مجھے یہ سب شاعرانہ باتیں لگتی تھیں کہ کوئی "موسم گل " بھی ہوتا ہے، تو کوئی پت جھڑ بھی، اپنے پیاروں کو کورونا میں دم توڑتے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہی ہوتا ہے پت جھڑ کا موسم۔ کئی سال پہلے شاید کسی کافکا کے خیال سے مخصوص ہوکر ایک نثری نظم مانند سطریں مجھ سے بھی تحریر ہوئی تھیں۔
میں کہ ہوں کوئی راہ
پت جھڑ کے موسم کی
لو ابھی دامن جھاڑا نہیں
کہ پھر زرد پتوں سے بھر گئی ہوں
کتنی تحریریں تھیں، فن پارے تھے، ادب اور آرٹ تھا جس نے دوسری جنگ عظیم میں جنم لیا تھا، جب روسی انقلاب آیا، اس سے پہلے اور اس کے بعد وہ جو گارشیا کا ناول تھا "اک پیار کالرا کے زمانوں میں "چیغوف خو د ایک ڈاکٹر تھا اور خود ہی وبا سے نہ بچ سکا بہت مختصر عمر پائی اس نے۔ اس کی تحریروں میں وہ سب عیاں ہے۔
واجد کا نگو میرا بہت ہی اچھا دوست اس کا کچھ دن پہلے لندن میں انتقال ہوا کورونا کے باعث۔ جس نے میری زندگی کی جیسے کایا ہی پلٹ دی۔ اسے کور ونا لے گیا اور کچھ ایسے کہ جیسے اک پلک جھپک کا کوئی منظر تھا۔ واجد اس پردے کا منظر بدلنے سے اس طرف چل پڑا، جہاں ہم سب کو جانا ہے اور کچھ فیصلے کور ونانے بھی کرنے ہیں کہ، کس نے کب جانا ہے۔
میرے دوست جو نیویارک میں تھے بمع اپنی زوجہ کورونا کا شکار ہوئے لیکن پھر شفایاب بھی ہوئے۔ کچھ خبر بھی نہیں کہمیں یا پھر کون اس وبا کا شکار بن سکتے ہیں۔
واجد اور میں ہم عمر تھے، ایک ساتھ بینک میں کام کرتے تھے اور دونوں نے ہی بینک کو خیرباد کہا، وہ بلاخر لندن میں جا بسے اور میں آٹھ سال اسلام آباد میں رہنے کے بعد واپس کراچی میں آگیا اور وکالت جو کہ میرا خاندانی پیشہ تھا اس سے منسلک ہوا۔ وہ رات جو ہم دونوں نے ایک ساتھ اسلام آباد سے سکھر تک بذریعہ سڑک سفر کرتے ہوئے ایک ساتھ گذاری، یہ بائیس سال پہلے کی بات ہے وہ سکھر تک میری گاڑی چلاتا آیا۔ سکھر اترنے کے بعد کراچی تک گاڑی میں نے چلائی۔ وہ سفر جو ہم نے پوری رات جاگ کرکیا وہ اب ایک یاد بن کر رہ گیا۔ اسلام آباد کو میں نے ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔ یادیں کیسے پھر آپ کو ستاتی ہیں۔ آدمی اور کچھ بھی نہیں اپنے وجود میں پت جھڑ کا ہی موسم ہے۔ اتنا تھوڑا سا وصل اور طویل ہجر کی راتیں ! میں دو مرتبہ لندن گیا اور دونوں مرتبہ واجد سے نہ مل سکا، ایک تشنگی سی تھی جو اب ہمیشہ کے لیے رہ گئی اور اب اگر زندگی رہی تو واجد کی قبرپر ضرور جاؤں گا۔ میری بہت سی شامیں اور صبحیں اس کے پاس رہ گئی ہیں۔
دوست روز بروز دور ہوتے جارہے ہیں اور تم ابھی تک جی رہے ہو، کیسے تم آدمی ہو!
(شیخ ایاز )
کورونا اسی نیوریاک میں رہتی ہوئی ایک بڑھیا کی کہانی جو کہمیں نے ایک بار نیوریاک ٹائمز میں پڑھی تھی جو اپنے شوہر کو کھو بیٹھی ہے اس بوڑھی کے پیار کا فسانہ اس کا شوہر تھا جو رشتہ ازدواج میں بندھ گیا، اس نے وہ تحریر کیا اور پڑھتے پڑھتے میری آنکھیں بھر آئیں۔
ہم جیسے کسی ریلوے اسٹیشن کے ریٹائرنگ روم میں پھنس کر رہ گئے ہیں پلیٹ فارم پر چہل قدمی توکر سکتے ہیں مگر ہماری گاڑی کب آئے گی کچھ پتا نہیں۔ کب جائے گیا کورونا، کب بنے گی اس کی ویکسین، کب پھر زندگی معمول پر آئے گی کچھ خبرنہیں۔ دن بہ دن کورونا کی ماہیت کے بارے میں نئی نئی خبریں آرہی ہیں۔ طب کی تمام کتابیں چپ ہیں کوئی صحیح رہنمائی نہیں مل پارہی۔
یہ دنیا، یہ زمانہ اور یہ وقت جس میں ہم داخل ہونے جارہے ہیں اب وہ پہلے جیسے نہیں رہیں گے، نہ اب خوشی و غم کے اجتماع ہونگے، نہ کوئی بغیر بتائے گھر کی دہلیز پر دستک دے گا، نہ دوستوں سے بغل گیر ہو نگے، نہ کیفے خانوں میں مل کر بیٹھیں گے، نہ سنیما گھروں میں جائیں گے نہ جلسے ہوں گے، نہ لیڈر خطاب کر پائیں گے۔
بائیس اپریل کو دھرتی کا عالمی دن تھا۔ یہ دن ماحولیات کے حوالے سے بہت بڑا دن ہے۔ اقوام متحدہ نے بہت سے دنوں کو عالمی دن قرار دیا ہے، جیسے خواتین کا عالمی دن جس کی اہمیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے سماج مضبوط ہوتے ہیں، ان کے اندر شعور بڑھتا ہے یہ بھی لازم ہے کہ ان معاشروں میں آوازِ نسواں زور پکڑتی ہے۔ کورونا کے بعد جو سب سے اہم بحث عالمی سطح پرہونے جارہی ہے وہ ماحولیات کے حوالے سے ہوگی اور اس طرح بائیس اپریل یعنی دھرتی کے عالمی دن کی اہمیت بھی بہت بڑھے گی۔
کورونا، ماحولیاتی تبدیلی کی پیداوار ہے اور اس پر اب سائنس دان متفق ہوتے جارہے ہیں۔ یہ جانوروں کی وجہ سے پھیلا ہے کہ انسانوں نے جانوروں کا گوشت کھانے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ انسان نے فطرت میں بہت مداخلت کرنا شروع کر دی۔ یہ جو فطری تباہ کاریاں ہیں اس میں انسانوں کا اپنا ہاتھ زیادہ ہے۔ خاص کر کاربن گیسز کا اخراج اور اس کی بنیادی وجہ پیٹرول اور کوئلے سے پیدا کردہ توانائی کے ذرائع۔
دنیا بدل چکی ہے اوردنیا کی قیادت و ہی فرسودہ اور دقیانوسی خیالوں والی، مارکیٹ فورسز بھی و ہی۔ امیر و غریب کے طبقات، وہ ہی جنگیں اور بین الاقوامی ٹکراؤ بھی وہ ہی۔ مودی کورونا کو اپنی فرسودہ سیاست کے لیے ایک ذریعہ اور نعمت سمجھ کر استعمال کر رہا ہے اور وہاں کی اقلیتوں کو بالخصوص مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ ٹرمپ لوگوں کی توجہ اپنی نالائقیوں سے ہٹانے کے لیے چین پر وار کر رہا ہے اور ہمارے خان صاحب بھی کسی سے پیچھے کیوں رہیں وہ کورونا کو سندھ میں اپنے مخالفین کی حکومت کو گرانے کے لیے استعما ل کرر ہے ہیں۔ وہ ڈاکٹروں کی دی ہوئی ہدایات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں اور اس کے برعکس مساجد میں با جما عت نماز پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں جب کہ سعودی عرب سمیت بہت سے اسلامی ممالک پابندیاں لگا رہے ہیں۔
اگر یہ کورونا دو چار مہینے اس طرح چلا اور لاک ڈاؤن ختم کرنے سے مزید تیزی سے پھیلا تو یقینا حالات اور بھی خراب ہونگے اوراس کے برعکس اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو پھر خان صاحب ہیرو بن جائیں گے ورنہ زیرو مگر دوسری طرف اس کھیل کو کھیلنے کی بجائے اصول کی بات یہ ہے کہ ہماری تیاری، ہماری پالیسی صحیح ہونی چاہیے۔ احتیاط اس وقت لازمی بنتی ہے، ہماری معیشت پر اتنا منفی اثر نہیں آیا جتنا دنیا میں بہت سے ممالک پر آیا ہے۔ ہماری شرح نمو اتنی منفی نہیں ہوگی، جس طرح آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کہہ رہے تھے اور جو وہ کہہ رہے ہیں وہ بھی اتنی خطرناک صورتحال نہیں۔
سعودی عرب کی وہ آمدنی جو ہر سال حج اور عمرہ کے لیے آنیوالوں سے ہوتی تھی جو لگ بھگ پچاس ارب ڈالر بنتی ہے وہ بھی گھاٹے میں اور جو ڈھائی سو ارب ڈالر تیل سے بنتی تھی وہ بھی۔ ایسے ہی کئی ممالک کا حال خراب ہو چکا ہے اور ایسی ہزاروں کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے قریب آگئی ہیں۔
یہ بات نو شتہ دیوار ہے کہ دنیا اب وہ نہیں رہی، جو اس سے پہلے تھی صرف اور صرف تعاون اور نئے انداز زندگی ہم کو بچا سکتا ہے۔ مگر میرا دل اداس ہے واجد کانگو کی وجہ سے اور اب جب واجد میں لندن آؤں گا تو تم سے ضرور ملوں گا، تمہاری دہلیز پر ضرور دستک دونگا وہ جو چند پھول موسم گل کے جو ہوں گے، جب کورونا چلا جائے گا تمہاری دہلیز پر میں آؤں گا۔
جب لال پھول شاخوں پہ دوبارہ سے مہکیں گے
میرے دوست ہم تب ملیں گے
(شیخ ایاز)