لا ک ڈائون ہونا چاہیے یا نہیں؟ اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ پہلے لوگوں کی زندگیوں کو بچایا جائے، بیروزگاری و معیشت کو بعد میں دیکھا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ معیشت بیٹھ گئی، بیروزگاری بڑھ گئی تو حالات مزید بگڑیں گے اور لاک ڈائون میں طول ملک کو اور زیادہ مشکل میں ڈال دیگا۔
اس وقت کورونا کی وبا بہت تیزی سے امریکا میں اپنے پنجے گاڑھ رہی ہے اور ا س حوالے جو بحث اسوقت ٹرمپ کررہے ہیں کہ امریکاکو لاک ڈائون سے آزاد کیا جائے وہ آہستہ آہستہ دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ بحث ان ممالک میں بھی ہے جہاں خواندگی کی شرح لگ بھگ سو فیصد ہے۔ ان کے لوگ شعور رکھتے ہیں اور وہاں لاک ڈائون کی پالیسی کامیاب گئی ہے۔
ہمارے یہاں تو ماجرہ ہی کچھ اور ہے۔ اسوقت جو معاشی جھٹکا اس حوالے سے دنیا کے امیر ملکوں کو لگا ہے وہ سو سالہ ریکارڈ توڑتا ہوا نظر آرہا ہے یعنی 1930کے گریٹ ڈپریشن کے بعد یہ دوسرا بڑا معاشی بحران ہے اور یہ دنیا کا واحد معاشی بحران ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ بحران شاید پاکستان کی تاریخ کا پہلا بحران ہو یا ہو سکتاہے کہ 1965 کی جنگ یا 1971 کی جنگ کے زمانوں میں ایسا ہوا ہو لیکن اس سال ہمیں جو آئی ایم ایف اور دوسرے ڈونرز کو بارہ ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی کرنی تھی وہ موخر کر دی گئی ہے اور 1.4 ارب ڈالر کا قرضہ بھی دیدیا گیا ہے اور ہم نے شرح سود تیرہ سے کم کر کے نو فیصد کر دی ہے۔
ہمارے ہاں بڑے زمانے کے بعد افراط زر نیچے آنا شروع ہوا ہے۔ ہم نے تعمیرات کی صنعت کو بھی بہت چھوٹ دی ہے۔ ہماری مجموعی لیبر، ہماری زراعت کو لگ بھگ 54 فیصد تک کوجذب کرتی ہے لہٰذا ان کو اتنی بڑی مشکلات کا سامنا نہیں۔ ہاں مگر ہمارے یہاں بیروزگاری ایک بہت بڑا بحران بن کر سامنے آسکتی ہے کورونا کی روک تھا م کے حوالے سے جو چند بدترین ممالک اس دنیا میں ابھر کر سامنے آئے ہیں، ہمارا شمار بھی انھیں ممالک میں ہوتا ہے۔ پہلے ہم نے تافتان کا بارڈر کھول دیا، جو زائرین ایران گئے تھے۔ جو زائرین ایران گئے تھے ان میں سے بھی کئی وائرس کا شکار تھے۔
کورونا کے پھیلاؤ کی دوسری سب سے بڑی وجہ رائیونڈ کا اجتماع تھا چونکہ یہ اجتماع تھا لہٰذا یہاں کوروناکی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا مشکل تھااورلوگوں کے درمیاں خاطر خواہ فاصلہ رکھنا تو ناممکن تھا۔ اسی اجتماع سے آئے ہوئے لوگ جو بعد ازاں تبلیغ کے لیے نکل پڑے، ان بیچاروں میں کوروناپازیٹو تھا۔
اس وقت توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہماری کچی آبادیوں میں جس طرح سے لوگ رہتے ہیں وہاں اگرلاک ڈائون کر بھی دیا جائے تو بھی اس کے نتائج خاطر خواہ نہیں ہو سکتے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں دس دس افراد رہتے ہیں او ر اس طرح ان کے لیے ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے، دوسرا رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور یہ مہینہ اجتماعی عبادات کا مہینہ ہے۔ ایک دوسرے کے قریب آنے کا مہینہ۔ مساجدہوں یا گھر ہوں ہم وہ درکار فاصلہ نہیں رکھ سکتے۔
بازار جانا، اسپتال میں جانا، ٹرانسپورٹ کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا، یہ سب چیزیں کورونا کو کھلم کھلا دعوت دیتی ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے دوسروں میں بھی منتقل ہو جائے۔ جناح اسپتال کراچی میں گذشتہ چند دنوں میں ایسے کئی مریضوں کو لایا گیا جنکی بیماری کی علامات کورونا سے قریب تر تھیں۔
اہم بات اس وقت یہ ہے کہ ہمیں بیشک صحیح معنوں میں پتا نہیں کہ کتنے لوگوں کو یہاں کورونا وائرس لگ چکا ہے۔ ہمارا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے پاس لاک ڈائون کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اس لاک ڈائون کو کیسے کامیاب بنائیں کہ لوگ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ سکیں۔ ماسک پہنیں اور ہاتھ بار بار دھوئیں۔
ہمیں یہ بات بھی سمجھ آئی کہ وہ سندھ حکومت جو اپنی صوبائی حکومت کا تیسرا دور پورا کرنے جارہی ہے جسکی کارکردگی ان تین ادوار میں کسی بھی لحاظ سے بہتر نہ تھی بلکہ بری حکمرانی کے حوالے سے اپنا نام رکھتی ہے مگر کورونا پر ایک بہتر حکمت عملی بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور جب ان کے سامنے وفاق کا مؤقف آیا تو لوگوں نے سندھ حکومت کی سو چ کو بہتر سمجھا، سوائے ان لوگوں کے جن کے لاک ڈائون اٹھا ئے جانے میں کاروباری مفادات تھے۔ یقینا وفاق کا احساس پروگرام سندھ میں راشن دینے والے پروگرام سے بہت ہی بہتر تھا مگر دونوں نے بڑے اجتماع کیے اور کورونا پھیلانے کا سبب بنے۔
ہم لوگوں کے صحیح کورونا ٹیسٹ کرنے میں ناکام ہوئے۔ ہم قرنطینہ مراکز کو منظم طریقے سے چلانے میں بھی ناکام ہوئے۔ ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس دینے میں بھی ناکام ہوئے۔ اب یہ کوروناکچی آبادیوں تک پہنچ چکا ہے ا ور ہم اس وقت لاک ڈائون ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ قدم پھر ایک بہت بڑے بحران کو دعوت دینے کے برابر ہوگا۔ ایک ایسی بحث جو ایک بیانیہ بن رہی ہے، وہ ہمیں دلدل میں اتار دے گی۔ اس تناظر میں وزیر اعظم اور وزیراعلی سندھ کے درمیان جو ٹکرائو کی کیفیت رہی جوکہ کسی بھی طرح ملکی مفادکے لیے مثبت نہ تھی۔ بس دو، تین وفاقی وزراء کو اشارہ دے دینا کہ وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو جواب دیتے رہیں، یہ کسی بھی سنجیدہ سیاستدان کا کام نہیں تھا۔
آنے والے دنوں میں کورونا کے حوالے سے بڑی ہی سنجیدہ صورتحال نظر آرہی ہے اور اس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ خود کو نظرانداز کرنا ہے، ناخواندگی ہے اور غربت ہے۔ کوروناکا پھیلاؤ ان جگہوں پر زیادہ ہوگا جہاں کچی آبادیاں ہیں، چھوٹے چھوٹے گھر ہیں، فلیٹس ہیں اور رہنے والے افراد زیادہ ہیں۔
یہ خان صاحب کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، جس طرح سے ان کو بین الاقوامی قرضہ دینے والے اداروں سے چھوٹ ملی ہے، بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو آن بورڈ لیں۔