عید قرباں کی آمد آمد ہے۔ بے شک قربانی کے اس فریضے سے بڑا کون سا فریضہ ہو گا، مگر عین اس وقت جب کورونا بھی ساتھ ساتھ موجود ہو تو بڑا مشکل ہو گا یہ فریضہ نبھانا، جب یہ مانی ہوئی حقیقت ہے کہ کورونا وائرس جانوروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔
یہ وائرس ان کو لگ کر کچھ بھی کر سکتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جانوروں میں ان وباؤں سے لڑنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ بڑی خاموشی سے یہ جانور کورونا کو انسانوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔ یہ قربانی کے جانور ایک دوسرے سے فاصلے پر بھی نہیں رکھے جاتے، ایک ہجوم کا سا سماں ہوتا ہے، گلی گلی کوچہ کوچہ۔ رمضان کی عید میں بھی ہجوم ہوتا ہے، بازاروں میں گلیوں میں اور محلوں میں مگر قربانی کی اس عید پر تو انسانوں کے ساتھ یہ جانور بھی گھل مل جاتے ہیں، سب ٹھیک ہے سب صحیح ہے مگر کیا کیا جائے کہ قربانی کا فریضہ بھی ادا ہو اور وبا بھی نہ پھیلے۔
بڑی بڑی وبائیں جو اب تک دنیا میں پھیلی ہیں ایڈز سے لے کر چیچک، چیچک سے لے کر طاعون اور طاعون سے لے کرکورونا تک سب جانوروں کے ذریعے پھیلی ہیں اور جو بھی انسانوں کو بیماریاں لگتی ہیں ان کا تیسرا حصہ ان وباؤں پر مشتمل ہے۔ ایڈز کی وبا بندروں سے پھیلی۔ انفلوینزا سوروں اور مرغیوں سے پھیلا۔ طاعون چوہوں سے اور کورونا چمگادڑوں سے۔ پہلے یہ بیماریاں جانوروں کو جانوروں سے منتقل ہوتی ہیں، گھوڑوں میں یہ زیادہ پائی جاتی ہیں اور پھر یہ زیادہ ان لوگوں کو لگتی ہیں جو جانوروں کے قریب رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فارم ہاؤسز میں کام کرتے مزدور، بھینسوں کے باڑوں میں کام کرنیوالے لوگ جو بھینسوں کا دودھ نکالنے کے کام پر مامور ہوتے ہیں۔
پولٹری فارمز پر کام کرنے والے بھی اس وبا سے متاثر ہو سکتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ معاشی مفادات سے بڑھ کر اس دنیا میں انسان کے لیے کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ کورونا وائرس کے محققین اب اس بات کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کورونا کی ایک اور بڑی لہر آئے گی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ وبا اب کے دیہاتوں میں زیادہ پھیلے۔
احتیاط کرنا ہم پر لازم ہے، W.H.O بھی یہی کہتا ہے کہ ہم کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ کورونا وائرس جا رہا ہے۔ وہ اب بھی اسی شدت سے یا شاید اس سے بھی زیادہ شدت سے موجود ہے۔ ہاں مگر یہ پھیلتی ہوا سے ہی ہے۔ چھونے سے اس کا پھیلاؤ اتنا شدید نہیں جتنا پہلے سمجھا جا رہا تھا، اس لیے اگر کوئی اور بے احتیاطی ہو بھی جائے مگر ماسک کا پہننا لازمی ہے۔
کورونا کی تباہ کاریوں نے جو بھی نقصانات پہنچائے جیسا کہ بیروزگاری بڑھی، دنیا کی معیشت بیٹھ گئی، مہنگائی کے آسمان ٹوٹ پڑے، اشیائے خورونوش مہنگی ہوئیں بلکہ ان کی قلت پیدا ہو گئی مگر جو نقصان بچوں کی تعلیم کا ہوا اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا کہ اسکول بند ہوئے اور کھلتے کھلتے لگ بھگ آدھا سال گزر جائیگا۔ حکومت کا وعدہ ہے کہ پندرہ ستمبر تک بچوں کے اسکول کھول دیے جائینگے مگر اس وعدے کا بھی کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اسکولوں کا کھلنا کورونا سے مشروط ہے اور اگر قربانی کی عید میں بے احتیاطی ہوئی جیسا کہ رمضان کی عید کے بعد کورونا میں تیزی آئی تھی تو پھر اسکولوں کا معاملہ اور بھی آگے چلا جائیگا۔
مگر آج کے بچے ہم سے بہتر ہیں۔ ہمارے زمانے میں صرف پی ٹی وی کا ایک ہی چینل ہوا کرتا تھا اور وہ بھی شام کو شروع ہو تا تھا۔ نشریات کے آغاز سے پہلے ایک سیٹی سی بجتی تھی پھر مدھم سی ایک موسیقی کی شروعات ہوا کرتی تھی اور پھر دینی پروگرام۔ یہ نشریات مشکل سے چھ یا سات گھنٹے چلا کرتی تھی، ہم کارٹون پروگرام کا بڑا انتظار کرتے تھے۔ میرے گھر میں بہت سے اخبارات آیا کرتے تھے، بہت بڑی لائبریری تھی، گھر میں سب پڑھنے میں مصروف ہوا کرتے تھے اور ابا گھر کے ساتھ ہی اپنے چیمبر میں وکالت اور قانون کی کتابوں میں الجھے رہتے تھے۔
آج کی پیڑھی کے پاس ہمارے بچپن کے کھلے میدان نہیں۔ ان کا انحصار اب صرف پی ٹی وی پر نہیں اور پی ٹی وی بھی وہ تھا جو صرف ایک چینل تھا اور وہ بھی چھ یا سات گھنٹوں کی نشریات تک محدود۔ آج سیکڑوں چینل ہیں، سوشل میڈیا، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، یو ٹیوب سے لے کر طرح طرح کے سرچ انجن جیسا کہ گوگل۔ پہلے لندن ولایت کہلاتا تھا اب زیرو فاصلے پر ہے، آپ اگر واٹس اپ پر ہیں۔ کس طرح سرحد یں تحلیل ہو گئیں، کورونا کی وبا ووہان (چین) سے چلی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت تیزی سے آن لائن تعلیم کا رجحان بڑہ رہا ہے۔ اب Distnce learning کا زمانہ ہے۔ ہر گھر میں windows موجود ہیں، جب چاہیں آپ اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو کھول سکتے ہیں، لیپ ٹاپ بھی کیوں آپ کا اسمارٹ فون ہی کافی ہیں۔ یوٹیوب چینل کھول سکتے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا اگر پی ٹی وی یا پھر کوئی چینل آپ کو سچ نہیں دکھاتا اب سچ خود راہیں متعین کر لیتا ہے۔ بچوں کے اسکول تو بند ہو گئے۔ والدین اساتذہ بن چکے ہیں۔
کئی اسکولوں نے آن لائن کلاسز بھی شروع کر دی ہیں مگر غریب کا بچہ کہاں جائے۔ ملک کے اندر آٹے کا بحران اب اپنی جڑیں مضبوط کر گیا ہے۔ حکمرانوں کی نا اہلیاں ہیں جو افراط زر کا سبب ہیں۔ غریب صرف ایک روٹی ہی کماتا ہے۔ نان کی قیمت پہلے سالوں بعد بڑھتی تھی، یہ حکمران آئے تو قیمت پہلے مہینے بعد اور اب ہر ہفتے بعد تبدیل ہوتی ہے۔
ایک طرف کورونا ہے اور دوسری طرف بہت تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا۔ چین اور امریکا کی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ پہلے ہم امریکا کی سویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ تھے۔ اب بدنصیبی سے ہماری جغرافیائی حقیقتیں ہمیں چین اور امریکا کے اس میدان جنگ میں دھکیل سکتی ہیں۔
مودی بہت تیزی سے اپنی خارجہ پالیسی اور جارحیت کی وجہ سے ہندوستان کو یرغمال کرتے کرتے اسے تنہا کر گیا۔ اب چین کا زیادہ جھکاؤ ایران کی طرف ہے۔ وہ ایران کے لیے سی پیک سے بڑا پروجیکٹ لے کر آ رہا ہے۔ امریکا نے ایران کو دیوار سے لگا دیا۔ ایران ایک کمزور ملک ہے کیونکہ اس ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔ ہمیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری جمہوریت اور ہماری جمہوری اقدار ہماری ملکی سا لمیت کے لیے ایک مضبوط ہتھیار ہیں۔ آ نے والے د ن ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ پاکستان کو پچھلی سرد جنگ کا بڑا گہرا تجربہ ہے، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں توازن رکھنا ہو گا کیونکہ یہ ہمارے معاشی مفادات کے لیے بہتر ہے۔