28 Nov 2019 کا دن پاکستان کی تاریخ میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح سے رقم کر چلا کہ یہ مملکت خداداد اپنی راہیں آئین کے تناظر میں یقیناً طے کرے گی۔ فرد، اداروں کے سامنے چھوٹے پڑ جائیں گے۔
قانون سب کو ایک آنکھ سے دیکھے گا وہ چاہے محمود ہو یا پھر ایاز۔ کتنی کہانیاں ہیں اور کتنے قصے ہیں، ان بھول بھلیوں میں اگر یاد کرنا چاہوں تو بہت کچھ ہے، کتنی ناانصافیاں ہیں جو انھیں عدالتوں کے کٹہروں میں ہوتی ہیں اور پھر آج کی یہ دنیا اور آج اس دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں ہیں، ان کے تشخص میں یہی انصاف کے تقاضے تھے اور وہ تقاضے انھوں نے آئین کے کوزے میں سما دیے ورنہ آج کی یہ جو دنیا ہے یہ دنیا نہ ہوتی جنگل کا قانون ہوتا، ہر طرف خون خرابہ ہوتا ہلاکو ہوتے چنگیز خان ہوتے تاتاریوں کی یلغارہوتی۔ ادھر نادر شاہ ہوتا ادھر ہٹلر ہوتا۔
ہم آج تک اپنے آئین کی جنگ لڑتے رہے، جنگ لڑتے لڑتے کبھی کبھار آئین سے دور بھی رہے، بہت طویل تھی یہ جنگ اور بہت کٹھن بھی، کبھی نظریہ ضرورت سامنے آیا تو کبھی Article 58(2)(b) کے ذریعے نظریہ ضرورت کو آئین کے اندر سمو دیا گیا۔ پھر جو جمہوریتیں آئیں کیا وہ واقعتاً بھی جمہوریتیں تھیں، جو بھی تھیں مگر تھیں وہ آپ کا اور میرا عکس، جاگیرداروں کی جمہوریت گماشتے سرمایہ داروں کی جمہوریت۔ ہمارے شرفاء واقعتاً شرفاء نہ تھے انگریزوں کے دیے ہوئے تحفے تھے۔ ہم نے جو انگریزوں سے روایتیں لیں جو انھوں نے ہمیں غلامی کے طوق پہنائے ہم وہیں رہے جہاں ہمیں وہ چھوڑ کرچلے گئے تھے۔
کیا فرق رہ گیا، وہ مسلمان جس سے انگریز نے ھندوستان چھینا تھا اور جاتے جاتے اسی انگریز سے کانگریس نے ھندوستان چھینا اور مسلم لیگ نے پاکستان پایا۔ ہماری سیاسی قیادت ہمارے ہی معاشرے کا عکس تھی، پہلے دن سے ہی اتنی کمزو کہ نظریہ ضرورت کے سوائے کوئی چارہ نہ تھا اور آج 28Nov 2019 کو ہم نئی تاریخ رقم کر چلے، ہم نئی راہیں متعین کر چلے۔ پاکستان میں آئین کا بول بالاہو گیا یہ ملک اسی طرح سے ہی اپنے خدوخال اوراپنی راہوں کا تعین کرے گا جس طرح دنیا کی تمام ماڈرن ریاستیں کرتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت طے پایا۔ یعنی کس قانون کے تحت چھ مہینے دیے گئے ہیں جب کہ کوئی قانون نہیں تھا نہ آئین میں کوئی ذکر تھا۔ تو پھر یہ چھ مہینے خود نظریہ ضرورت ہے۔ ہر نظریۂ ضرورت کا ایک زماں و مکان ہوتا ہے، context ہوتا ہے ریفرنس ہوتا ہے۔ ایک نظریہ ضرورت ضروری نہیں ہے کہ پہلے کی طرح منفی ہو جب دو جڑواں بچے جن کا جسم آپس میں جڑا ہوتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو دونوں ہی اللہ کو پیارے ہو جائیں گے یا پھر ان کا آپریشن کر کے کسی ایک کو بچایا جائے اور ایک کو نہیں۔ ایک کو بچانا اور ایک کو مارنا قتل ہے۔
یہ امریکی سپریم کورٹ نے کہا مگر تقاضا یہ ہے ایک قتل کیا جائے اور ایک کو بچایا جائے یہ ہے نظریۂ ضرورت۔ اور اس طرح عدالت کے فیصلے سے ایک معصوم کا قتل ہوا اور ایک معصوم بچ بھی گیا۔ عدالت جب چھ مہینے دے رہی تھی تو کسی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے تھا کہ عدالت اس سے تین سال لے بھی رہی تھی اور چھ مہینے بھی کیوں دے رہی تھی وہ تو یہ کہہ رہی تھی کہ قانون بنانا یا آئین میں ترمیم کرنا عدالت کا کام نہیں یہ جس کا کام ہے وہ جا کے کرے۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
یہ جو وزارت قانون ہے وہ کیا ہے اور حکومت کیا ہے، جب "درخت رات کو آکسیجن دے سکتے ہیں، جرمنی اور جاپان کی سرحدیں مل سکتی ہیں " تو ایسے نوٹیفکیشن بھی آ سکتے ہیں۔ جیسا بادشاہ ویسی حکومت۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنہوں نے دی انھیں کو جا کے لگی لیکن جو اصل بات کسی کو سمجھ میں نہ آئی وہ یہ ہے کہ یہ جو ہماری قوم ہے بڑی مختلف سی ہے۔ اسطرح نہیں ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھ جائے جس طرح ایران میں ہوا۔ لوگوں نے جس طرح احتجاج کیا اس کی مثال ایران کے انقلاب کے بعد کہیں نہیں ملتی اور نہ ہی اس طرح کہ جب میکسیکو میں ریل کے نرخ بڑھا دیے گئے تو ہنگامہ برپا ہوگیا، برے دن تو اردوان کے بھی شروع ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی مودی، پیوٹن سب کے، جنہوں نے نعرے، وعدے، نظریے اور حب الوطنی کو بیچا۔
جب تین نومبر کو عدالت نے مشرف کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ دنیا کی تاریخ کا پہلا شب خون تھا جس میں حکومت برقرار اور عدالت کو فارغ کر دیا گیا، پھر کیا ہوا پوری قوم اس آمر سے لڑ پڑی اس کے باوجود کہ سیاسی قیادت کمزور تھی لیکن صحافیوں سے لے کر وکیلوں تک سب آمر کے خلاف ایک ہو گئے اور تب تک چین سے نہ بیٹھے جب تک آمر رخصت نہ ہوا مگر کیا قسمت پائی ہے اس قوم نے کہ آج تک اس آمر کو بچانے کے لیے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ اب لوگ صرف اور صرف انصاف کی برتری دیکھنا چاہتے ہیں۔
اب جو دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے وہ اسی تیزی سے آ رہی ہے جس تیزی سے ایک لہر آئی تھی اسی صدی کی آخری دہائیوں میں جب سویت یونین ٹوٹ گیا، رومانیا، چیکوسلواکیا اور سارا سوشلسٹ بلاک، برلن وال ٹوٹ گئی اور اب آثار یہ ہیں کہ نہ ٹرمپ بچے گا نہ کوئی اور رائٹ ونگ پاپولسٹ لیڈر۔ چاہے کیوں نہ لیفٹ ونگ ہو جس طرح سے وینزویلا کے ہوگوشاویز ہوا کرتے تھے۔ ایک بہت تیز لہر تبدیلی کی آ رہی ہے، یہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ اس بدلتی دنیا میں بیانیہ کے نام پر، تاریخ کے نام پر، ثقافت اور مذہب کے نام پر یا پھر قوم پرستی کے نا م پر اب لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ عوام اب بہتر حکمرانی مانگتے ہیں، عدل و انصاف مانگتے ہیں، اسکول، اسپتال پینے کا صاف پانی، نکاسیء آب کا نظام، میونسپل سروسز، ٹرانسپورٹ اور روزگار مانگتے ہیں۔
آج اگر یہ حکمراں ہیں تو کل ان کا نعم البدل نواز شریف اور زرداری ہیں ان کے پاس کیا ہے عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ فقط یہ ہے کہ جمہوری تسلسل برقرار رہے گا اور پھر ان کی بری حکمرانی کی ذمے داری بھی لوگ اپنے کاندھوں پر لے کر بلآخر ان کو اسی طرح رخصت کریں گے، جس طرح مودی کو ھندوستان کرے گا، ٹرمپ کو بلآخر آمریکا، بوسنارو کو برازیل، اردوان کو ترکی اور پیوٹن کو رشیا کریگا۔ یہ جو 28 Nov 2019 کو ہوا یہی سب کچھ اگر 28 Nov 2010 کو یا اس سے پہلے ہو تا پھر چاہے یہی جج صاحبان ہوتے اور یہی عدالت ہوتی تو کیایہ نہیں ہو سکتا تھا مگر یہ وقت وقت کی بات ہے اور اب بات یہاں تلک بھی پہنچی کہ ہمارے محترم جج صاحبان کی حب الوطنی پر بھی شک کیا گیا جو بڑی دلگیر سی بات ہے، کسی شاعر کی مانند جو آپ کہتے تھے
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
یہ وطن بیس کروڑ لوگوں کا وطن ہے۔ بھوک و افلاس میں رہتی اس قوم پر ہمیں اب رحم آنا چاہیے۔ یہ ملک فرد واحد سے نہیں چل سکتا۔ اس کو ادارے چاہیئیں، آئین چاہیے، آئین کی پاسداری چاہیے۔ حقیقت بھری تاریخ چاہیے۔
اب ہمیں بند کرنے ہونگے یہ سب دھندے کہ فلاں کافر ہے یہ کافر، فلاں غدار یہ غدار۔ ہماری حب الوطنی کو کسی بھی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ لوگوں سے پیار کرنا ان کے لیے تعبیریں سوچنا خواب دیکھنا اگر غداری ہے تو دے دیجیئے ایک یہ تحفے میں مجھے بھی۔
ان کا دم ساز اپنے سواء کون ہے
شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو