ہم بہت با کمال لوگ ہیں، ہمیں اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں دو سال سے ایک وزیرخارجہ نہیں ملا، ہماری وزارت خارجہ 22 ماہ سے دو مشیروں کے درمیان میدان جنگ ہے، طارق فاطمی باس ہیں یا سرتاج عزیز پوری وزارت اور دنیا کے 110 ممالک میں قائم پاکستانی مشن کنفوژن میں ہیں مگر ہم خارجہ امور میں پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
ہم عراقی امور کے بھی ماہر ہیں، ہم شام، اردن اور مصر کی صورتحال کے بھی ایکسپرٹ ہیں اور ہم نے یمن کے حالات ٹھیک کرنے کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے، ہم کتنے با کمال لوگ ہیں؟ ہمارے وزیراعظم آج تک بلوچستان کے ناراض رہنماؤں کو منانے کوئٹہ نہیں گئے، یہ پشاور بھی تشریف نہیں لے جاتے، خیبر پختونخواکے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 8 ماہ وزیراعظم ہاؤس میں قدم نہیں رکھا اور پی ٹی آئی نے 8 ماہ قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیے رکھا، یہ استعفے دے کر گھر بیٹھے رہے لیکن وزیراعظم یمن اور سعودی عرب کے ایشو پر ترکی تشریف لے جاتے ہیں۔
یہ ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو اور صدر طیب اردگان سے ملاقات کرتے ہیں یہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھی بھرتے ہیں، وزیراعظم نے آج تک اپنا وفد بنی گالہ نہیں بھجوایا لیکن یہ وزیردفاع، مشیر خارجہ اور افواج پاکستان کے سنیئر افسروں کا وفد سعودی عرب بھجواتے دیر نہیں لگاتے، ہم آج تک پاکستان کے متحارب گروپوں میں صلح نہیں کرا سکے مگر خلیج میں ثالثی کے لیے تیار بیٹھے ہیں، ہم کتنے باکمال لوگ ہیں، طالبان نے 10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو پر حملہ کر دیا۔
ہمیں طالبان کو پسپا کرنے کے لیے 12گھنٹے لڑنا پڑ گیا اور آخر میں ہم طالبان سے مذاکرات کے لیے ملک اسحاق کو جیل سے نکال کر راولپنڈی لانے پر مجبور ہو گئے، ہم مہران بیس بچا سکے، پریڈ لین مسجد کی حفاظت کر سکے اور نہ ہی کامرہ ائیر بیس، واہ آرڈیننس فیکٹری، ایف آئی اے، اسپیشل برانچ، آئی بی اور آئی ایس آئی کے دفاتر بچا سکے، ہم پولیس ٹریننگ سینٹروں کی حفاظت کر سکے اور ہم ائیر پورٹس، مسجدوں، امام بارگاہوں اور بازاروں کو بھی نہیں بچا سکے۔
ہم آرمی پبلک اسکول کی حفاظت بھی نہیں کر سکے، ہمارے ملک میں افطاری کے وقت اسلام آباد کا ایک فائیو اسٹار ہوٹل اڑا دیا گیا، ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے، ہمارے ملک میں اسامہ بن لادن چھ سال چھاؤنی ایریا کے قریب چھپا رہا، ہمیں خبر نہ ہوئی، امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے ایبٹ آباد پہنچ گئے لیکن ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی، ہم اسلام آباد کو دھرنے سے بھی نہیں بچا سکے، عمران خان اور علامہ طاہر القادری پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے، پارلیمنٹ ہاؤس کا جنگلہ ٹوٹا، ایوان صدر کا گیٹ توڑا گیا، پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ ہوا، سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں لٹکائی گئیں۔
عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا، بجلی کے بل پھاڑے، وفاقی دارالحکومت میں مظاہرین کیمروں کے سامنے پولیس اہلکاروں کی تلاشی لیتے رہے، مظاہرین نے ایس ایس پی کو ڈنڈوں اور ٹھڈوں سے مارا، لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں 14 لوگوں کو گولی مار دی گئی، یوحنا آباد میں دو بے گناہوں کو قتل کیا گیا، سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور لاشوں کو آگ لگا دی گئی اور کراچی میں 258 لوگوں کو فیکٹری کے دروازے بند کر کے زندہ جلا دیا گیا، ہم ان میں سے کسی کی حفاظت نہ کر سکے لیکن ہم سعودی عرب کی حفاظت کے لیے تیار بیٹھے ہیں، ہم بار بار اعلان کر رہے ہیں ہم سعودی عرب پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
ہمارے ملک میں بچے مر رہے ہیں، خواتین پامال ہو رہی ہیں، بوڑھوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے اور اندھوں تک پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں، ہمارے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا، ہم آج تک عمران خان سے حکومتی رٹ نہیں منوا سکے لیکن ہم یمن کی دستوری حکومت کو منوانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، ہم یمن کے باغیوں سے نبٹنے کے لیے کمر کس رہے ہیں، ہم سے اپنی حفاظت ہوتی نہیں مگر ہم سعودی عرب کی حفاظت ضرور کریں گے، واہ کیا بات ہے ہم کتنے با کمال لوگ ہیں۔
ہم کتنے با کمال لوگ ہیں، ہم آج تک میاں نواز شریف، عمران خان، الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمٰن کو اکٹھا نہیں بٹھا سکے، وزیراعظم 6 اپریل کے جوائنٹ سیشن سے "بچنے، کی کوشش کرتے ہیں، اپوزیشن کے احتجاج پر جوائنٹ سیشن کی کارروائی پانچ بجے تک موخر کر دی جاتی ہے لیکن ہم یمن کے ایشو پر سعودی عرب اور ایران کو اکٹھا بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، وزیراعظم ایرانی وزیرخارجہ سے ملاقات کرتے ہیں، ہم انقرہ تشریف لے جاتے ہیں۔
ہم یمن کے باغیوں سے رابطہ کر لیتے ہیں، ہم ایران کو سمجھا لیتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان کو سمجھا پاتے ہیں اور نہ ہی الطاف حسین سے رابطہ کر پاتے ہیں، ہم کتنے باکمال لوگ ہیں، ملک میں ستمبر 2014ء میں سیلاب آئے عمران خان دھرنے میں ڈٹے رہے، 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا، عمران خان اے پی سی میں شریک ہوئے، 21 ویں ترمیم کی حمایت کی مگر قومی اسمبلی نہیں آئے لیکن آپ یمن اور سعودی عرب کی محبت ملاحظہ کیجیے عمران خان جوڈیشل کمیشن کے بغیر اپنے ارکان کے ساتھ 6 اپریل کے جوائنٹ سیشن میں تشریف لے گئے۔
ہم کتنے با کمال لوگ ہیں ہمارے ملک میں بارہ برسوں میں ساڑھے سات ہزار دھماکے، حملے اور خودکش حملے ہوئے، 60 ہزار بے گناہ اور معصوم لوگ مارے گئے، کراچی کے حالات کس سے پوشیدہ ہیں، ایک تہائی شہر نو گو ایریا بن چکا ہے، ملک میں کرپشن، بے روزگاری اور لاقانونیت آسمان کو چھو رہی ہے، ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی نکل آتی ہیں، ہم روڈ ایکسیڈنٹ میں دنیا کے پانچ بڑے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں، ملک میں پوری پوری بس مسافروں سمیت جل کر راکھ ہو جاتی ہے اور پٹرول کا بحران بھی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن قوم آج تک ان ایشوز پر اکٹھی نہیں ہوئی۔
ہمارے علماء کرام، سول سوسائٹی اور لبرل طبقے کسی ایشو پر باہر نہیں آئے، ہم نے 60 ہزار لاشیں تک فراموش کر دیں لیکن سعودی عرب اور یمن کے معاملے میں ملک کا بچہ بچہ بول رہا ہے، ہمارے لوگ فوج کو سعودی عرب بھجوانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ہم کتنے با کمال لوگ ہیں، ہم نے آج تک کسی عوامی ایشو پر کوئی اے پی سی بلوائی اور نہ ہی پارلیمنٹ کا کوئی جوائنٹ سیشن بلایا، آپ پندرہ سال کی پارلیمانی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئے۔
کیا لوڈ شیڈنگ، تعلیم، بیوروکریسی، پولیس، بے روزگاری اور لا اینڈ آرڈر پر کوئی اجلاس ہوا؟ کیا کسی نے پارلیمنٹ کا کوئی مشترکہ اجلاس بلایا؟ نہیں بلایا، کسی نے تکلیف گوارہ نہیں کی لیکن یمن اور سعودی عرب کے ایشو پر ہم نے جوائنٹ سیشن بھی بلا لیا اور عمران خان روزہ توڑ کر قومی اسمبلی بھی پہنچ گئے واہ کیا بات ہے۔
یہ کیا ہے؟ یہ ہمارا نیشنل کریکٹر ہے، ہم سے اپنا پرنالہ سیدھا نہیں ہوتا لیکن ہم دنیا کے سمندروں کا راستہ بدلنا چاہتے ہیں ہم سے کراچی، کوئٹہ اور پشاور سنبھالا نہیں جاتا، ہمیں ساری رات ماڈل ٹاؤن میں چلنے والی گولیاں سنائی نہیں دیتیں، ہم ریڈزون کو مظاہرین سے بچا نہیں سکتے، ہم سے سرکاری عمارتوں کی حفاظت ہوتی نہیں، ہم نیکٹا کو فعال نہیں کر پاتے، ہم ضرورت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر پا رہے۔
ہم سے کراچی شہر کے پانچ لاکھ کنڈے اتارے نہیں جاتے، ہم عوام کو ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے سے نہیں روک پاتے، ہم سے بارش کی پیش گوئی ہوتی نہیں، ہم چار مہینے خشک سالی سے مرتے ہیں اور چار مہینے سیلابوں میں ڈبکیاں کھاتے ہیں، ہم سے ریلوے اور پی آئی اے چلائی نہیں جاتی، ہم سے سرکاری زمین سے قبضے نہیں چھڑائے جاتے، ہم سے پولیس کا ایک ایس ایس پی سنبھالا نہیں جاتا، ہم دھرنوں کے پیچھے چھپے خفیہ ہاتھوں کی نشاندہی نہیں کر پاتے، ہم آج تک ملک میں موجود مدارس اور مساجد کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکے۔
آج بھی نادرا کے پاس چھ کروڑ شہریوں کا ریکارڈ موجود نہیں، ہم آج تک لوگوں سے ممنوعہ بور کا اسلحہ واپس نہیں لے سکے، ہم آج بھی جناح گراؤنڈ اور کریم آباد میں ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے ہیں، ہم آج تک کتوں اور گدھوں کے گوشت کی خریدوفروخت نہیں روک سکتے، ہم آج تک عوام کو میٹرو بسوں کی افادیت نہیں سمجھا سکے، ہم آج تک ملک میں موٹر سائیکل کا ضابطہ اخلاق طے نہیں کرپائے، ہم آج تک انتخابی اصلاحات نہیں کر سکے۔
ہم آج تک یونیورسٹی کے امتحانات کو صاف اور شفاف نہیں بنا سکے، ہم آج تک ملک میں جعلی مصنوعات نہیں روک سکے اور ہم آج تک "ون ویلنگ، پر پابندی نہیں لگا سکے، ہمارا حال یہ ہے ہمیں محرم، 23 مارچ کی پریڈ اور 14 اگست کی تقریبات بچانے کے لیے موبائل فون بند کرنا پڑتے ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی گورنر، و زیراعلیٰ، وزیراعظم، صدر اور دیگر وی وی آئی پیز کا قافلہ گزارنے کے لیے ایمبولینس روک دی جاتی ہے، ہم آج بھی سلیوٹ کو ایفی شینسی سمجھتے ہیں۔
ہم ملک میں گیس پوری نہیں کر پائے اور ہمیں زرعی ملک ہونے کے باوجود دوسرے ممالک سے خوراک امپورٹ کرنی پڑتی ہے لیکن آپ اپنے "پنگے، ملاحظہ کیجیے ہم نے 1980ء میں اس وقت اپنا سر افغانستان کے بیلنے میں دے دیا، اور نائین الیون کے بعد جب ترکی اور لبنان جیسے ملکوں نے غیر جانبداری کا اعلان کر دیا، ہم نے اس وقت دہشت گردی کے امریکی بھانبڑ میں چھلانگ لگا دی اور اب جب ہمیں بجٹ بنانے کے لیے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے کشکول پھیلانا پڑتا ہے ہم اس وقت یمن کے دہکتے انگارے منہ میں ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
امریکا سعودی عرب کا دیرینہ دوست ہے امریکا نے سعودی عرب سے ٹریلین ڈالر کمائے، یہ آج سعودی عرب کو فوج دینے کے لیے تیار نہیں مگر ہم اعلان کررہے ہیں "ہم سعودی عرب پر آنچ نہیں آنے دیں گے، واہ ہم کتنے با کمال لوگ ہیں ہمیں ناک صاف کرناآتا نہیں اور ہم چاند کو پالش کرنے کے لیے گھر سے نکل رہے ہیں، واہ سبحان اللہ۔