Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ye Jab Tak Baghawat Nahi Kar Dete

Ye Jab Tak Baghawat Nahi Kar Dete

ہماری زندگی کے بعض واقعات آکٹوپس کی طرح ہمارے دماغ میں پنجے گاڑھ لیتے ہیں ا ور ہم پوری کوشش کے باوجود ان واقعات سے جان نہیں چھڑا پاتے، آپ کی زندگی میں بھی ایسے واقعات ہوں گے جنہوں نے آپ کی نفسیات پر دیرپا اثرات چھوڑے اور اگر آپ کی ذات کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو آج آپ جو کچھ ہیں اس کی بڑی وجہ وہ واقعات ہیں، ہماری زندگی کے زیادہ تر رویے ان واقعات پر "بیس" کرتے ہیں، ہم کس طرح سوچتے ہیں اور کس طرح "بی ہیو" کرتے ہیں، اس کی بنیاد چند واقعات ہوتے ہیں، میری زندگی میں بھی ایسے چند واقعات ہیں جنہوں نے آگے چل کر میرے رویئے، میرے ردعمل اور میرے " بی ہیویئر" طے کر دیے، ان واقعات میں بہاولپور کا ایک واقعہ بھی شامل ہے، میں نے صحافت میں ایم اے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے کیا تھا، میں ایک روز بازار سے گزر رہا تھا، بازار میں مجمع لگا تھا، سیکڑوں لوگ دائرہ بنا کر کھڑے تھے، میں تجسس کی وجہ سے دائرے میں داخل ہوگیا، دائرے کے درمیان لڑائی ہو رہی تھی، دو نوجوانوں کو چار پانچ لوگ پیٹ رہے تھے اور ڈیڑھ سو لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔

میں بھی تماشائیوں میں شامل ہو گیا، میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو انسان کی نفسیات بھی بتاتا چلوں، ہم میں سے نوے فیصد لوگ ان لوگوں جیسے بن جاتے ہیں جن میں یہ رہتے ہیں، آپ آج عبادت گزاروں میں بیٹھنا شروع کر دیں آپ 45 دن بعد ان جیسا ہو جائیں گے، آپ جواریوں، شرابیوں، چوروں اور فراڈیوں میں بیٹھ جائیں آپ کو پکا فراڈیا، چور، شرابی یا جواری بننے میں صرف 45 دن لگیں گے، آپ اگر کوئی حرکت 45 دن تک مسلسل دیکھیں تو آپ کا زاویہ نظر بدل جاتا ہے اور آپ نئے اسٹائل میں چلے جاتے ہیں، ہم کیونکہ تماشہ دیکھنے والی قوم ہیں چنانچہ ہمارے معاشرے کا ہر شخص ہر قسم کے تماشے کا حصہ بن جاتا ہے اور میں بھی اس دن اس تماشے میں شامل ہوگیا، ہمارے دیکھتے ہی پولیس آ گئی، پولیس نے لڑنے والوں کو پکڑا اور سڑک پر ہی انصاف شروع کر دیا، لڑکوں کو مجمعے کے سامنے بٹھایا گیا، مار کھانے والوں سے لڑائی کی وجہ پوچھی گئی، انھوں نے بتایا یہ لڑکے بار بار ہمارے محلے کا چکر لگاتے تھے، ہم نے منع کیا تو لڑائی ہو گئی، ہم آج یہاں سے گزر رہے تھے تو انھوں نے ہمیں مارنا شروع کر دیا۔

پولیس نے دوسرے فریق سے لڑائی کی وجہ پوچھی، انھوں نے بتایا، ہم ان کے محلے سے گزر کر کالج جاتے ہیں، انھوں نے ہمیں گلی میں روک کر مارا تھا اور آج ہم نے ان سے انتقام لے لیا، مارنے والی ٹیم میں ایک اجنبی نوجوان بھی شامل تھا، وہ چپ چاپ ایک سائیڈ پر بیٹھا تھا، پولیس نے مارنے والی دونوں ٹیموں سے پوچھا " یہ کس کے ساتھ ہے؟ " دونوں نے اس کی طرف دیکھا اور انکار میں سر ہلا دیا، پولیس کے ساتھ ساتھ مجمع بھی حیران رہ گیا کیونکہ ایک نوجوان پچھلے بیس منٹوں سے لڑائی میں شامل تھا، یہ مار کھانے والی پارٹی کو مسلسل مار رہا تھا مگر اس کا دونوں فریقوں میں سے کسی کے ساتھ تعلق نہیں تھا، پولیس نے اس سے پوچھا " تم کون ہو" اس نے اطمینان سے جواب دیا " میں یہاں سے گزر رہا تھا، میں نے دیکھا یہ پانچ لڑکے ان دو لڑکوں کو مار رہے ہیں، میں نے سوچا جب ان دونوں کو مار پڑ رہی ہے تو میں بھی دو تین ہاتھ سیدھے کر لیتا ہوں چنانچہ میں نے بھی انھیں مارنا شروع کر دیا" یہ جواب سن کر پولیس، مجمعے اور لڑائی گروپ تینوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔

یہ واقعہ ہمارے معاشرے کا مکمل نفسیاتی عکس ہے، ہم ایک تماش بین قوم ہیں، ہم لڑائی مار کٹائی کو بھی تماشے کی طرح دیکھتے ہیں، دو، ہمارے ملک میں اگر کسی کو مار پڑ رہی ہو تو بے شمار لوگ صرف ہاتھ سیدھا کرنے کے لیے اس جنگ میں کود پڑتے ہیں اور یہ بھی مار کھانے والے کو مارنا شروع کر دیتے ہیں اور تین ہمیں جس بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ہم اس پر ہنس پڑتے ہیں، میں شروع شروع میں اس تجزیے کو خام سمجھتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محسوس ہوا یہ ہماری قومی عادت ہے، میں آج پورے یقین سے کہتا ہوں یہ تین نتائج ہماری قومی پالیسی ہیں، ہمارا معاشرہ ہو، حکومت ہو یا ریاست ہو ہم تماش بین بھی ہیں، مارے کو مزید مارنے کے لیے تیار بھی رہتے ہیں اور ہمیں ظلم اور زیادتی کی جن وارداتوں پر سنجیدہ ہونا چاہیے، ہم انھیں ہنسی مذاق میں بھی اڑا دیتے ہیں، آپ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے، حکومت نے تین ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں 30فیصد جب کہ پٹرولیم مصنوعات میں 14 فیصد اضافہ کر دیا، حکومت کا موقف اس معاملے میں بہت دلچسپ ہے۔

واپڈا کے مطابق بجلی کا 22 فیصد حصہ لائین لاسز اور چوری میں ضایع ہو جاتا ہے گویا ہماری سولہ ہزار میگاواٹ میں سے ساڑھے تین ہزار میگاواٹ بجلی راستے ہی میں غائب ہو جاتی ہے، صوبہ خیبر پختونخواہ بجلی چوری کا سب سے بڑا مرکز ہے، صوبے کے 121 فیڈرز پر بل کولیکشن سات سے بیس فیصد ہے یعنی ان 121 فیڈرز سے بجلی سو فیصد حاصل کی جاتی ہے مگر 93 سے 80 فیصد لوگ بل نہیں دیتے، فاٹا میں بل کولیکشن صفر ہے، کرک میں ایک علاقے کے سو فیصد لوگ بل نہیں دیتے، حکومت بل لینے کی کوشش کرے تو مقامی لوگ واپڈا کے اہلکاروں کی پھینٹی لگا دیتے ہیں اور اغواء کرنا پڑے تو انھیں اغواء بھی کر لیتے ہیں، گومل زام ڈیم سے واپڈا کے آٹھ اہلکار اغواء کر لیے گئے، حکومت نے انھیں دو سال بعد تین کروڑ روپے تاوان دے کر چھڑوایا، اس واقعے کے بعد واپڈا کا کون سا اہلکار بل وصول کرے گا یا بجلی کاٹے گا، واپڈا ان اسی فیصد نادہندگان کا بوجھ بل دینے والے بیس فیصد صارفین پر شفٹ کر دیتا ہے، کراچی شہر میں 6 لاکھ کنڈے ہیں، ان کنڈوں کے ذریعے روز بجلی چوری ہوتی ہے۔

پاور پلانٹس حکومت سے سستا فرنس آئل لیتے ہیں، مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں اور یوں جتنا فرنس آئل لیا جاتا ہے بجلی اس کے مقابلے میں کم بنتی ہے، حیدرآباد کے ایک انجینئر بچل داس نے میٹر کنٹرول کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا، یہ واپڈا کے ملازمین کے ساتھ مل کر صارف کے میٹر میں ایک چپ لگا دیتا ہے اور صارف ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اپنا میٹر کنٹرول کرتا ہے، یہ جب چاہتا ہے میٹر بند کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے آہستہ کر لیتا ہے، ملک میں اس وقت ایسے ہزاروں میٹر موجود ہیں، واپڈا اس چوری سے واقف ہے مگر اس میں چوری کو روکنے کی اہلیت نہیں، واپڈا کے اہلکار میٹر کا خفیہ کوڈ بھی دے دیتے ہیں اور صارفین اپنے لیب ٹاپ کے ذریعے بھی اپنا میٹر کنٹرول کر لیتے ہیں۔

میٹر کو موبائل سے کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوجی بھی آ چکی ہے، واپڈا کے پاس اس کا بھی کوئی توڑ موجود نہیں چنانچہ واپڈا کے ان بے بس صارفین پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے جو وقت پر بل ادا کر رہے ہیں یا جو حکومت کا ہر ظلم چپ چاپ سہہ جاتے ہیں، پانی اور بجلی کی وزارت کا اصل کام لائین لاسز اور چوری روکنا تھا، اس کی اصل ذمے داری قوم کو سستی بجلی بھی فراہم کرنا تھی، یہ ڈیم بناتی، متبادل انرجی کے سستے ذریعے تلاش کرتی اور ڈیزل اور فرنس آئل پر انحصار کم کرتی مگر یہ 22 فیصد لاسز اور چوری روک رہی ہے اورنہ ہی بجلی کے متبادل اور سستے ذرایع پیدا کر رہی ہے، قوم دس سال سے وزارت کے اعلیٰ عہدیداروں کے منہ سے سن رہی ہے ہم فلاں ڈیم بنا رہے ہیں، ہمیں وہاں سے تین روپے یونٹ بجلی مل جائے گی اور یہ مسئلہ فلاں تاریخ کو حل ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ مگر عملی طور پر کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آ رہی اور پانی اور بجلی کی وزارت اور اس کے ذیلی ادارے مار کھانے والوں کو مزید جوتے اور تھپڑ مار رہے ہیں۔

یہ درست ہے حکومت بارہ روپے یونٹ بجلی بنا رہی ہے اور یہ اسے آٹھ سے دس روپے میں فروخت نہیں کر سکتی مگر کیا واپڈا کاروباری ادارہ ہے؟ اور کیا یہ ادارہ اور یہ وزارت اس لیے بنائی گئی تھی کہ یہ قوم کے ساتھ تجارت کرے، یہ بجلی خریدے اور اپنا منافع لے کر آگے بیچ دے، اگر اس کا یہ کام تھا تو پھر یہ کامیاب ہو چکا ہے اور اگر واپڈا اور اس کے سولہ ہزار ملازمین نے قوم کو سستی بجلی فراہم کرنی تھی، اس نے بجلی کی چوری اور لاسز روکنا تھے اور اس نے مہنگائی کے ہاتھوں پٹتے عوام کو بچانا تھا تو پھر یہ وزارت اور اس کے ادارے ناکام ہو چکے ہیں مگر افسوس حکومت ان اداروں کے احتساب کے بجائے اس عوام کو پھینٹا لگا رہی ہے جو دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، جو بے روزگاری کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں، جو مہنگائی کی وجہ سے بچے اور گردے بیچ رہے ہیں، جو ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں تو انھیں موٹرسائیکل یا سوزوکی کار بیچنا پڑ جاتی ہے اور جو مقدمے میں الجھتے ہیں تو زندگی عدالتوں کے دھکے کھاتے کھاتے گھس جاتی ہے اور جنھیں اب مسجد میں پناہ ملتی ہے اور نہ ہی چرچ میں، ہمارے ملک کا عجیب دستور ہے۔

ہم میں سے جو شخص ریاست کو تسلیم کرتا ہے، جو اپنے بل اور ٹیکس وقت پر ادا کرتا ہے حکومت اس کے گلے کا طوق بڑھا دیتی ہے لیکن جو ریاست کو تسلیم نہیں کرتا، جو ٹیکس دیتا ہے اور نہ ہی بل ادا کرتا ہے اور جو واپڈا کے ملازمین کو اغواء کر لیتا ہے، جو ٹرانسمیشن لائنیں اڑا دیتا ہے، ٹرانسفارمر تباہ کر دیتا ہے یا جرنیل سمیت 50 ہزار لوگ مار دیتا ہے، ریاست اس کے ساتھ مذاکرات بھی کرتی ہے، اس کے بل بھی معاف کر تی ہے، اس کے کنڈے بھی برداشت کرتی ہے اور اسے تاوان بھی دیتی ہے، کیا بل دینے والوں کا یہ قصور ہے یہ ریاست اور حکومت کو تسلیم کر رہے ہیں، اگر ہاں تو پھر ریاست کے ہر ادارے کو عوام پر ہاتھ سیدھے کرنے کا حق حاصل ہے، آپ غریب عوام کو مارتے چلے جائیں، اس وقت تک مارتے چلے جائیں یہ جب تک آخری سانس نہیں لے لیتے یا یہ بغاوت نہیں کر دیتے۔

آپ ماننے والوں کو مزید ماریں، یہ اس سلوک کے حق دار ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.