بہت سی بحثیں چھڑ گئیں کہ مودی نے یہ ثابت کردیا کہ جناح کا دو قومی نظریہ صحیح تھا۔ مگر کسی نے یہ نہیں سوچاکہ بہت کچھ بدل چکاہے۔ 1940 کے دیے ہوئے اس نظریے کو اسی سال آن پڑے ہیں اور گیارہ اگست کی تقریر جو جناح نے آئین ساز اسمبلی میں کی تھی۔ نہ کوئی عیسائی رہا نہ ہندو نہ مسلمان سب سے پہلے ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں اور ایک قوم ہیں سب کو اپنے گرجا گھر، مندر اور مسجد جانے کی اجازت ہے کہ ہم آزاد ہیں اپنے مذھبی عقیدوں میں۔
سب سے بڑی بات کیسے نکل پڑا ہے پورا ھندوستان مودی کے خلاف، وہ مودی جو ھندوستان کے آئین کے Preamble کو چھیڑ بیٹھا تو سارا ھندوستان اس آئین کے Preamble کا محافظ بن بیٹھا۔ ہندوستان کے آئین کو ستر سال گزر چکے اور بڑے نشیب و فراز سے گزرا، ھندوستان کا آئین۔ اندرا کی ایمرجنسی بھی دیکھی، نہرو تک یہ بھی خاموشی سے برداشت کیا، سپریم کورٹ نے کہا چلو ٹھیک ہے پارلیمینٹ سپریم ہے مگر پھر کیشوندا کیس نے بل آخر یہ باور کروا دیا کہ پارلیمینٹ سپریم نہیں ھندوستان کا آئین سپریم ہے۔
ھندوستان کے آئین کے Preamble میں سیکولر زم کا لفظ 1976 تک نہ تھا، یہ لفظ ان کے 42 ویں آئینی ترمیم کے ایکٹ کے تحت اس کا حصہ بنا اور کورٹ سیکولر زم کی تشریح، ھندوستان کی سپریم کورٹ، ان کے مذہبی آزادی کو بنیادی حق ماننے والے آرٹیکل 25 سے لے کر 28 تک سے مدد لیتی تھی۔ ہمارے ہاں آرٹیکل 20 بھی یہی کچھ کہتا ہے جس پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک سؤ مؤتو پٹیشن میں پہلی بار تشریح کی گئی۔
دو قومی نظریہ اور اس کا تاریخی حوالے سے تناظر ہی کچھ اور ہے۔ اور اب اگر اس کی بات ہو گی تو اس کا مطلب کچھ اس طرح ہے جس طرح ایک پولیس والا مظاھرہ کرتے ہوئے ایک مسلمان پر ڈنڈے برساتے یہی کہہ رہا تھا "ابے سالے ھندوستان چھوڑ جائو" اور ہم نے بھی جو اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیا وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ 1947 میں یہاں 14 فیصد اقلیتیں آباد تھیں۔ مغربی پاکستان میں لگ بھگ 6 فیصد اقلیتی عوام رہتی تھی اور اب یہ اقلیتیں مجموعی طور پر 1.85 فیصد بھی نہیں رہیں۔ جب کہ ھندوستان میں آج بھی سترہ کروڑ مسلمان پونے تین کروڑ کرسچن، دو کروڑ سکھ ایک کروڑ بدھ اور پچاس لاکھ جین مذھب کو ماننے والے رہتے ہیں۔ اورلگ بھگ سوا دو کروڑ ھندو نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے بھی رہتے ہیں۔
ھندوستان میں ان ھندوؤں میں کانگریس پارٹی کو ووٹ دینے والے آج بھی بیس فیصدہیں۔ کل ووٹ جو مودی کی بی جے پی کو ملے وہ آج بھی اپنی انتہائی مقبولیت رکھتے ہوئے بھی 37.4 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ مختصرأ یہ کہ ایسے کئی ہندو ہیں جو سیکیولر سوچ رکھتے ہیں وہ آج بھی ان مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ھندوستان نہیں چاہتا کہ اس کی ھندو شناخت ہو۔ ھندوستان اپنی شناخت اب بھی سیکولر چاہتا ہے اور یہ فیصلہ بھی بلآخر سپریم کورٹ ہی کریگی۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ پر اس پر بہت بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ آیا پارلیمینٹ سپریم ہے یا آئین۔
بہت تیزی سے مودی نے ھندوستان کو فتح کرنا چاہا جس طرح جنرل ضیاء الحق نے یہاں چاہا تھا۔ ٹھیک ہے ہم جنرل ضیاء الحق کے لائے ہوئے فوجی انقلاب کے خلاف سڑکوں پر نہ نکلے تھے مگر جب بینظیر 1986میں لاہور ائرپورٹ پر اتری تو بات ثابت ہو گئی کہ کتنا مقبول تھا جنرل ضیاء الحق۔
جب مودی پہلی مرتبہ جیت کے آئے تھے تو انھی صفحات پر میں نے دو چار مضمون لکھے تھے اور اس کو ہٹلر سے مشابہت دی تھی۔ مودی ھندوستان کے مسلمانوں کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہے جس طرح ہٹلر جرمنی کے یہودیوں کو دیکھتا تھا۔ مگر پھر بھی بہت فرق ہے۔
ہم تاریخ کی مثال کو کاربن کاپی کر کے آج کے کسی بھی واقعے سے نہیں جوڑ سکتے۔ ہر ایک حقیقت کے اپنے پہلو ہوتے ہیں۔ ہر واقعے کے ساتھ تاریخ کی کچھ مثالیں کہیں نہ کہیں مشابہت رکھتی ہونگی مگر عین اسی طرح واقع نہیں ہوتا۔
آج جو کچھ بھی مودی نے ھندوستان کے ساتھ کیا ہے وہ کسی پہلو سے بھی اول تو دو قومی نظریہ کی کاربن کاپی نہیں اور جو بھی ہوا ہے اس کو آج پورا ھندوستان للکار چکا ہے۔ یہ جنگ کسی پانی پت کے میدا ن میں نہیں بلکہ یہ جنگ وہاں کے طلبہ و اساتذہ لڑ رہے ہیں۔ قلم کی نوک سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے پاس آج فیض احمد فیضؔ کے اشعار ہیں۔ وہ حبیب جالبؔ کے اشعار کو اپنی مشعل سمجھتے ہیں۔ ھندوستان نے مسلسل جمہوریت دیکھی ہے، آزاد خارجہ پالیسی دیکھی ہے۔ ہم نے شروع دن سے مقید خارجہ پالیسی دیکھی اور جو جمہوریت دیکھی بھی ہے وہ بھی معذور۔ انھوں نے اپنے ملک کو آئین دو سال میں دیا اور ہمیں پچیس سال لگ گئے اتنی دیر کی کہ ہمیں اپنا آدھا ملک گنوانا پڑا۔ کانگریس نے سالوں تک مشرقی پاکستان کے جانے کے بعد یہی کہا کہ جناح کے دو قومی نظریے کو شکست ہوئی۔
دو قومی نظریہ تو جناح کا بھی نہ تھا، یہ تو اصولی طور پر نہرو اور ولبھ بھائی پاٹیل کا تھا 1937کے انتخابات جیتنے کے بعد کانگریس نے کس طرح مسلم لیگ کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کی انحرافی کی۔ وہ جناح جو لندن سے لوٹنے کے بعد کانگریس کے ممبر بنے۔ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے تھے۔ لکھنؤ معاہدہ خود اس بات کی اہم دلیل ہے۔ وہ جناح جو علیگڑہ یونیورسٹی کے قیام پر تنقید رکھتے وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ھندوستان کی آزادی کے دائرے میں ھندو اکثریت کے ساتھ شانہ بشانہ چلیں۔
صحیح کہتے ہیں مولانا ابو الکلام آزاد کے پاکستان جناح نے نہیں نہرو اور پاٹیل کی گھمنڈ اور تعصبانہ سوچ نے بنایا۔ جناح کے بعد 1937کے الیکشن کے بعد اور کوئی چارہ نہ تھا، وہ مسلم لیگ کو اقتدار میں شراکت وعدے کے مطابق دینے کو تیار نہ تھے۔ یہ وہ مسلمان تھے جنھوں نے پانچ سو سال ھندوستان پر حکومت کی تھی، جن سے چھینا تھا انگریز سامراج نے ھندوستان۔ 1857 کی پہلی آزادی کی جنگ کی قیادت کسی اور نے نہیں مسلمانوں نے کی تھی۔
دو قومی نظریے کا سفر 1937 سے شروع ہوا۔ دو قومی نظریہ جدوجہد کا نظریہ تھا۔ انتہا پسند ھندو سوچ کے سامنے دفاع کا نظریہ تھا، وہ نفرت اور انتہا پسندی کا نظریہ نہیں تھا۔ وہ ھندوستان میں بستی اقلیت کا اکثریت کے سامنے اپنا دفاع تھا۔ اگر انگریز سامراج کو اچانک تیزی سے جانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ یہ بٹوارہ دو مہینوں کے اندر سر ریڈ کلف نے نہیں کیا ہوتا اگر نہرو نے پاٹیل اور گاندھی کا کہنا مانا ہوتا جناح اور مسلم لیگ کو اقتدار میں شراکت دی ہوتی تو بہت مختلف ہوتا ھندوستان آج۔
گاندھی کو کس نے مارا! اسی آر ایس ایس کا ایک سرگرم تھا جس نے ولبھ بھائی کی ذاتی گفتگو میں برا بھلا کہنے کو یہ اشارہ سمجھ بیٹھا کہ گاندھی کی جان لی جائے۔ وہ گاندھی جس نے بھوک ہڑتال اختیار کر لی کہ پاکستان کو اثاثوں کی تقسیم میں ملا ہوا حصہ دیا جائے۔ وہ کشمیر پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے مگر آج تک کشمیر کے لوگوں کی دلوں کو جیت نہ سکے، اور اب وہ پورے ھندوستان کو یرغمال کرنا چاہتے ہیں۔
غور سے دیکھا جائے بی جے پی ظہور پذیر اس وقت ہوتی ہے جب یہاں جنرل ضیاء الحق اس ملک میں انتہا پرستی، مذھبی جنونیت لے کر آئے۔ یہ بی جے پی کے لیے اچھا شگون تھا، انھوں نے خوب کھیلا۔ یہاں پر ھندوستان دشمنی سے دائیں بازو کی سیاست چمکی اور وہاں پر پاکستان دشمنی اور مسلمان دشمنی پر۔
آج ھندوستان جاگ رہا ہے اور آج پاکستان بھی۔ دونوں طرف نفرتوں کی سیاست کرنے والوں کو شکست ہو گی۔ اور امن کی فضا قائم ہو گی اور اس امن کی آغوش سے نکلے گا ایک خوشحال برصغیر۔ ہمیں گاندھی کا ھندوستان بحیثیت پڑوسی چاہیے اور انھیں جناح کا پاکستان۔