کتنے سارے خواب تھے، وہ میرے بچپن کے دن تھے کہ میں بڑا ہوں گا، توکیا بنوں گا؟ خواب جیسے غبارے تھے۔ ڈھیر سارے غبارے میرے انگلی پکڑکر مجھے اڑا لے جاتے تھے، مجھے لے جاتے تھے ریگزاروں میں تتلیوں کے پاس، جھیل کنارے پرندوں کے پاس، جہاں پھولوں کی کہکشاں تھی۔ کھیل ہی کھیل تھے بس اور رات کو سوتے وقت وہ خوبصورت کہانیاں تھیں جو بڑی آپا سناتی تھیں۔ خیالوں کی زمستاں تھی، میری زندگی اور میرا بچپن…
دل رنج سے غمگین سا ہوجاتا ہے جب کسی بچے کے خواب ٹوٹ کر بکھرتے ہیں۔ زندگی کے ان لمحوں میں جب اس کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ خواب بُنے۔ خوابوں کی ان لڑیوں میں اس کے پاس خیال امڈ آتے ہیں۔ ان خیالوں سے اس کا ذہن زرخیز ہوتا ہے۔ پیاراس ذہن کے لیے آبشاروں کی مانند ہوتا ہے جس سے دریا وندیاں بہتی ہیں، زمین سونا اگاتی ہے۔
ہمارا سماج بچوں کا مقتل ہو جیسے۔ لاہور میں دس سال پہلے ایک پاگل پکڑا گیا جسکے پاس درجنوں بچوں کی لاشیں پائی گئیں، وہ بچے کسی امیر زادے کے بچے نہ تھے۔ قصور میں ایک ذہنی بیمار، چھوٹی بچیوں کو کھلونوں اور ٹافیوں کے بہانے بہلاتا پھسلاتا تھا اور پھر ان سے زبردستی کر کے، بیدردی سے مارکر ان کی لاشیں پھینک دیتا تھا، وہ بچیاں امیر زادوں کی بچیاں نہ تھیں، جو خودکش حملہ آور بنائے جاتے تھے وہ کون تھے۔ کئی نومولود بچے ہیں جو اپنے زندگی کے پہلے سال میں ہی میں مر جاتے ہیں۔ کتنے سارے بچے ہیں جوکہ کم غذا لیتی ہوئی مائوں کی بچے ہیں جو ذہنی معذوری اجداد سے لے کر آتے ہیں۔
میری زوجہ، زچہ وبچہ امراض کے شعبے کی پروفیسر ہیں۔ reproductive health اس کا سبجیکٹ ہے ماں اور بچے کی جسمانی صحت کے حوالے سے ڈیٹا ترتیب دیتی ہے، جوکہ ان بچوں اور مائوں کی صحت سے وابستہ ہے۔ بس ایک چھوٹا سا حصہ ہے، اس مجموعی داستان کا جو بچوں اور مائوں کی آپ بیتی کہانی ہے، یہ سب مائیں اور بچے کسی امیرگھرانے سے نہیں۔
جب سماج ٹوٹتے ہیں، خود غرضی عروج پر ہوتی ہے نہ کوئی سنتا ہے، نہ اس کا کوئی رکھوالا ہوتا ہے تو پھر ایسے سماج میں خانہ جنگی، قحط، بھوک اور افلاس کے بادل منڈلاتے ہیں تواس کا شکار سب سے زیادہ بچے اور عورتیں ہوتی ہیں کیونکہ پھر تہذیب کا قانون نہیں چلتا ہے۔ اس طرح کی کہانی تو تھی امرائو جان کی یا اس لڑکی کی فلم "موسم" میں جب باپ کو ضمیر ڈستا ہے تو وہ اس وادی میں واپس لوٹ آتا ہے جہاں طالب علمی کا زمانہ اس نے گزارا تھا تو اس کی وہ محبوبہ تو پاگل ہوکے مر بھی گئی تھی اور بیٹی نے کسی کوٹھے پے زندگی پائی تھی یا پھر وہ منٹوکی وہ تانگے والی جس کا شوہر تانگہ چلاتا تھا، اس کے مر جانے سے اس نے خود تانگہ چلانا شروع کیا مگر سماج میں جرات نہ تھی، تہذیب نہ تھی بلآخر اس عورت نے بھی پناہ کوٹھے پر پائی۔
کتنے سارے بچے ہیں، جو بچپن میں ہی جبرأ کام سے لگ جاتے ہیں، کسی موٹر مکینک کے پاس، گلیوں میں چنے بیچتے ہیں، ہوٹلوں پر بیرے بن جاتے ہیں اور میرے گائوں میں یہ وڈیروں کے گھروں میں کام کرتے ہیں اور پھر آج کل بچے مدرسے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ اسکول کام کے نہیں رہے ہیں۔ رتوڈیرو میں ایسے بچے HIV+ کے شکار ہو جاتے ہیں۔
کتنی طویل داستان ہے یہ ایسا لگتا ہے آج کہ میرے پاس الفاظ کم پڑگئے ہیں۔ لکھتے ہیں آج ریحان کے حوالے سے جو لیاری کا رہنے والا تھا، پیشے سے قصائی تھا عمر اس کی پندرہ سال تھی۔ عید الاضحی کا زمانہ تھا، یہ اس کے کام کے حوالے سے بہترین دن تھے وہ کہتا ہے میں اس گھر سے اپنی مزدوری کے پیسے لینے گیا تھا۔ بہادر آباد کے اس گھرکے رہنے والے کہتے ہیں وہ ان کے گھر پر چوری کرنے دیوارکود کر آیا تھا، اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا جو فرار ہوگیا۔ اس کی ویڈیو وائرل ہوگئی اس نے ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا " اپنا ٹائم آئے گا" اس کو برہنہ کرکے، گھرکے گارڈ نے مارنا شروع کیا پھر اس نے پڑوس کے لوگوں کو بلا کر اس پر چوری کا الزام لگایا وہ اسے پولیس کے حوالے نہیں کرتا ہے تشدد سہتے سہتے آخر کار وہ مر جاتا ہے۔ کئی خواب ادھورے چھوڑ جاتا ہے۔ بمعہ اس خواب کے جو اس ٹی شرٹ پر آویزاں تھا " ایک دن اس کا آئے گا۔ " اس کی بھی کوئی ماں ہوگی۔ ریحان نے اسکول جانا کیوں چھوڑا، وہ چھوٹی سی عمر میں قصائی کیوں بنا؟ طرح طرح کے سوال ہیں جو پس منظر میںہیں۔ پولیس نے ان قاتلوں کو پکڑکرکیوں چھوڑا؟ وہ اگر چور بھی تھا تو اتنی بڑی سزا کیوں؟ اور اگر اتنی بڑی سزا بھی تھی توکون سی عدالت میں اس کا مقدمہ چلا؟
میں سمجھتا ہوں کہ میں ہوں ریحان کا قاتل۔ ہم سب ہیں ریحان کے قاتل۔ جو چپ چاپ روز یہ تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور اسے زندگی کا معمول سمجھ کرآگے گزر جاتے ہیں، کیونکہ ریحان میرا بچہ نہ تھا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ایسے بچے اگر چور بھی بنتے ہیں تو کیوں بنتے ہیں؟ اور اگر کوئی روٹی چوری کرے تو سوال یہ نہیں کہ اس نے چوری کی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ سماج کتنا کٹھوراور غیر منصفانہ ہے؟
آج ہم نے لوگوں پر ٹیکسوں کے پہاڑ گرا دیے ہیں ان غریب لوگوں پرکیونکہ امیر ٹیکس نہیں دیتے اور غریب پھر غریب تر ہو جاتے ہیں۔ ان کے گھروں سے آٹا ختم ہو جاتا ہے، وہ چوری روٹی کی نہیں تھی وہ چوری امیروں کے ٹیکس کی چوری تھی۔ اتنی مہنگائی کیا ہم نے کبھی سوچا، کتنے خواب ان غریبوں کے بچوں کے ٹوٹ گئے ہیں۔ کتنے خاندان اجڑ رہے ہیں۔
عجیب میری تعلیم ہے۔ گھر سے لے کر اسکول تک۔ ہم اجداد سے قاضی ہیں، صدیوں پرانے اس شعبے سے تعلق رکھنے والے۔ ہمارے چچا بڑے زمیندار تھے اور بڑے وکیل بھی۔ عدالت بھی جاتے تھے تو فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔ میرے بڑے بھائی کی گھڑی گائوں کی بیٹھک (اوطاق) سے گم ہوئی اور نوکر پکڑا گیا۔ پھر بہت لوگوں کا ہجوم تھا جس میں اس کو مارا پیٹا گیا اچانک چچا کا وہاں سے گزر ہوا ایک دم سب کو ڈانٹا، اس کی جان بچائی اور کہا کہ اس گھڑی کے پیسے میں دوں گا۔ میرے لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ میرے گھر کی چوکھٹ پر اگرکوئی خیرات لینے والا آجاتا تھا اور اسے ہم بچوں میں سے کوئی ڈانٹ دیتا تھا تو میرے بڑے بہت ناراض ہوتے تھے۔
ہمیں اپنا بیانیہ بنانا ہو گا، ان بچوں کے نام کرنا ہو گا۔ اس طرح جو میں نے ایک کتاب آج سے چالیس سال پہلے اسی پندرہ سال کی عمر میں پڑھی تھی ـ "Village children of Soviet union"" سوویت یونین کے گائوں کے بچے کی۔ دوسرے جنگ عظیم میں لگ بھگ دوکروڑ روسی مارے گئے تھے۔ بیوہ عورتیں تھیں، بچے تھے اور پھر ان بچوں کے لیے ریاست نے بیانیہ دیا "بچے سب سے اچھے" بچہ جب بس میں چڑھے تو سب جھک کر اس کو خوش آمدید کہتے اس کے لیے اپنی نشست چھوڑ دیتے۔
ریحان کا واقعہ ہمارا ضمیر کو ہلانے کے لیے کافی ہے کہ ایک دن میں بھی نیلسن منڈیلا کی طرح اپنی زندگی کے آخر دن گائوں کے اسکول کے نام کروں گا، بچوں کو جمع کروں گا، انھیں پڑھائوں گا، لکھائوں گا۔
میرے زندگی کے ختم ہونے کے بعد تو میں کسی کا بھی نہیں ہونگا، کائنات میں کائنات کے لاشعور میں چلا جائوں گا۔ وہ میرے بچے جو مجھے یاد کرنا چاہیں تو یاد توکرسکتے ہیں مگر میں سب سے الگ تھلگ ہوجائوں گا۔ یہ سب میرے بچے ہیں، ہم سب کے بچے، ان سے اپنے بچوں کی طرح اگر پیار نہیں کر سکتے، کم ازکم اپنے بچوں کی خاطر کچھ نہ کچھ ان کے لیے بھی ہونا چاہیے۔