Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wo Kon Hoga?

Wo Kon Hoga?

عثمان گل عمران خان کے وکلاء کے پینل میں شامل ہیں، یہ سائفر، توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈز کے کیسز میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کی وکالت کرتے ہیں، 29 جنوری پیر کو جج ابوالحسنات ذوالقرنین سائفر کیس کی سماعت کے لیے اڈیالہ جیل آئے، یہ عدالت کی طرف جا رہے تھے تو عثمان گل نے ان پر ایک نازیبا فقرہ کس دیا، جج صاحب نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا، سر جھکایا اور عدالت میں چلے گئے۔

عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان پر جرح ہونی تھی، جج صاحب نے اعظم خان کو روسٹرم پر بلایا اور سرکاری وکیل کو شاہ محمود قریشی کی طرف سے جرح کا حکم دے دیا، شاہ محمود قریشی کھڑے ہوئے اور انھوں نے شور شروع کر دیا، قریشی صاحب اور عمران خان کے وکلاء بھی کھڑے ہو گئے، جج صاحب سیدھے ہوئے اور انھوں نے عثمان گل کی طرف دیکھ کر کہا، آپ نے باہر جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا تھا۔

میں آپ لوگوں کی عزت کرتا تھا، میں نے آپ کو رعایت بھی بہت دی لیکن اب نہیں، اب فیصلہ صرف پروسیجر کے مطابق ہوگا اور اس کے ساتھ ہی جج صاحب نے کارروائی شروع کر دی، عمران خان توشہ خانہ کیس میں جج محمد بشیر کی عدالت میں تھے، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فوراً وائرلیس کرائی اور عمران خان کو عدالت میں طلب کر لیا، عمران خان نے جواب دیا، میرے وکلاء آئیں گے تو میں آؤں گا۔

جج صاحب نے جیل کے عملے کو سختی سے کہا "آپ عمران خان کو فوراً پیش کریں" اور جیل اسٹاف پانچ منٹ میں عمران خان کو عدالت میں لے آیا، جج نے کارروائی شروع کی اور 12 گھنٹے کی مسلسل سماعت کے بعد تمام گواہ بھگتا دیے، رات کے ساڑھے دس بجے دونوں ملزموں کے 342 کے سوال نامے تیار کرائے اور عدالت اگلے دن (30 جنوری) کے لیے برخاست کر دی۔

30 جنوری کو صبح ساڑھے دس بجے سماعت شروع ہوئی، عمران خان اور شاہ محمود قریشی عدالت میں موجود تھے، جج صاحب نے دونوں کو روسٹرم پر بلایا اور انھیں 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دے دیا، عمران خان نے ہنس کر کہا "جج صاحب یہ کیا ہوتا ہے؟" جج نے سختی سے جواب دیا "خان صاحب آپ یہ ڈرامہ بند کریں، میں نے آپ کو جتنی رعایت دینی تھی دے دی لیکن آپ نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا، آپ جائیں سامنے بیٹھیں اور جواب لکھیں" عمران خان نے کہا "مجھے میرے وکلاء چاہئیں" جج صاحب نے سرکاری وکیل کی طرف اشارہ کرکے کہا "آپ کا وکیل موجود ہے۔

آپ اس کی مدد لیں اور بیان لکھیں" عمران خان اور شاہ محمود نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دونوں بیٹھ کر بیان لکھنے لگے، جج صاحب تھوڑی دیر انھیں دیکھتے رہے اور اس کے بعد انھیں مخاطب کرکے کہا "خان صاحب آپ روسٹرم پر آ جائیں اور اسٹینو کو براہ راست بیان لکھوا دیں" عمران خان آئے اور انھوں نے سائفر پر اپنا موقف لکھوانا شروع کر دیا، وہ ایک گھنٹہ مسلسل بولتے رہے اور اسٹینو ٹائپ کرتا رہا، شاہ محمود قریشی اس دوران اپنا بیان لکھتے رہے۔

عمران خان کا بیان مکمل ہوا تو جج نے ان سے آخری سوال کیا "خان صاحب سائفر کہاں ہے؟" خان صاحب کا جواب تھا "میں نہیں جانتا، وزیراعظم آفس کی سیکیورٹی میری ذمے داری نہیں تھی" یہ سنتے ہی جج صاحب نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید بامشقت سزا سنائی اور اس کے ساتھ ہی کرسی سے اٹھ کر باہر کی طرف روانہ ہو گئے جب کہ شاہ محمود قریشی چلاتے رہ گئے جج صاحب میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا مگر جج صاحب ان کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔

30 جنوری کوعمران خان کی توشہ خانہ کیس میں بھی سماعت تھی، جج محمد بشیر عدالت پہنچ گئے، بشریٰ بی بی بھی عدالت میں موجود تھیں، جج نے دونوں کو روسٹرم پر طلب کیا اور انھیں 342 کا سوال نامہ تھما دیا، بشریٰ بی بی کے سوال نامے میں 25 جب کہ عمران خان کے 27 سوال تھے، جج نے دونوں کو جواب کے لیے 15 منٹ دیے لیکن دونوں نے وکلاء کے بغیر جواب لکھنے سے انکار کر دیا، وکیل شہباز کھوسہ نے وکالت کی درخواست دی لیکن جج نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کر دی "آپ لوگ کل اپنا حق جرح کھو چکے ہیں" پندرہ منٹ بعد مزید 15 منٹ دیے گئے۔

اس کے بعد مزید 15 منٹ، یہ وقت 6 بار دیا گیا لیکن بشریٰ بی بی اور عمران خان نے جواب تحریر نہ کیا، جج چھٹی بار عدالت میں آئے اور انھوں نے سختی سے کہا، آپ دونوں کو بہرحال جواب لکھنا پڑیں گے، آپ یہ کام جتنی آسانی سے کر لیں گے آپ کے لیے اتنا اچھا ہوگا ورنہ آپ اپنا یہ حق بھی کھو بیٹھیں گے، عمران خان اور بشریٰ بی بی نے شہباز کھوسہ کی طرف دیکھا، انھوں نے سر ہلا کر ہاں کر دی اور اس کے بعد دونوں نے جواب لکھنا شروع کر دیے۔

شہباز کھوسہ، علی ظفر، گوہر خان، سلیمان صفدر اور عمیر نیازی ان کی مدد کرنے لگے، بشریٰ بی بی کا جواب پہلے تیار ہوگیا، اسٹینو نے 342 کا بیان ٹائپ کیا، بشریٰ بی بی سے اس پر دستخط لیے اور اس کے ساتھ ہی جج صاحب اپنی کرسی سے اٹھ گئے، ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انھیں جیل کے اسپتال میں لے گیا، ان کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا، عمران خان کا بیان ابھی جمع نہیں ہوا تھا، خان صاحب اپنی کاپی اٹھا کر عدالت میں کھڑے تھے۔

اس دوران ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ واپس آیا اور اس نے اعلان کیا سماعت کل صبح نو بجے تک ملتوی ہوگئی ہے تاہم جج صاحب کا حکم ہے کل صبح نو بجے دونوں ملزم عدالت میں پیش ہوں گے اور خان صاحب کا 342 کا بیان مکمل ہوگا، 30 جنوری کو جیل میں لیڈی پولیس کی اضافی نفری موجود تھی، اس سے محسوس ہو رہا تھا توشہ خانہ کیس کا فیصلہ بھی آج ہی ہو جائے گا جس کے بعد بشریٰ بی بی کوگرفتار کر لیا جائے گا۔

گوہر خان کو اس صورت حال کا اندازہ تھا چناں چہ انھوں نے بشریٰ بی بی کو جیل سے باہر لے جانے کی کوشش کی مگر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آفتاب باجوہ نے انھیں روک دیا، ان کا کہنا تھا "بی بی جج صاحب کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتیں" اس جواب سے بھی صورت حال کا اندازہ ہوگیا، توشہ خانہ کیس کے دوران دو اور واقعات بھی پیش آئے، عمران خان نے اپنے وکلاء سے کہا "تحفے مجھے ملے تھے۔

ان میں بشریٰ بی بی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اگر جج بی بی کو چھوڑ دے تو میں اپنا جرم ماننے کے لیے تیار ہوں" لیکن وکلاء نے انھیں روک دیا، ان کا کہنا تھا جج اس کے باوجود بشریٰ بی بی کو بری نہیں کرے گا لہٰذا آپ کے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، دوسرا جب جج صاحب بیمار ہو گئے تو کمرہ عدالت میں موجود لوگ بشریٰ بی بی کی طرف دیکھنے لگے، انھیں بشریٰ بی بی کی روحانی طاقتوں کا یقین ہوگیا، عمران خان کی فیملی میں یہ بات دو ماہ سے گردش کر رہی تھی جج محمد بشیر فیصلے سے پہلے ہی مؤکلات کے اثرات کا شکار ہو جائیں گے۔

جج اس کیس کے دوران چھ مرتبہ بیمار ہوئے اور انھوں نے 20جنوری کو بیماری کی وجہ سے ریٹائرمنٹ تک چھٹی کی درخواست بھی دے دی تھی جس سے مؤکلات کا تاثر مزید گہرا ہوگیا، عدالتی حلقوں میں یہ افواہ بھی گردش کر رہی تھی جج محمد بشیر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا نہیں دینا چاہتے، یہ اس کیس سے بچنا اور نکلنا چاہتے ہیں، عین فیصلے کے وقت جج صاحب کی بیماری نے اس تاثر کو بھی گہرا کر دیا بہرحال قصہ مختصر 30 جنوری کو سماعت ملتوی ہوگئی، کل 31 جنوری کو کیس کی آخری سماعت تھی، جج محمد بشیر عملے سمیت 9 بجے عدالت پہنچ گئے لیکن بشریٰ بی بی اور عمران خان عدالت میں نہیں تھے، وکلاء بھی نہیں آئے تھے۔

جج صاحب نے عمران خان کو طلب کیا مگر خان نے سیل سے نکلنے سے انکار کر دیا، جج نے جیل کے عملے کو حکم دیا اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ عمران خان کو زبردستی لے کر عدالت میں پیش ہو گئے، جج نے پوچھا، آپ کا 342 کا جواب کہاں ہے؟ خان نے جواب دیا "وہ میرے سیل میں ہے۔

آپ مجھے موقع دیں میں لے آتا ہوں" جج نے اجازت دے دی، عمران خان گئے اور پھر سیل سے نکلنے سے انکار کر دیا، جج نے انھیں بلایا، جیل کے عملے نے بھی کوشش کی مگر وہ نہیں آئے جس کے بعد عدالتی اہلکار نے کوریڈور میں طلبی کی آواز لگائی اور اس کے بعد جج محمد بشیر نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنا دی اور یوں دو مقدموں کی کارروائی مکمل ہوگئی۔

عمران خان کو سزا ہونی تھی اور یہ ہوگئی لیکن اس سزا نے یہ ثابت کر دیا ملک میں ہر الیکشن سے قبل کسی نہ کسی سویلین وزیراعظم کو سزا ضرور ہوگی، کوئی نہ کوئی نظام کے گھاٹ پر ضرور چڑھے گا، یہ سلسلہ 1958 میں حسین شہید سہروردی سے شروع ہوا تھا اور آج تک جاری ہے، 2018 میں نواز شریف اپنی صاحب زادی کے ساتھ جیل میں تھے اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھے تھے۔

2024 میں عمران خان بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں ہیں اور نواز شریف "ون پیج" سے لطف اٹھا رہے ہیں، اب ایشو یہ ہے 2024 کے بعد 2028 بھی آئے گا اور اس وقت بھی اڈیالہ جیل، جج ابوالحسنات ذوالقرنین اور جج قدرت اللہ موجود ہوں گے لیکن سوال یہ ہے اس وقت جیل میں کون ہوگا؟ اس سوال میں ملک کا مقدر چھپا ہے اور میرا خیال ہے اس بار اس مجرم کا فیصلہ آصف علی زرداری، نواز شریف اور عمران خان تینوں مل کر کریں گے اور ان تینوں کو ایک وکیل اکٹھا بٹھائے گا اور وہ وکیل کون ہے آپ ذرا ذہن پر زور دے کر سوچیں، آپ کو 2028کا سیناریو سمجھ آ جائے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.