"وہ نہیں رہے اب ہم میں " ہم جو یہاں رہ جاتے ہیں، شاید یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں یہاں مستقل رہنا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ پہلے اور کچھ بعد میں سب پر یہ جملہ کہ "وہ نہیں رہے، اب ہم میں " اِک دن صادر ہوگا۔
شعور اور لاشعورکی ان لڑیوں میں فرد در فرد ہے، آئے اور آکر چلے جانا ہے۔ حاصل کے ساتھ اک عمرِ درازسے تعلق داری تھی اور یہ رشتہ ہمیں بڑوں سے نصیب ہوا، ایک ایسا رشتہ جو سگے بھائی سے ہوتا ہے، یہ وہ تھا۔
بہت سے پہلو ہیں ان کی شخصیت کے، سیاسی پختگی کی وہ حد جو انتہائی دور اندیش سیاست دان میں پائی جاتی ہے، اتفاق کہیں یا فطری عمل کہیں، یہ روایت ان کو اپنے والد میر غوث بخش بزنجو سے ورثے میں ملی۔ ایسے بلوچ سیاستدان اب نایاب ہیں جو آئین کے اندر مسائل کا حل چاہتے ہوں۔ جب وہ اس لحد میں سویا ہوگا، جہاں اس کے برابر میں اس کے والد مدفون ہیں تو "نال" کی مہکتی فضائوں میں یہ سرگوشی کہیں گونجی ہوگی کہ جیسے حاصل نے اپنے والد سے کہا ہوکہ " ابا جہاں سے تم چھوڑ گئے تھے، میں نے وہیں سے وہ ترتیب پھر سے سنبھالی تھی، دیکھ کہ وہ اس تازگی کے ساتھ میں چھوڑ آیا ہوں۔"
حاصل کے والد بھی بلوچستان میں مڈل کلاس سیاست کے امین تھے اور بیٹا تو مڈل کلاس سیاست کی ایسی بنیادیں رکھ گیا کہ اب ا س کا ہی دور ہوگا، آگے کے زمانوں میں، ہاں مگر یہ ہمارے سندھ میں نہ ہو سکا، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی یا میرے والد جنھوں نے اپنے طبقے سے بغاوت کرکے مڈل کلاس، ورکر کلاس، دہقانوں یا طلبہ کی سیاست کی باگ ڈور توسنبھالی تھی مگر وہ پارلیمانی سیاست میں اپنی بنیادیں نہیں ڈال سکے۔
حاصل صرف "بلوچ" کیوں کر تھا، پوری دھرتی اس کی ماں تھی اور وہ ایک عام انسان تھا۔ وہ انٹرنیشنلسٹ تھا، بائیں بازوکی سیاست کرتا تھا، وہ تمام مظلو م طبقوں کی بات کرتا تھا۔ چند یادیں ہیں جو ان ڈھیر ساری باتوں میں، ملاقاتوں میں، میں پرونا چاہتا ہوں، اس کے جانے کے اس موقعے کی مناسبت سے ورنہ سیاست کے باب تو پھر بھی لکھے جائیں گے۔
زمانہ طالب علمی سے واسطہ تھا میرا۔ میری، حاصل سے پہلی ملاقات انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس 1985 میں کراچی میں ہوئی تھی اور پھر بتدریج دوستی ہوگئی۔ یہ دوستی ہمیں میرے اوراسکے والد کے توسط سے بھی ملی۔ وہ اور میں دونوں ہی ڈی ایس ایف طلبہ تنظیم کے سرگرم کارکن تھے۔ وہ عمر میں مجھ سے سات یا آٹھ سال بڑے بھی تھے اور سیاست کوبہتر سمجھتے تھے۔ ہم سب پاکستان نیشنل پارٹی سے منسلک تھے جس کے صدر میر غوث بخش بزنجو تھے۔
اچکزئی صاحب ہوں، عطااللہ مینگل ہوں، مولانا بھاشانی ہوں یا پھر باچا خان ہوں، یہ تمام بزرگ سیاستدان نوابشاہ آتے تھے۔ میرغوث بخش بزنجو ہوں، میاں افتخار ہوں یا پھر محمود الحق عثمانی ہوں یہ سب اکثر نوابشاہ میں میرے گھر مہمان ٹھہرتے تھے، جب سندھ ہاری کمیٹی کی کانفرنس ہوتی تھیں۔ وہ بائیں بازو کی سیاست کا سنہری دور تھا، ابھی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا اور پھر لیفٹ جوباقی ماندہ پاکستان میں بچا، وہ حیدر آباد سازش کیس کی نذر ہوا۔
حاصل اور میں 2013 میں عین انھیں تاریخوں میں ڈھاکا کی سرزمیں پر اترے جب سقوط ڈھاکا کی بنیاد یں ڈالی گئیں، عاصمہ جہانگیر بھی ہمارے ساتھ تھیں، یہ چوبیس مارچ کا دن تھا۔ وہ دن جس دن میرے والد اور حاصل کے والد 1971 میں اس آخری جہاز میں جو ڈھاکا سے اڑا تھا، واپس آئے، دوسرے ہی دن ڈھاکا میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔ میں نے اور حاصل نے بنگلہ دیش میں اپنے والد کو دیا گیا نیشنل ایوارڈ لیا۔
بڑی کوشش کی حاصل بزنجو نے کہ میں سیاست کی طرف لوٹ آئوں مگر میں بات ٹال دیتا۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہاں ابھی مڈل کلاس سیاست پارلیمنٹ تک پہنچنے کے راستے ہموار نہیں کرپائی۔ مجھے ہمیشہ یہ ڈر رہا کہ کہیں میں راستے سے بھٹک نہ جائوں۔ مجھے ڈر لگتا تھا۔ میرے والد وکیل تھے اور بہت بڑے وکیل تھے اپنے شہر کے۔ مگر سیاست نے انھیں وکالت نہ کرنے دی، ان کے بچوں کوان کی سیاسی کمنٹ منٹ کی وجہ سے بہت کچھ جھیلنا پڑا کہ جلاوطنی، جیل اور سفر ان کا نصیب ٹھہرا۔
بہت کچھ کرتے کرتے بالاخرہم نے ایک فورم فار سیکیولر پاکستان بنایا۔ اقبال حیدر اس فورم کے صدر، حاصل بزنجو اس کے نائب صدر اور میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ فورم کے سرپرست اعلیٰ فخر الدین جی ابراہیم تھے اور اس فورم میں ہمارے ساتھ آدرش کواسجی بھی تھے۔ اس فورم کی پہلی پریس کانفرنس میں شیر باز خان مزاری نے بھی شرکت کی تھی۔
جب 2009 میں چھٹا مالیاتی ایوارڈ کمیشن بنا تو ہم نے ایک فورم بنایا۔ جگہ جگہ کانفرنسز کیں۔ کراچی، کوئٹہ اور لاہور۔ حاصل ہمارے ساتھ ہر جگہ موجود تھے اور یہ وہ مالیاتی ایوارڈ ہے جس سے آج بڑے بڑے لوگ خائف ہیں۔ حاصل بزنجو ہوں یا ڈاکٹر مالک، رضا ربانی انھوں نے مل کر جو اٹھارویں ترمیم کے لیے کام کیا، آج وہ کاوشیں سنہری حروف کے ساتھ ہماری ملکی تاریخ کا حصہ ہیں۔
ہماری دوستی بہت گہری تھی۔ مشکل سے ایک ہفتہ گزر تا تھا کہ ہماری فون پر بات ضرور ہوتی۔ میں حاصل کی پارٹی کا ممبر شپ کارڈ بھی رکھتا تھا مگر متحرک نہ تھا۔ ہماری رات دیر تک نشستیں ہوتیں، سیاست، ادب تاریخ اور شاعری پر۔ طنز و مزاح کی حس میں بھی حاصل بڑی حساسیت رکھتا تھایا یوں کہیے کہ جب کہیں اس کو اپنے اندر تھکاوٹ کے آثار محسوس ہوتے، یا کہیں ذرا سا ڈپریشن محسوس ہوتا اسے میں یاد آتا اور پھر ہم ایک طویل نشست لگاتے۔ پورا کمرہ ان کی سگریٹ کے کشوں اور میرے سگار کے دھوئیں سے بھر جاتا۔
پچھلے ہی سال جب میں نے انھیں فون کیا کہ میرے گھر بنگلہ دیش کا سفیر آ رہا ہے اور ان کا اس دعوت میں ہونا ضروری ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ نہیں آسکتے اس لیے کہ ان کو پھیپھڑوں کا سرطان ہوگیا ہے اورآغا خان اسپتال میں ان کی پہلی کیموتھراپی ہے۔ ان الفاظ پر میری سانسیں تو جیسے تھم گئیں، ایک لفظ میری زبان سے نہ نکل سکا مگر وہ ہنسے اور کہنے لگے " اڑے کینسر تمہیں ہوا ہے یا مجھے جو چپ ہوگئے ہو" دوسرے دن میں اسپتال کے بر آمدے میں کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا، وہ آئے ان کے چہرے پر وہ ہی مسکان، و ہی مجھے دیکھ کر شرارتی رویہ اور پھر ویسے ہی ہم قہقہوں میں گم ہوگئے۔
ایسی دلیری آسانی سے نہیں ملتی، جو حاصل کو نصیب ہوئی، وہ بڑی دلیری کے ساتھ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے کھڑے ہوئے، کیمو تھراپی بھی جاری تھی، مگر اپنی سیاسی ذمے داریوں سے منہ نہ موڑا۔ ا مریکا میں ڈاکٹروں نے انھیں لاعلاج قرار دے دیا، مگر یہ سن کر بھی دل چھوٹا نہ کیا۔ جب تک سانسیں تھیں اور زندگی نے مہلت دی وہ شعور میں تھے تو وہ صرف اور صرف سیاستدان تھے۔ سول بالادستی کے امین تھے۔
اک پردہ تھا جو تبدیل ہوا، اب بھی ان کی تازگی سے بھری ہنسی، وہ مسکان، وہ دبنگ آواز۔ یاروں کا یار تھا حاصل۔ میرے تو بھائی تھے، رہبر تھے اور گائیڈ بھی۔ میرے والد کی برسی جہاں بھی ہوتی، میرے گائوں یا کراچی میں وہ کہیں بھی ہو، ان کا آنا لازم تھا۔ آج وہ مستقبل کے طالب علموں کے لیے ایک مستند کتاب کی مانند ہے۔ حاصل نے زندگی میں وہ مقام پایا ہے کہ اپنی اولاد کے لیے اس سے بڑا کیا اعزاز ہوگا کہ وہ کس عظیم والد کی اولاد ہیں اور مجھ جیسے چھوٹے بھائی کے لیے بھی، وہ کسی اعزاز سے کم نہیں!