ہم دنیا کے ان چند زندہ لوگوں کی فہرست بنائیں جن سے پورا عالم اسلام نفرت کرتا ہے تو سلمان رشدی اس فہرست کے ابتدائی ناموں میں آئے گا، یہ انتہائی متنازعہ اور نامعقول کردار ہے، یہ19 جون 1947ء کوبھارت کے شہر ممبئی میں پیدا ہوا، کیمبرج سے تعلیم حاصل کی اور 1975ء میں لکھنا شروع کیا، یہ اب تک 32 کتابیں لکھ چکا ہے، سلمان رشدی اور اس کی کتابیں لوگوں میں مقبول تھیں لیکن پھر اس نے 1988ء میں The Satanic Verses کے نام سے ایک واہیات ناول لکھ دیا، اس ناول کے چند توہین آمیز فقروں نے پورے عالم اسلام میں آگ لگا دی۔
اسلامی ممالک میں مظاہرے شروع ہوگئے اور عالم اسلام کی مختلف اسلامی تنظیموں اور شخصیات نے سلمان رشدی کے خلاف قتل کے فتوے جاری کر دیے، ایران نے 1989ء میں اس کے سر کی قیمت طے کر دی، سلمان رشدی اس وقت برطانیہ میں مقیم تھا، برطانیہ نے فوری طور پر اس کی سیکیورٹی کا بندوبست کر دیا، یہ جنوری 1999ء میں وہاں سے فرانس آیا اور 2000ء میں امریکا منتقل ہو گیا، یہ اس وقت امریکا کے شہر نیویارک کے علاقے یونین اسکوائر میں رہائش پذیر ہے، یہاں اسے سربراہ مملکت کے برابر سیکیورٹی حاصل ہے، یہ بلٹ اور بم پروف گھر میں رہتا ہے، یہ میزائل پروف گاڑی میں سفر کرتا ہے، یہ چارٹر جہازوں میں بیرون ملک جاتا ہے۔
پولیس اسے اپنی نگرانی میں گھر سے باہر اور گھر میں واپس لاتی ہے، اس کے گھر کے اردگرد ہر وقت پولیس کا پہرہ رہتا ہے، سلمان رشدی کو ایک خصوصی ریموٹ کنٹرول بھی دیا گیا ہے، یہ "کی چین" کی طرح کا چھوٹا سا ریموٹ کنٹرول ہے، یہ ریموٹ کنٹرول ہر وقت اس کے ہاتھ میں رہتاہے، یہ کسی بھی ہنگامی حالت میں ریموٹ کنٹرول کابٹن دبا دیتا ہے، پولیس اور فوج تین منٹ میں اس تک پہنچ جاتی ہے، اس کے گھر کے اندر ایک خصوصی کمرہ بھی ہے، یہ کمرہ بم پروف ہے، یہ معمولی سے کھٹکے کے بعد اس روم میں پناہ گزین ہو جاتا ہے، یہ اس روم میں 45 روز تک رہ سکتا ہے کیونکہ اس کمرے میں 45 دن تک کے لیے ساری ضروریات موجود ہیں، یہ تمام انتظامات امریکی حکومت نے کر رکھے ہیں، حکومت ان انتظامات پر ہر سال لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔
آپ یہ ذہن میں رکھئے شاتم رسول سلمان رشدی مسلمان ہے (یا تھا) اس کے خلاف فتوے بھی مسلمانوں نے جاری کر رکھے ہیں، یہ اگر شدت پسند مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو مغربی ممالک اس کی موت کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، مسلمانوں کو مزید دہشت گرد ثابت کر سکتے ہیں لیکن یہ لوگ یہ آپشن اختیار کرنے کے بجائے سلمان رشدی کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس حفاظت پر ان کے لاکھوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں، کیوں؟ آپ کا جواب یقینا یہ ہو گا امریکی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں، سلمان رشدی شاتم رسول ہے اور امریکا نے مسلمانوں کی دشمنی میں اسے پناہ دے رکھی ہے۔
یہ لوگ اس سے The Satanic Verses جیسی مزید کتابیں لکھوانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، میں بھی یہی سمجھتا تھا لیکن پھر مجھے امریکا میں ایک ٹی وی بحث دیکھنے کا اتفاق ہوا، ٹیلی ویژن کی بحث میں سی آئی اے، نیویارک پولیس اور وزارت خزانہ کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے، حکومت کے غیر ضروری اخراجات پر بات ہو رہی تھی، میزبان نے گفتگو کے دوران سلمان رشدی کا ایشو اٹھایا اور مہمانوں سے پوچھا " ہم اس شخص پر ہر سال لاکھوں ڈالر کیوں ضایع کر رہے ہیں، آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں " تینوں مہمان بیک وقت بولے " سلمان رشدی کی حفاظت امریکا کی سلامتی کے لیے ضروری ہے"۔
میزبان نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، سی آئی اے کے اہلکار نے جواب دیا، سلمان رشدی کی حفاظت کی دو وجوہات ہیں، اول "ہمارے ملک میں بے شمار لوگ، بے شمار لوگوں سے نفرت کرتے ہیں، یہ ان لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ جب ہمیں سلمان رشدی کی حفاظت کرتے دیکھتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں، ہماری ریاست جب ایک مسلمان (نام نہاد)کی اتنی حفاظت کر رہی ہے تو یہ ہم شہریوں کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہو گی چنانچہ یہ اپنا منصوبہ ترک کر دیتے ہیں، دوم، دنیا کے بے شمار ممالک کے لوگ اور ادارے ہمارے ملک کی بے شمار اہم شخصیات کو قتل کرنا چاہتے ہیں، یہ ادارے اور یہ لوگ جب ہمیں سلمان رشدی کی حفاظت کرتے دیکھتے ہیں تو یہ ہماری سرحدوں کے اندر داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتے"۔
میزبان حیرت سے مہمان کو دیکھتا رہا، پولیس کا اعلیٰ عہدیدار بولا " ہم نے اگر سلمان رشدی کی سیکیورٹی واپس لے لی اوریہ ہمارے ملک میں مارا گیا تو لوگوں کے دلوں میں موجود قانون کا خوف ختم ہو جائے گا، ان کی نفرت دلوں سے نکل کر گلیوں میں آ جائے گی، لوگ یہ جان لیں گے ہمارے ملک میں لوگوں کو مارا جا سکتا ہے، لوگ پھر ہر اس شخص کو مار دیں گے جس سے یہ نفرت کرتے ہیں، دوسرا سلمان رشدی کے قتل سے دنیا کو بھی یہ پیغام جائے گا، امریکا کمزور ملک ہے، آپ امریکا میں گھس کربھی کسی کو مار سکتے ہیں اور یوں ہمارا ملک مقتولوں کا معاشرہ بن جائے گا، ہم لوگ یہ خطیر رقم لوگوں کی نفرت کو دماغوں تک محدود رکھنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں "۔
یہ میرے لیے ایک نیا نکتہ تھا، ہم لوگ اکثر اوقات اس نوعیت کے نکات فراموش کر بیٹھتے ہیں، ہم نہیں جانتے، عوامی نفرت نظام کے لیے سونامی ہوتی ہے، ریاست جب نفرت کو ذہنوں تک محدود رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر گلو بٹ جیسے لوگ سامنے آ جاتے ہیں، گلو بٹ یقیناً کسی نہ کسی کا کارندہ ہو گا، یہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن بھی ہو سکتا ہے، یہ پولیس ٹائوٹ بھی ہو سکتا ہے اور یہ لاہور انتظامیہ کا اپنا بندہ بھی ہو سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کیا کوئی اپنا بندہ، کوئی ٹائوٹ، کوئی کارکن اور کوئی کارندہ اس خوفناک طریقے سے لوگوں کی گاڑیاں توڑ سکتا ہے، آپ کسی کو کتنے بھی پیسے دے دیں وہ گلو بٹ کی طرح دوسروں کی گاڑیاں نہیں توڑے گا، لوگ گاڑیوں پر حملے کرتے ہیں، شیشے بھی توڑتے ہیں اور لائٹس بھی کرچی کرچی کر تے ہیں لیکن وہ لوگ گاڑی پر ایک آدھ پتھر یا ڈنڈا مار کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
دنیا کا کوئی شخص اس طرح ڈنڈا اٹھا کر گاڑیاں نہیں توڑتا جس طرح گلوبٹ نے 17 جون کو ادارہ منہاج القرآن کے سامنے گاڑیاں توڑی تھیں، گلو بٹ سرمستی کے عالم میں گاڑیوں پر ڈنڈے برسا رہا تھا، وہ گاڑیاں توڑ کر فاتحانہ انداز سے رقص بھی کرتا رہا یہ رویہ نارمل نہیں، یہ رویہ دیہاڑی پربھی نہیں خریدا جا سکتا، یہ ادھار بھی نہیں لیا جا سکتا اور کسی شخص کو صرف "موٹی ویٹ" کر کے اس سے یہ کام بھی نہیں لیا جا سکتا، یہ نفرت تھی، یہ گلو بٹ کی نظام، حکمرانوں، اشرافیہ اور گاڑیوں کے خلاف وہ نفرت تھی جو قطرہ قطرہ بن کر اس کے جسم میں جمع ہوتی رہی۔
یہ وہ نفرت تھی جو بیمار معاشروں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہے اور جب انسان کو اس نفرت کو اگلنے کا موقع ملتا ہے تو یہ ایک ڈنڈے سے تیس تیس گاڑیاں توڑ دیتا ہے، فرانس میں جب انقلاب آیا تو پیرس کے بپھرے ہوئے لوگ چند منٹوں میں 25 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے وارسائی میں بادشاہ کے محل تک پہنچ گئے، بادشاہ نے حیران ہو کر وزیر سے پوچھا " یہ لوگ اتنی جلدی کیسے پہنچ گئے"، وزیر نے جواب دیا "بادشاہ سلامت یہ نفرت کے گھوڑے پر سوار تھے، ان کے پیروں میں نفرت کی آگ لگی تھی" نفرت کی آگ اور نفرت کے گھوڑے بہت تیز ہوتے ہیں۔
یہ چند لمحوں میں ہزاروں لاکھوں میل کا سفر طے کر جاتے ہیں، یہ عام لوگوں کو گلو بٹ بنا دیتے ہیں، آپ گلو بٹ کی فوٹیج کو بار بار دیکھیں، آپ کو اس ملک کے ہر غریب شہری کے اندر ایک کھولتا ہوا گلو بٹ ملے گا، یہ گلو بٹ بھی لاہور کے گلو بٹ کی طرح اس ملک میں تعیش کی ہر چیز کو نابود کر دینا چاہتے ہیں، بس یہ اپنے اپنے حصے کے 17 جون کا انتظار کر رہے ہیں، یہ جس دن اپنے حصے کے 17 جون تک پہنچ جائیں گے یہ بھی گلو بٹ ثابت ہوں گے۔
یہ عوامی نفرت کا ایک پہلو تھا، آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے، پولیس گلو بٹ کو ریمانڈ کے لیے ماڈل ٹائون کچہری میں لے کر گئی، عدالت میں موجود وکلاء اور عام لوگوں نے گلو بٹ کو دیکھا تو انھوں نے اسے پولیس کی حراست میں مارنا شروع کر دیا، گلو بٹ کو اتنے تھپڑ، ٹھڈے اور مکے لگے کہ وہ فرش پر گر کر بے ہوش گیا، پولیس نے اسے گھسیٹ کر رکشے میں ڈالا اور اسپتال لے گئی، یہ نفرت کا دوسرا اظہار تھا یعنی عوام اور وکلاء نے عدالت کے احاطے میں پولیس کی موجودگی میں گلو بٹ کو پھینٹی لگا دی اور عوام کو پولیس روک سکی، عدالت کا احترام اور نہ ہی قانون کا ڈر۔ یہ مثال کیا ثابت کرتی ہے؟
یہ مثال ثابت کرتی ہے، ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے عوامی انصاف کی طرف بڑھ رہا ہے اور دنیا کے جس ملک میں بھی، جس دور میں بھی عوامی انصاف کا سلسلہ شروع ہوا وہ ملک خانہ جنگی کا شکار بھی ہوا اور وہ ملک تباہ بھی ہو گیا، عوامی نفرت بوتل کے جن کی طرح ہوتی ہے، یہ اگر ایک بار کارک توڑ کر باہر نکل آئے تو پھر اسے بوتل میں دوبارہ بند نہیں کیا جا سکتا اور ہماری سماجی بوتل کا کارک تقریباً نکل چکا ہے، ہم میں سے آدھے گلوبٹ ہیں اور آدھے ماڈل ٹائون کچہری کے وہ وکیل جو احاطہ عدالت میں مکوں، ٹھڈوں ور تھپڑوں سے انصاف شروع کر دیتے ہیں، ملک کی جب یہ حالت ہو گی تو پھر اندر سے طالبان آئیں گے اور باہر سے ریمنڈ ڈیوس اور ہم کسی کو روک نہیں سکیں گے، اندر والوں کو اور نہ ہی باہر والوں کو اور ہم آج اس عمل سے گزر رہے ہیں۔