خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد حزب اختلاف کے ساتھ یہ پہلی ملاقات ہے جو اسلام آباد کی گلیوں میں ہونے والی ہے۔ آپ ریاست مدینہ کے دعویدار ہیں اور سامنے والے بھی کچھ ایسی ہی سوچ کے حامل۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی کارڈ کے اصولی دعویدار تو مذہبی جماعت والے ہی ہوسکتے ہیں۔ بھلے ہی خان صاحب کتنی ہی مذہبی کتابیں پڑھیں یا پھر کوئی اور حیلہ بہانہ ڈھونڈیں، مذہبی کارڈ پر ان کا اصولی حق نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب مذہبی کارڈ استعمال ہوا، انھوں نے شراب پر پابندی بھی عائد کی اور اتوار کے بجائے جمعے کو ہفتہ وار تعطیل قرار دیدیا۔ دراصل ہمارے دو قومی نظریے کے اندر بھی ایک مذہبی کارڈ ہے جس نے قراداد مقاصد کی شکل اختیار کی۔ آئین سے بھاگنے کا خوبصورت موقع فراہم کیا۔ پھر کیا ہوا!! جنرل ایوب کو ہمارے لیاقت علی خان نے ایکسٹینشن دی۔ اسکندر مرزا نے تو ان کو وزیر داخلہ بنا دیا۔ پھر مارشل لاء بھی نافذ کیا اور اسطرح عزیز ہم وطنو کی پہلی مرتبہ باری آئی۔
وزیراعظم پر وزیر اعظم تبدیل ہوتے رہے۔ آئین ملا نہیں۔ صدر ایوب نے مضبوطی سے اقتدار تھاما اور امریکا کے پسندیدہ بن بیٹھے اور یو درباریوں کی قطار لگ گئی، سب نے اپنے اْلو سیدھے کیے۔ پھر تحریک چلی فاطمہ جناح اور ایوب خاں کا ٹاکرا ہوا۔ "مادر ملت " فاطمہ جناح غدار ٹھہریں اور ساتھ ہی ان کے ساتھ جو کھڑے تھے وہ بھی۔ گرد اتنی اْڑی کہ پھر اقتدار اپنی راہیں متعین کرنے لگا۔ وہ جو کل ایوب تھے اب جنرل یحییٰ تھے۔
اقتدار پھر جنرل یحیی ٰکی دہلیز پر تھا اور جنرل ایوب، اسکندر مرزا کی طرح یا پھر گورنر جنرل غلام محمد کی طرح اقتدار کے لیے بے معنیٰ ہوئے، درباریوں کا دربار لگا یہ ملک بے چارہ کب تک یہ ستم سہتا رہتا۔ مشرقی پاکستان ہم سے بہت مختلف تھا۔ ان کے پاس خان، وڈیرے، چوہدریوں اور نوابوں کی اجارہ داری نہ تھی۔ سیاسی شعور رکھنے والے تھے۔ ایک چھوٹے سے مڈل کلاس کا آدمی ان کا لیڈر بنا۔
23 مارچ 1940 کی قراداد جس نے ہم سے ہزاروں میل دور بنگال کو جوڑا مگر مغربی پاکستان کے اندر جو اقتدار کی کشمکش تھی وہ ٹھہرتی نہ تھی۔ اور پھر فاصلے یوں بڑھے کہ اب فاصلے بھی نہ رہے۔ جس تیزی سے یحیٰ کی دہلیز پر اقتدار آیا اسی تیزی سے اقتدار رخصت بھی ہوا۔ اسی دربار اور اسی بیانیہ کی پیداوار مگر عوامی حمایت کے ساتھ ابھرنے والا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو، یعنی اب اقتدار مسلسل چوبیس سال کی کشمکش کے بعد ایک عوامی لیڈر کو منتقل ہوا۔ پی این اے مانے یا نہ مانے سرد جنگ کے زمانے تھے اور اس زمانے کے حساب سے امریکا بھی اپنی نوعیت کا وہمی تھا۔
سی آئی اے اور کے جی بی کی آپس سرد جنگ رہتی تھی اور بین الاقوامی سیاست میں Capitalism اور communism کی جنگ۔ بھٹو نہرو کی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادیں ڈالنے لگے۔ انھوں نے پاکستان کو ایٹمی پاور بھی بنایا۔ پی این اے امریکا کے اشارے پر چلتی تھی۔ بھٹو صاحب اقتدار کے اس مقام پر تھے جہاں صرف درباری ہی بھاتے تھے اور جنرل ضیاء اس ہنر میں مہارت رکھتے تھے۔ اقتدار پھر اپنی راہیں عوام سے ناتے توڑ کر آمریت کی طرف چل پڑا۔ اس زمانے میں جو ستم اس مملکت خداداد پر ہوا یہ وہ زخم ہیں جو ابھی تک بھرتے نہیں۔ جنرل ضیاء کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو سی آئی نے چلی کے ایلنڈے، بنگلہ دیش کے شیخ مجیب اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا۔
امریکا کو اب پاکستان کی سر زمین پر، افغانستان میں سویت یونین کو شکست دینے کے بعد، جنرل ضیاء سے کوئی سروکار نہ تھا مگر پاکستان میں مذہبی کارڈ اپنی بنیادیں مضبوط کر چکا تھا۔ جو مولوی حضرات کل سائیکلوں پر سفر کرتے تھے اب وہ بڑی بڑی گاڑیوں اور لینڈکروزر میں سفر کرنے لگے۔ ہم تو جیسے کرائے کے گوریلے تھے، جو آئے، کرایہ دے اور ہماری خدمات حاصل کرے۔ اردن میں بغاوت کو کچلنا ہو ہم حاضر، یا یوں کہئے جی کہ مشرق وسطیٰ میں جو مفادات امریکا کے تھے ہم نے معاوضے کے عوض بہ خوبی انجام دیے پھر افغانستان میں اسامہ بن لادن اور 9/11 کے واقعے نے ہمارے لیے امداد کے دروازے ایک دفعہ پھر کھلوا دیئے۔
ہم اب مذہبی کارڈ کو چھوڑنا تو چاہتے ہیں مگر یہ کار ڈ ہمیں چھوڑے اب ناگزیر ہے۔ جنرل ضیاء کے خلاف کل جو ایم آر ڈی کی تحریک چلی اس میں کچھ مذہبی جماعتیں بھی ہونگی مگر وہ تھیں لبرل اور سیکیولر قیادتوں کی دسترس میں۔ ہماری جو لانگ مارچوں کی تاریخ ہے وہ بھی کچھ عجیب ہے۔ پہلا لانگ مارچ بینظیر بھٹو نے میاں نواز شریف کے خلاف ان کے پہلے دور میں کیا، کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی وہ پہلی خاتوں تھیں جو بینظیر بھٹو، جنرل آصف نواز جنجوعہ کے درمیاں پیامبر تھی پھر میاں صاحب نے ایک لانگ مارچ کا آغاز کیا ججوں کی بحالی کے لیے۔ یہ قافلہ ابھی گوجرانوالہ پہنچا ہی تھا کہ موبائل فون پر یہ نوید سنائی گئی کہ جج بحال ہوگئے اور اس طرح یہ لانگ مارچ کامیاب ٹھہرا اور اپنی منزل چند قدموں پر ہی حاصل کرلی۔
پھر ڈی چوک کا دھرنا مگر وہ دھرنا کس نوعیت کا تھا اس کے پیچھے کون تھا بس اب رہنے ہی دیجیے! سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے اس لانگ مارچ کے پیچھے کون سے عناصر ہیں؟ اور کون ہے اس لانگ مارچ کے پس پردہ؟ ماضی کے لانگ مارچ کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی تھا اور اب بھی ہے، مگر کون ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ماضی کے لانگ مارچ کے آغاز سے پہلے بھی کچھ خبر نہ تھی کہ اس کے پیچھے کون ہے ہاں مگر اختتام پر یہ انکشافات ہوئے کہ کون ہے پس پردہ۔ اس لیے یہ مناسب وقت نہیں تعین کرنے کا کہ اس لانگ مارچ کے پیچھے ہے کون۔ جب یہ لانگ مارچ اپنا آغاز کرے گا، اپنے قدم بڑھائے گا تو اس کے ہر بڑھتے قدم سے یہ راز اٹھتا جائے گا کہ اس کے پیچھے کون ہے! فی الحال افتخار عارف کا شعر سنیے۔
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
مولانا فضل الرحمن صاحب کبھی بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتے۔ وہ اس وقت موجودہ پاکستانی تمام سیاستدانوں میں انتہائی سیاسی شعور رکھنے والے اور زمینی حقائق کو جاننے والے ماہر سیاستدان ہیں۔ میاں صاحب کے خلاف تحریک لبیک کو لانے والے کون تھے اور اب مولانا فضل الرحمن کو لانے والے کون ہیں۔ ایک ذرا انتظار!
بلاول اور مریم مولانا کے اسوقت دائیں اور بائیں ہیں مگر وہ کس حد تک ہیں اور نہیں ہیں یہ راز بھی کچھ دنوں تک افشاء ہو جائے گا۔ کہتے ہیں کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ لڑنے والوں کے پاس بھی مذہبی کارڈ کی تلوار ہے اور میدان میں اترنے والوں کے پاس بھی۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی معیشت تک بیٹھ چکی ہے، خلق خدا کی بھوک و افلاس کی یہ حالت کہ حکومت نے خود لنگر خانے کھول دیے ہیں۔ خان صاحب کے پاس حقیقتوں کو پرکھنے کی صلاحتیں بہت کم ہیں۔ اور اب لانگ مارچ کسی کر کٹ فیور کی طرح اس قوم پر طاری ہے۔ مولانا کی قیادت ہے اور نیب زدہ ان کے بگل میں ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!