Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ye Faisla Abhi Baqi Hai

Ye Faisla Abhi Baqi Hai

یہ کہانی 2010ء میں شروع ہوتی ہے، کراچی کے شہری محسن علی سید نے لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز میں داخلہ لیا، کراچی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے محسن کو ویزے کے لیے سپانسر کیا، محسن علی سید 2010ء کے شروع میں لندن چلا گیا، کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ محسن علی سید کی پراگریس سے مطمئن تھے، یہ ستمبر کی 16 تاریخ تک لندن میں رہا پھر یہ اچانک غائب ہو گیا، یہ کہاں چلا گیا؟

یہ معمہ بعد ازاں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے حل کیا، اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ریکارڈ کے مطابق 16 ستمبر 2010ء کو ایم کیو ایم کے بانی کارکن اور لیڈر ڈاکٹر عمران فاروق کو ان کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا، ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے دن ساڑھے پانچ بجے شام گھر واپس آ رہے تھے، یہ لندن میں مل ہل کے علاقے میں رہتے تھے، مل ہل یہودیوں کا علاقہ ہے تاہم کونسل نے اس علاقے میں سیاسی پناہ گزینوں کے لیے بھی ایک کمپاؤنڈ بنا رکھا ہے، اس کمپاؤنڈ میں چار پانچ بلاک ہیں، ہر بلاک میں دو اور تین فلیٹس ہیں، ڈاکٹر عمران فاروق اس کمپاؤنڈ کے پہلے بلاک میں رہتے تھے، ان کا گھر بالائی منزل پر تھا، یہ مین سڑک سے کمپاؤنڈ میں آتے تھے، بلاک کے پیچھے جاتے تھے اور سیڑھیاں چڑھ کر گھر میں داخل ہو جاتے تھے۔

16 ستمبر2010ء کو قاتل ڈاکٹر عمران فاروق کے آنے سے پہلے سیڑھیوں کے نیچے چھپ کر بیٹھ گئے، ڈاکٹر صاحب جوں ہی سیڑھیوں کے قریب پہنچے، قاتلوں نے چھریوں اور اینٹوں سے ان پر حملہ کر دیا، قاتل دس منٹ میں ڈاکٹر صاحب کو قتل کر کے وہاں سے بھاگ گئے، یہ لوگ وہاں سے کسی خفیہ مقام پر پہنچے، اپنے خون آلود کپڑے تبدیل کیے، یہ ہیتھرو ائیر پورٹ آئے اور یہ لندن سے سری لنکا چلے گئے، ڈاکٹر عمران فاروق کے کمپاؤنڈ میں موجود ایک گھر کی کھڑکی سے ایک خاتون قتل کا منظر دیکھ رہی تھی، اس نے میٹرو پولیٹن پولیس کو فون کر دیا، خاتون نے پولیس کو بتایا قاتل دو تھے، خاتون نے قاتلوں کے حلیے بھی بتادیے۔

پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کی آمد و رفت کی چھ ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی، فوٹیج کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا چھ ماہ میں کئی بار ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر صاحب کا پیچھا کرتا نظر آیا، یہ ڈاکٹرصاحب کے پیچھے ان کے گھر تک آتا تھا، اس نوجوان کا حلیہ قاتل کے حلیے سے میچ کر گیا، پولیس نے نوجوان کی تصویر ریکارڈ میں موجود تصویروں سے میچ کی تو معلوم ہوا نوجوان کا نام محسن علی سید ہے، یہ اسٹوڈنٹ ویزے پر لندن آیا اور یہ لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز کا طالب علم ہے، پولیس کالج پہنچ گئی، کالج کے ریکارڈ کی پڑتال ہوئی تو پولیس دوسرے قاتل تک بھی پہنچ گئی۔

دوسرے قاتل کا نام کاشف خان کامران یا کامران خان کاشف تھا، یہ یکم ستمبر 2010ء کو کالج پہنچا تھا، اس کا سپانسر بھی معظم علی خان تھا اور یہ بھی کراچی کا رہنے والاتھا، اس کی عمر 34 سال تھی اوریہ بھی محسن علی سید کے ساتھ غائب ہوا، فلائیٹس اور امیگریشن کا ریکارڈ نکالا گیا، پتہ چلا یہ دونوں واردات کے بعد سری لنکا روانہ ہو گئے اور ان کی اگلی منزل کراچی ہے، برطانوی حکومت نے پاکستانی حکومت کو دونوں کی تصاویر اور کراچی آمد کی اطلاع دے دی۔

یہ کیس بعد ازاں اسکاٹ لینڈ یارڈ کو ہینڈ اوور کر دیا گیا، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے دونوں قاتلوں کے موبائل فونز کا ڈیٹا نکالا تو یہ دونوں ایک تیسرے پاکستانی شہری افتخار حسین سے رابطے میں پائے گئے، قتل سے پہلے اور قتل کے بعد تینوں کی لوکیشن بھی ایک آ رہی تھی، پولیس نے افتخار حسین کے خلاف تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا یہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے رشتے دار ہیں۔

پولیس نے تفتیش کے دوران افتخار حسین کے گھر کی تلاشی لی، گھر سے غیر قانونی رقم نکل آئی، افتخار حسین اس رقم کے بارے میں پولیس کو مطمئن نہیں کر سکے یوں ان کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا، لندن میں منی لانڈرنگ کا کیس اسکاٹ لینڈ یارڈ کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ہینڈل کرتا ہے، رقم کی برآمدگی کے بعدیہ ڈیپارٹمنٹ متحرک ہوگیا، ڈیپارٹمنٹ نے6 دسمبر 2012ء کوایم کیوایم کے دفتر اور 18 جون 2013ء کو الطاف حسین کی رہائش گاہ کی تلاشی لی، دفتر اور گھر دونوں جگہوں سے لاکھوں پاؤنڈ نکل آئے، ہم اگر الطاف حسین کے گھر، دفتر اور افتخار حسین کے گھر سے نکلنے والی دولت جمع کریں تو یہ پونے سات لاکھ پاؤنڈ بنتے ہیں، برطانوی قانون کے مطابق یہ رقم غیر قانونی تھی، پولیس نے الطاف حسین کے خلاف تفتیش شروع کر دی۔

لندن میں موجود ایم کیو ایم کے کارکنوں اور دفتر میں کام کرنے والے کارندوں کے انٹرویو شروع ہوگئے، اس سے قبل محسن علی سید اور کاشف خان کامران کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار ہو چکے تھے، پاکستان کے خفیہ اداروں نے کراچی ائیر پورٹ کے احاطے سے خالدشمیم نام کا ایک ٹارگٹ کلر بھی گرفتار کیا تھا۔ اس شخص نے انکشاف کیا "میں نے محسن علی سید اور کاشف خان کامران کو ائیر پورٹ سے نکلنے کے بعد قتل کرنا تھا"۔ یہ پاکستان پیپلزپارٹی کا دور تھا، رحمن ملک وزیر داخلہ تھے، یہ تینوں لوگ وزارت داخلہ کے ماتحت اداروں کی حراست میں تھے، اسکاٹ لینڈ یارڈ اڑھائی برس تک دونوں ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کرتی رہی لیکن رحمن ملک انھیں ٹالتے رہے۔

مئی 2013ء میں میاں نواز شریف کی حکومت بنی تو یہ دونوں ممکنہ قاتل نئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو "ہینڈ اوور، ہو گئے۔ یہ ملزم پاکستان کے خفیہ اداروں کی حراست میں تھے لیکن قانوناً ان کی حوالگی کا فیصلہ وزارت داخلہ نے کرنا تھا، ایم کیوایم کے ہیڈ کوارٹر اور الطاف حسین کی رہائش گاہ پر ریڈ کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے ملزمان کی حوالگی کی باربار درخواست آ نے لگی، مارچ2014ء میں برطانیہ میں موجود ایک ذریعے نے میرے سامنے اعتراف کیا " چوہدری نثار علی نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو ان لوگوں تک رسائی دے دی۔

برطانیہ سے چند اعلیٰ تفتیشی عہدیدار پاکستان آئے اور ان دونوں ملزموں کا انٹرویو لے کر واپس چلے گئے"میں نے ان سے پوچھا "پاکستانی حکومت ان دونوں کو برطانیہ کے حوالے کیوں نہیں کرتی"ان کا جواب تھا " پاکستانی حکومت کو ابھی تک یقین نہیں یہ ملزمان الطاف حسین کی سزا کا ذریعہ بن جائیں گے، حکومت کو خدشہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو یہ دونوں بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں اور عمران فاروق کے قاتل بھی بچ جائیں چنانچہ حکومت اس دن تک ان لوگوں کو اپنی دسترس میں رکھے گی جب تک اسے الطاف حسین کی گرفتاری اور سزا کا یقین نہیں ہو جاتا"۔

لندن میں اس دوران ایک تیسری کارروائی بھی شروع ہوئی، مئی 2013ء میں الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے تین تلوار پر دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا، الطاف حسین نے اس دن اپنے کارکنوں سے خطاب کیا، وہ تقریر قابل اعتراض تھی، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس تقریر کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ میں درخواست دائر کر دی، اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ہیڈ کوارٹر میں نفرت انگیز تقریروں کے خلاف پانچ ہزار شکایات درج ہوئیں اور ان پر بھی کارروائی شروع ہو گئی یوں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تین جون 2014ء کی صبح الطاف حسین کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا، یہ علیل تھے، پولیس نے انھیں اسپتال میں داخل کرا دیا تاہم یہ پولیس کی حراست میں رہے، الطاف حسین کی گرفتاری نے کراچی اور حیدر آباد کی سماجی اور سیاسی زندگی میں بھونچال پیدا کر دیا۔

لندن میں الطاف حسین کے وکلاء مضبوط تھے چنانچہ 6 جون 2014ء کو الطاف حسین کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، یہ آج تک ضمانت پر ہیں لیکن یہ اپریل میں دوبارہ عدالت کے سامنے پیش ہوں گے، پاکستان میں نومبر اور دسمبر 2014ء بہت اہم تھا، ملک میں جون 2014ء میں دہشتگردی کے خلاف ضرب عضب شروع ہوئی، پشاور میں 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے ہوا، اکیسویں ترمیم پاس ہوئی، 21 ویں ترمیم کے دوران ایم کیو ایم نے حکومت سے دو شرائط منوائیں، صولت مرزا کو ممکنہ طور پر جنوری 2015ء کو پھانسی ہونی تھی، حکومت نے یہ سزا معطل کر دی اور دوسرا سیاسی مجرموں کو ملٹری عدالتوں سے استثنیٰ دے دیا گیا، ایم کیو ایم جس وقت یہ شرائط منوا رہی تھی ملک کی مقتدر طاقتوں نے اسی وقت صولت مرزا کو پھانسی دینے اور ایم کیو ایم کے مقدمے ملٹری عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کرلیا۔

ہم آج تازہ ترین صورتحال کی طرف آتے ہیں، حکومت نے محسن علی سید اور کاشف علی کامران کو برطانیہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا، ان دونوں کے اعترافی بیان کی ٹیپ بھی تیار ہے اور یہ ٹیپ بھی عنقریب باہر آ جائے گی، صولت مرزا کا بیان بھی خوفناک ہے لہٰذا صولت مرزا کے اعترافات اور محسن علی سید اور کاشف علی کامران کی حوالگی کراچی کی پوری سیاست بدل دے گی، فیصلہ ہو چکا ہے لیکن یہ فیصلہ جو رنگ دکھائے گا اس کے نتائج کون بھگتے گا، یہ فیصلہ ابھی باقی ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.