آپ فرض کیجیے، آپ بہت بڑی کمپنی کے مالک ہیں، کمپنی کے اثاثوں کی مالیت اربوں کھربوں ڈالرہے، دس بیس ہزار لوگ کام کرتے ہیں لیکن کمپنی چاروں اطراف سے دشمنوں میں گھری ہے، انتظامیہ کرپٹ ہے، یہ روزانہ کروڑوں ڈالر چرا لیتی ہے، ورکرز کام چور ہیں، کمپنی کے گرد و نواح میں حریفوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں، یہ روزانہ عمارت کو آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور کمپنی کی فلاسفی، طریقہ کار اور مشینری بھی پرانی ہو چکی ہے، آپ صورتحال سے پریشان ہیں اور سمجھتے ہیں، کمپنی کی ری سٹرکچرنگ کے لیے نئی ٹیم، نئی انتظامیہ اور نئے سربراہ کی ضرورت ہے۔
آپ نئی ٹیم کے چنائو کے لیے اعلیٰ معیار کا مہنگا ترین سلیکشن کمیشن بناتے ہیں، یہ اربوں روپے خرچ کر کے بیس لوگ چنتا ہے، آپ ان میں سے ایک کو کمپنی کا سربراہ بنا دیتے ہیں اور باقی 19کو اس کا معاون۔ آپ تمام اختیارات اس بیس رکنی ٹیم کو دے دیتے ہیں، آپ چھ مہینے بعد ٹیم سے رپورٹ مانگتے ہیں، ٹیم جواب دیتی ہے ہم ابھی ماضی کا گند صاف کر رہے ہیں۔ آپ خاموش ہو جاتے ہیں، آپ چھ مہینے بعد ٹیم سے دوبارہ کارکردگی رپورٹ طلب کرتے ہیں، ٹیم جواب دیتی ہے" ہم پالیسی بنا رہے ہیں " آپ دوبارہ خاموش ہو جاتے ہیں، آپ کو دو تین ماہ بعد اطلاع ملتی ہے، ٹیم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے، حکمران دھڑا اور مخالف دھڑا اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں، آپ پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں، اس لڑائی کے دوران کمپنی کا مزید بیڑا غرق ہو جائے گا۔
آپ دونوں دھڑوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، دونوں مطالبہ کرتے ہیں آپ دوسرے دھڑے کو فارغ کریں گے تو کام ہو سکے گا، برسر اقتدار دھڑا کہتا ہے، یہ لوگ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے، ہم دفتر کے اوقات صبح آٹھ بجے طے کریں تو انھیں اعتراض ہوتا ہے، ہم نو بجے کر دیں تو بھی یہ نہیں مانتے اور ہم اگر تنگ آ کر شام کی ٹائمنگ کر دیں تو بھی یہ جھنڈے اور ڈنڈے لے کر آ جاتے ہیں، آپ اگر ہم سے کام لینا چاہتے ہیں تو آپ انھیں فارغ کریں، آپ دوسرے دھڑے سے ملتے ہیں تووہ کہتا ہے، سیٹھ صاحب آپ نے کرپٹ، نااہل اور بے ایمان ترین لوگوں کوکرسی پر بٹھا دیا، یہ اقرباء پروری اور کرپشن کے چیمپیئن ہیں۔
یہ کمپنی کو مغلیہ سلطنت بناتے جا رہے ہیں، یہ کلیدی عہدوں پرخاندان کے نااہل لوگوں کو تعینات کر رہے ہیں، یہ کمپنی کے اثاثے بیچ بیچ کر اپنے اکائونٹس بھر رہے ہیں، یہ سلیکشن کمیشن کے ساتھ بھی مل گئے تھے اور انھوں نے آپ کو دھوکا دے کر خود کو سلیکٹ کروا لیا تھا، آپ اگر ہم سے کام لینا چاہتے ہیں یا کمپنی کو بچانا چاہتے ہیں تو آپ انھیں نکالیں ورنہ ہم کمپنی کے دروازے پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک ان لوگوں کا بوریا بستر گول نہیں ہوتا، آپ کی پریشانی میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں آپ کی کمپنی گھنٹوں کے حساب سے ڈوب رہی ہے۔
کمپنی کو فوری مدد درکار ہے جب کہ کمپنی کو بچانے والے آپس میں لڑ رہے ہیں، آپ سوچتے ہیں مجھے فوری طور پر دونوں دھڑوں کو فارغ کر دینا چاہیے لیکن آپ کو اس وقت معلوم ہوتا ہے کمپنی کے قانون میں کوئی ایسی گنجائش موجود نہیں، آپ پانچ سال تک ان لوگوں کا احتساب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں نکال سکتے ہیں، یہ جان کر آپ کی حالت کیا ہوگی؟ آپ اس وقت یقینا اسی صورتحال کا شکار ہوں گے جس میں آج کل پاکستان کے عوام الجھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے عوام اس لیے پارلیمنٹ تشکیل نہیں دیتے کہ ہمارے پارلیمنٹیرینز ایک دوسرے سے دست و گربیان رہیں، پاکستان مسلم لیگ ن "گو زرداری گو" کے نعرے لگاتی رہے، پاکستان پیپلز پارٹی " جان دو میاں صاحب جان دو" کے نعرے لگائے، عمران خان "ساڈی واری آن دو" کے مطالبے کریں اور پاکستان مسلم لیگ ق لاہور کو جلیانوالہ باغ بنادے، عوام لیڈروں کو ڈوبتے ہوئے پاکستان کو بچانے کے لیے منتخب کرتے ہیں مگر یہ ایک دوسرے کے خلاف دھرنے دے کر پانچ سال گزار دیتے ہیں، یہ ملک بچانے کے بجائے بھٹو اور مجیب الرحمن کی طرح ملک توڑ دیتے ہیں۔
کیا سیاست کا مقصد صرف اقتدار، دھرنے، مارچ اور افرا تفری ہے؟ اگر ہاں تو پھر ہمیں دنیا کی ترقی یافتہ ترین قوم ہونا چاہیے تھا کیونکہ ملک میں 1948ء سے دھرنے، لانگ مارچ اور جلسے جلوس چل رہے ہیں، میں 1988ء سے ان دھرنوں، لانگ مارچز اور "ساڈی واری آن دو" جیسی تحریکوں کا عینی شاہد ہوں اور مجھے ہر بار یہ محسوس ہوتا ہے ہم شاید ان لیڈروں کو اسی کام کے لیے منتخب کرتے ہیں، دھرنے اور مارچز ہی شاید ان لوگوں کی اصل پرفارمنس ہے! قدرت نے 2013ء میں بڑی شاندار سیاسی تقسیم کی، یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے آخری موقع تھا۔
قدرت نے چار بڑی سیاسی طاقتوں کو چار الگ الگ خطے دے دیے تا کہ چاروں سیاسی قوتیں اپنی اپنی سیاسی طاقت اور اپنی اپنی قابلیت کا امتحان لے سکیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ مل گیا، یہ ان کے لیے سندھ اور کراچی کو ایشیا کا شاندار ترین خطہ بنانے کا سنہری موقع ہے، پنجاب پاکستان مسلم لیگ ن کو مل گیا، یہ پنجاب کو خطے کا محفوظ ترین، خوش حال ترین اور جدید ترین خطہ بنا دے، بلوچستان بلوچ قیادت کو مل گیا، بلوچ قیادت اس کو دوبئی کے برابر لے جائے اور عمران خان اور ان کی پارٹی جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر خیبر پختونخواہ کا مقدر بدل دے۔
وفاق 18 ویں ترمیم کے بعد بڑی حد تک اسلام آباد کے بیس کلو میٹر کے دائرے تک محدود ہو چکا ہے، یہ اب فوج سے الجھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا چنانچہ اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے پاس اپنے اپنے گھوڑے اور اپنے میدان موجود ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت نے بدقسمتی سے اس آخری موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا شروع کر دی، میاں نواز شریف کو چاہیے تھا یہ تدبر کا مظاہرہ کرتے، عمران خان اگر چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے تو میاں صاحب چاروں حلقے کھول دیتے یا خود کو کسی دوسرے حلقے سے منتخب کرا لیتے اور ان چاروں متنازعہ نشستوں پر دوبارہ الیکشن کرا دیتے، اس میں کیا حرج تھا۔
اسی طرح اگر عمران خان انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں تو یہ اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحاتی کمیٹی بنا دیتے، عمران خان کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیتے اور اصلاحات ہو جاتیں، عمران خان کو بھی چاہیے تھا، یہ اپنی تمام توانائیاں خیبر پختونخواہ پر لگا دیتے، اپنے ورکروں کو وہاں جمع کرتے اور صوبے کے صدیوں پرانے مسائل حل کر دیتے، یہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات کرتے اور اگلے الیکشن کو ماضی کی تمام خرابیوں سے پاک کر دیتے، خان صاحب کو قوم کو "موبلائز" کر کے سڑکوں پر لانے کی کیا ضرورت تھی؟
پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو بھی چاہیے تھا یہ دونوں پارٹیوں کے اختلافات ختم کرانے کی کوشش کرتیں، یہ صورتحال کا اندازہ کرتیں، اگر حکومت غلط ہوتی تو تمام پارٹیاں مل کر حکومت کے خلاف پارلیمانی اتحاد بنا لیتیں اور حکومت پر دبائو ڈالتیں اور اگر عمران خان غلط ہوتے تو یہ ان کا گھیرائو کر لیتیں مگر یہ بھی ثالث کا کردار ادا کرنے کے بجائے تماشائی بن گئیں، یہاں تک کہ معاملات بگڑ گئے اور پورا نظام دائو پر لگ گیا، کیا قوم نے آپ کو اس کام کے لیے پارلیمنٹ میں بھجوایا تھا، کیا آپ اس لیے اقتدار میں آئے تھے کہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر بھٹو اور مجیب الرحمن بن جائیں اور باقی ماندہ پاکستان کو مزید توڑنے میں لگ جائیں، خدا خوفی کریں اور اصل کام کی طرف واپس آ جائیں، یہ ملک مزید مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے، یہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں، یہ انقلابات اور مارچز کی اصل وجوہات پر توجہ دیں، کیا میاں صاحب یہ نہیں جانتے انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن اصل ایشو نہیں ہیں، اصل ایشو جنرل پرویز مشرف اور دو وفاقی وزراء ہیں، آپ جب تک ان دونوں وفاقی وزراء کو سین سے نہیں ہٹائیں گے اور آپ جب تک جنرل پرویز مشرف کے مسئلے پر اپنا شملہ نیچے نہیں کریں گے آپ اس وقت تک سکون سے حکومت نہیں کر سکیں گے، یہ 14 اگست گزرے گا تو ایک نیا 14 اگست شروع ہو جائے گا اور آپ وہاں سے نکلیں گے تو ایک نیا14 اگست آ جائے گا، آپ کتنے 14 اگستوں کا مقابلہ کریں گے؟
آپ آصف علی زرداری نہیں ہیں، آپ زیادہ دنوں تک اس صورتحال کامقابلہ نہیں کر سکیں گے، آپ تھک جائیں گے یا اکتا جائیں گے اور اس تھکاوٹ اور اس اکتاہٹ میں وہ ہو جائے گا جو ہوتا چلا آیا ہے، آپ کو تیسری بار گھر جانا پڑے گا یا پھر آپ خود ہی اسمبلیاں توڑ کر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں گے چنانچہ میری درخواست ہے، آپ تھوڑا سا سمجھوتہ کر لیں، آپ جنرل پرویز مشرف کو جانے دیں، اپنے دو وزراء کے پورٹ فولیوز بھی تبدیل کر دیں اور اصل کام پر توجہ دیں۔
آپ کامیاب ہوگئے تو ملک میں آیندہ کوئی جنرل پرویز مشرف پیدا نہیں ہو سکے گا اور میری عمران خان سے بھی درخواست ہے آپ کا لانگ مارچ کامیاب ہو بھی گیا تو بھی آپ اقتدار میں نہیں آ سکیں گے کیونکہ آپ کے لانگ مارچ کے آخر میں جو طاقتیں میاں نواز شریف کو گھر بھجوائیں گی وہ آپ کو وزیراعظم کیوں بنائیں گی اور اگر آپ وزیراعظم بن بھی گئے تو بھی آپ خود کو پارلیمنٹ سے آئینی وزیراعظم نہیں بنوا سکیں گے، آپ کو الیکشن میں جانا پڑے گا اور اس ملک میں اگر جنرل پرویز مشرف الیکشن کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے تھے تو آپ کیسے حاصل کریں گے چنانچہ آپ بھی نقصان میں رہیں گے، میری درخواست ہے خان صاحب اور میاں صاحب دونوں اصل کام کی طرف آ جائیں، اس اصل کام کی طرف جس کے لیے آپ کو پارلیمنٹ میں بھجوایا گیا تھا۔