کی طرح خوف کو اپنے وجود سے الگ کرتے ہیں ۔
آپ یقین کیجیے میں جتنا بے خوف ٹی ٹی سی کی اس جھیل پر تھا میں اپنے ملک میں اس کا تصور تک نہیں کر سکتا، مجھے اس جھیل پر یقین تھا، مجھے کوئی شخص واچ نہیں کر رہا اور اگر کر رہا ہے تو اسے مجھ سے کوئی غرض نہیں، یہ مجھے نہیں جانتا جب کہ میں اپنے ملک میں کندھوں پر شناخت کا ٹنوں بھاری بوجھ اٹھا کر پھرتا ہوں، لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں، یہ مجھے گالی دیں گے یا مجھے گولی مار دیں گے، یہ لوگ مجھ سے خوش کیوں نہیں ہیں؟ یہ صبح کے وقت مجھے ہیرو کہتے ہیں اور شام کے وقت غدار، کیوں؟ ایک کالم، ایک فقرہ مجھے محب وطن بنا دیتا ہے اور دوسرا فقرہ دوسرا، کالم غدار، ملک دشمن اور کافر۔ یہ لوگ میرے ایمان میں جھانک کر کیوں دیکھتے ہیں؟ یہ روز ملک میں میدان حشر کیوں آباد کرتے ہیں، یہ خود کو ایماندار اور دوسروں کو بے ایمان کیوں سمجھتے ہیں اور یہ لوگ مجھے محض انسان کب سمجھیں گے؟
میرے اردگرد روز سوالوں کی یہ فصل اگتی ہے اور میں جوابوں کے کانٹے چنتے چنتے رات کر دیتا ہوں لیکن میں ٹی ٹی سی کی اس جھیل کے کنارے محض ایک انسان تھا، بے خوف، مطمئن، مسرور اور اللہ تعالیٰ کا مشکور انسان جسے بھیگتا ہوا دیکھ کر دوسرے انسان نے چھتری دے دی تھی اور جو بسکٹ کے ایک پیکٹ اور جوس کی ایک بوتل پر مطمئن تھا، میں اس وقت بے شناختی، اطمینان اور بے خوفی کے عمل سے گزر رہا تھا، مجھے اس وقت کسی سے حب الوطنی، ایمان اور ایمانداری کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں تھی، وہاں صرف میں تھا اور میرا اللہ تعالیٰ تھا اور میں برستی بارش اور برستی آنکھوں کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا اور اس سے بار بار پوچھ رہا تھا، یا باری تعالیٰ جب تم ہو تو پھر یہ لوگ خدا بننے کی کوشش کیوں کرتے ہیں، یہ میرا ایمان کیوں ٹٹولتے ہیں؟ ٹی ٹی سی کی جھیل پر رات اتر رہی تھی۔