Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Zardari Ne Nawaz Sharif Ko Phir Bacha Lya

Zardari Ne Nawaz Sharif Ko Phir Bacha Lya

پیٹر ایگن (Peter Eigen) کا تعلق جرمنی کے شہر آگس برگ سے ہے، یہ معاشیات اور قانون کے ماہر ہیں، یہ ورلڈ بینک میں کام کرتے تھے، یہ 1988ء سے 1991ء تک مشرقی افریقہ میں ورلڈ بینک کے ریجنل ڈائریکٹر تھے۔ افریقہ میں کام کرتے ہوئے انھیں محسوس ہوا اللہ تعالیٰ نے افریقہ کو قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے، دنیا کی کون سی ایسی دھات اور کون سا ایسا خزانہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے افریقہ کو نہیں نوازا لیکن یہ براعظم اس کے باوجود غربت کا نوحہ ہے، کیوں؟ افریقہ میں انسان کیوں جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے ہیں، یہ سوال پیدا ہوا تو پیٹر ایگن نے افریقہ میں غربت کی وجوہات تلاش کرنا شروع کر دیں، وہ طویل مطالعے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے، افریقہ کا اصل مسئلہ کرپشن ہے۔

یہ خطہ پانچ سو سال تک یورپی طالع آزماؤں کی لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنا رہا ہے اور یہ اب مقامی سرداروں، کرپٹ سیاستدانوں اور سنگدل بیوروکریٹس، جرنیلوں اور جاگیرداروں کے دانتوں تلے دبا ہوا ہے، پیٹر کو محسوس ہوا افریقہ میں جب تک کرپشن کنٹرول نہیں ہوگی، یہ اس وقت تک معاشی "ٹیک آف" نہیں کر سکے گا، پیٹر ایگن کو مزید محسوس ہوا کرپشن صرف افریقہ کا ایشو نہیں، یہ عالمی مسئلہ ہے اور جس ملک میں بھی کرپشن کا وائرس ہے وہ ملک معاشی ناہمواری، غربت، افلاس، بیروزگاری، بیماری اور عدم برداشت کا شکار ہے، یہ وہ نقطہ تھا جس نے پیٹر ایگن کو برلن میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھنے پر مجبور کیا، یہ تنظیم پچھلے 23 برسوں سے دنیا کے 168 ممالک سے کرپشن کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے اور یہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ہر سال کرپشن کے پرسیپشن پر ان ممالک کا انڈیکس جاری کرتی ہے، یہ تنظیم ہر ملک کو سو نمبر دیتی ہے۔

یہ نمبر جتنے کم ہوتے جاتے ہیں اس ملک میں کرپشن کا لیول اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 26 جنوری2016ء کو آخری رپورٹ جاری کی، رپورٹ کے مطابق دنیا میں شفافیت میں ڈنمارک پہلے نمبر پر ہے، فن لینڈ دوسرے، سویڈن تیسرے، نیوزی لینڈ چوتھے اور ہالینڈ پانچویں نمبر پر ہے، پاکستان کا نمبر 117 ہے، دنیا کے 116 ملک ہم سے بہتر ہیں جب کہ 52 ہم سے بدتر ہیں، دنیا کے بدترین کرپٹ ممالک میں جنوبی سوڈان، سوڈان، افغانستان، شمالی کوریا اور صومالیہ شامل ہیں، یہ کہانی کا ایک حصہ ہے، آپ اب دوسرا حصہ دیکھئے۔

آپ کسی دن پاکستان میں کرپشن کے خلاف قوانین اور کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کرنے والے اداروں کی تفصیل ملاحظہ کیجئے، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، ملک میں کرپشن کے خلاف درجنوں قوانین بھی موجود ہیں اور ملک میں نیب، ایف آئی اے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور وفاقی محتسب اعلیٰ جیسے درجن بھر مضبوط ادارے بھی ہیں، صوبائی سطح پر بھی بے شمار ادارے کام کر رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں احتساب کا اپنا صوبائی محکمہ بھی ہے، ملک کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے اندر بھی اینٹی کرپشن کے یونٹس موجود ہیں۔

یہ یونٹس بھی ملازمین پر نظر رکھتے ہیں، فوج، پولیس اور ایف بی آر میں بھی بہت تگڑے ڈیپارٹمنٹ ہیں، سیاسی جماعتوں نے بھی مس مینجمنٹ اور کرپشن کے خلاف کارروائیوں کے لیے کمیٹیاں بنا رکھی ہیں، ہمارا مذہب بھی بددیانتی کے انتہائی خلاف ہے، ہم صبح سے رات تک علماء کرام سے بھی کرپشن کے خلاف خطبے سنتے ہیں، ہمارے اساتذہ اور والدین بھی پوری زندگی ہمیں نیک اور ایماندار بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور نیب کے موجودہ چیئرمین چوہدری قمرزمان نے بھی" نوٹو کرپشن" کو تقریباً نصاب کا حصہ بنا دیا ہے لیکن ہم ان تمام تر قوانین، اداروں، مذہبی خطبوں اور سماجی تبلیغ کے باوجود شفاف ممالک کی فہرست میں 117ویں نمبر پر ہیں، ہمارے شفافیت میں سو میں سے صرف 30نمبر ہیں، کیوں؟ آپ اس کے بعد دنیا کے پانچ کرپشن فری ممالک کا جائزہ لیں، ڈنمارک، فن لینڈ اور سویڈن میں کرپشن کی تحقیقات اور احتساب کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہیں، نیوزی لینڈ میں"دی نیوزی لینڈ سیریس فراڈ آفس، کے نام سے ایک چھوٹا سا محکمہ کام کرتا ہے، یہ بھی زیادہ تر فراڈ کی شکایات کی تفتیش کرتا ہے۔

ہالینڈ میں احتساب کی ذمے داری پولیس کے پاس ہے، پولیس میں"انٹرنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ" کے نام سے ایک یونٹ ہے، یہ یونٹ بھی صرف سرکاری افسروں پر نظر رکھتا ہے، ان پانچ ملکوں میں محکمے اور ادارے نہیں ہیں لیکن وہاں اس کے باوجود کرپشن نہیں، کیوں؟ آپ اب اس کیوں کو پاکستان کے قوانین اور اداروں کے سامنے رکھئے اور پھر جواب دیجیے، دنیا کے جن ملکوں میں قوانین اور ادارے نہیں ہیں وہاں کرپشن کیوں نہیں ہو رہی اور جن ملکوں میں درجنوں سرکاری، سماجی اور مذہبی ادارے موجود ہیں اور جن میں قوانین اس قدر سخت ہیں کہ نیب مجرم سے انسانی حقوق تک چھین سکتا ہے اور جن میں لیفٹیننٹ جنرل جیسے مضبوط ترین عہدیداروں کے کندھوں سے بھی ستارے اتارے جا سکتے ہیں وہاں کرپشن کیوں نہیں رک رہی، وہ ملک ہر بار دنیا کے کرپٹ ترین ملکوں میں کیوں شمار ہوتا ہے؟

آپ جب اس کیوں پر غور کریں گے تو آپ کو وجہ بھی سمجھ آ جائے گی اور آپ کو حل بھی نظر آ جائے گا، ہمیں ماننا ہوگا ہمارے ملک میں کرپشن کی وجہ سسٹم کی غیر موجودگی ہے، ہم صرف مجرموں پر فوکس کر رہے ہیں، ہم نے آج تک جرم کو روکنے کا بندوبست نہیں کیا، ہمارے ملک میں دروازے کھلے ہیں لیکن ہم دیواریں اونچی کرتے چلے جا رہے ہیں، ہم مونگ پھلی کا تھال بھوکے بندروں کے درمیان رکھ کر انھیں سزا اور عذاب سے ڈرانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، ہم نے کبھی سوچا ہم جتنی توجہ نئے ادارے بنانے پر صرف کرتے ہیں اور ہم جتنا سرمایہ احتساب کے نام پر خرچ کر رہے ہیں ہم اگر اس سے آدھی رقم اور نصف توجہ سسٹم کو دے دیں تو پاکستان کم از کم شفافیت میں ڈنمارک کے برابر آ جائے اور ہمیں پانامہ پانامہ نہ کرنی پڑے۔

میں نے ایک بار ڈنمارک کے ایک بزنس مین سے پوچھا "کیا آپ لوگوں کو کرپشن کے مواقع نہیں ملتے" اس نے جواب دیا "ہمارے ملک میں کرپشن کے سیکڑوں مواقع ہیں" میں نے پوچھا "پھر آپ کرپشن کیوں نہیں کرتے" اس نے جواب دیا "ہم یہ جانتے ہیں، ہم کرپشن کے ذریعے پیسہ تو کما لیں گے لیکن ہم اس پیسے کو چھپا نہیں سکیں گے" ہم بھی اگر صرف اس نقطے پر توجہ دیں، ہم اگر کرپشن کے پیسے کو ٹھکانے لگانے کے تمام سوراخ بند کر دیں تو کرپشن خود بخود ختم ہو جائے گی، آپ ریاست کے تمام امور کو آن لائن کردیں، دنیا کا کوئی بھی شخص حکومت کی کسی بھی ویب سائیٹ پر جا کر کوئی بھی ڈیٹا چیک کر سکے اور غلطی کی نشاندہی کر سکے۔

آپ خود سوچئے میں اگر بجلی اور گیس کا کنکشن آن لائن حاصل کر سکتا ہوں تو پھر مجھے رشوت دینے کی کیا ضرورت ہے؟ میں اگر وکیل کو انٹرنیٹ کے ذریعے پے منٹ کروں گا تو وہ یہ رقم ایف بی آر سے کیسے چھپا سکے گا اور ریاست کی تمام سرکاری خریداری جب آن لائن ہوگی تو حکمران اور بیورو کریٹس کک بیکس کیسے لے سکیں گے؟ اسی طرح آپ چیکس، اے ٹی ایم کارڈز، کریڈٹ کارڈز اور ایزی پیسہ جیسی سہولتوں کو لازمی قرار دے دیں، آپ ملک کے تمام شہریوں کو دس ہزار روپے سے زائد کی ادائیگی کے لیے بینک کا محتاج بنا دیں اور آپ ہر بالغ شخص کے لیے بینک اکاؤنٹ لازمی قرار دے دیں، ملک سے کرپشن خود بخود ختم ہو جائے گی، دوسری صورت میں آپ کمیشن پر کمیشن بناتے رہیں گے۔

ٹی او آرز پر ٹی او آرز گھڑتے رہیں گے اور ادارے پر ادارہ بناتے رہیں گے لیکن ملک میں کرپشن کم نہیں ہوگی، ہم کبھی ڈنمارک اور فن لینڈ نہیں بن سکیں گے اور پیچھے رہ گیا پانامہ ایشو تو میں سمجھتا ہوں، حکومت اور اپوزیشن دونوں پانامہ کمیشن کے ذریعے صرف دھول اڑا رہی ہیں، یہ احتساب نہیں کریں گی، یہ ملک سے کرپشن بھی ختم نہیں کریں گی، یہ لوگ صرف عوام کا پیسہ اور وقت ضایع کریں گے، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ اپوزیشن کے "ٹی او آرز" کا مطالعہ کر لیجیے، عمران خان اور بلاول بھٹو ان ٹی او آرز سے قبل وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے تھے، اپوزیشن کے ٹی او آرز کے بعد یہ لوگ وزیراعظم کے استعفے سے پیچھے ہٹ گئے۔

یہ اپوزیشن کے ٹی او آرز کا پہلا نتیجہ ہے، دوسرا نتیجہ پانامہ کمیشن اور پانامہ ایکٹ بننے پر نکل آئے گا، وزیراعظم کا نام پانامہ لیکس میں شامل نہیں، وزیراعظم کی کوئی آف شور کمپنی بھی نہیں چنانچہ جب کمیشن کارروائی شروع کرے گا تو وزیراعظم ایک درخواست دیں گے اور کمیشن بے بس ہو جائے گا، کیوں؟ کیونکہ کمپنیاں حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کی ہیں اور یہ تینوں ان کی ملکیت تسلیم کر رہے ہیں چنانچہ آپ ان کے اعترافی بیانات کے بعد ان کے والد کو کیسے سزا دیں گے اور ان ٹی او آرز کی تیسری بڑی خامی، آپ نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کا ایک اور موقع ضایع کر دیا، امریکا، یورپ، بھارت اور جاپان پانامہ جیسی دنیا کی 21 ٹیکس ہیونز کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے معاہدے کر رہے ہیں۔

یہ نئی قانون سازی کر رہے ہیں اور ہم پرانے کٹے کھول کر ان کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں، ہم آگے کے بجائے پیچھے دوڑ رہے ہیں، میں دل سے سمجھتا ہوں آصف علی زرداری نے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کو دوسری بار بھی بچا لیا، زرداری صاحب نے ٹی او آرز کا جھانسہ دے کر نواز ہٹاؤ تحریک کی گیند عمران خان کے ہاتھ سے چھین لی، خان صاحب اب پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر ہیں، زرداری صاحب نے استعفیٰ کا مطالبہ بھی ختم کرا دیا اور یہ اب پانامہ ایکٹ کے ذریعے نواز شریف کو مکھن کے بال کی طرح صحیح سلامت باہر بھی نکال لیں گے اور عمران خان کے ہاتھوں میں ایک بار پھر ناکامی کی خراشوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

ایک زرداری واقعی سب پر بھاری ہے اور میاں صاحب کو اس بھاری زرداری کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.