کچھ برس قبل محترمہ فریال تالپور نے لاڑکانہ کے قریب لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "لاڑکانہ کے لوگو کان کھول کر سن لو ووٹ صرف تیر کو ہی دینا ہے۔ " بیچارے لاڑکانہ کے لوگ ان کی بات کان کھول کر سن نہ سکے۔ اس بائے الیکشن میں ان کے امیدوار جمیل سومرو لاڑکانہ شہر سے ہار گئے۔ یہ بھی حقیقت کہ وہ اس سیٹ سے جیتے کب تھے؟
لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ بھٹو لاڑکانہ سے ہارتے کب تھے۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے اگر اسی طرح ہی سندھ کو چلانا ہے جیسے کہ میونسپل سروس تباہ و برباد کر کے، صحت کا نظام تباہ و برباد کر کے، تعلیم کا نظام تباہ کرکے تو پھر لاڑکانہ کیا، سندھ کے تمام شہر جہاں جاگیرداریاں کمزور ہیں وہاں سے اب پیپلز پارٹی آدھی صدی کے بعد بل آخر ہارتی چلی جائے گی۔
ایک طرف عمران خان کی دی ہوئی مہنگائی ہے اور دوسری طرف گیارہ سال کی پاکستان پیپلز پارٹی کی تباہ حال کارکردگی۔ نہ اسپتالیں بچے ہیں نہ اسکول اور نہ ہی میونسپلٹی سرورسز۔ اب تو لوگ اسپتالوں کے فرشوں پر سسکتے سسکتے مر جاتے ہیں، اگر گنا جائے توکوئی لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جن کو کتوں نے کاٹا اور اسپتالوں میں ویکسین نہ ہونے کی سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یرقان کے موذی مرض سے لے کر ایڈز بھی اب وباء کی صورت میں پھیلتا جا رہا ہے۔ نمرتا کا قتل اسی لاڑکانہ شہر میں ہوا۔
بلاول گھوٹکی مند ر کے ٹوٹنے پر تو پہنچ گئے مگر پندرہ منٹ کے فاصلے پر میرپور ماتھیلو ہے، نمرتا کے والدین وہاں تعزیت پر آنے والوں کے ساتھ فرش پر بیٹھے تھے مگر یہ نہ پہنچے۔ کیا یہ بھی نمرتا کا قصو ر تھا کہ اس کا قتل پیپلز پارٹی کے خلاف، ان کی برْی حکمرانی کے خلاف، پورے سندھ میں ایک آواز ہوکر ابھرا۔ ابھی تک سندہ حکومت نمرتا قتل کی ایف آئی آر کٹوانے سے گریزاں ہے۔
آجکل پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی کی صفائی کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے، یہ مہم زوروں اور شوروں سے جاری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اچانک نیند سے جاگے ہیں اور جیسے صرف کراچی ہی سندھ ہو۔ اور باقی ماندہ سندھ بے یارومددگار جہاں حالات کراچی سے بھی بدتر ہیں۔ جہاں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، گٹر کھلے ہیں، راستوں پر پانی جمع ہے، نہ کھانے کو غذا میسر اور نہ پینے کو پانی۔ جو ان کے ووٹر ہیں وہ جیسے ان کے غلام ہوں، جن کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی کہ ان کے ووٹررز کی کیا حالت ہے؟۔
وہاں سندھ کے وڈیرے اور یہاں کراچی کے شہری۔ وہ بابا سائیں ہیں اور یہ بھیا۔ یہاں یہ سوٹ بوٹ پہنتے ہیں، لوگوں کو برابر میں بٹھاتے ہیں اور وہاں پر اپنے مزارعوں کو فرش پر بٹھایا جاتا ہے، فرق صرف اتنا ہی ہے، آخر یہ کھیل کب تک، پلک جھپک میں وڈیرے اور پلک جھپک میں بھیا!
کیا وجہ ہے کہ جو ان کو ووٹ دیں ان کو ذلت اور جو ان کو ووٹ نہ دیں ان کو عزت!! کیا باقی تمام شہری سندہ کا حصہ نہیں۔ جس طرح کراچی کے مسائل کو ترجیح دی جاتی ہے، ابھارا جاتا ہے، یہاں تک کہ نیشنل میڈیا وہ بھی ان کے مسائل کو اس طرح سے کوریج نہیں دیتے جس طرح کراچی کے مسائل کو کوریج ملتی ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو باقی ماندہ سندھ سے تو یہ شہر ہزار درجہ بہتر ہی ہوگا۔ پرائویٹ اسکول ہوں یا سرکاری، یونیورسٹیاں ہوں، اسپتالیں ہوں، کارخانے ہوں، روزگار کے لیے مواقع ہوں اتنا بڑا انفراسٹکچر ہے، اس شہر کا! مگریہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اگر کراچی کا موازنہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں سے کیا جائے تو کراچی بھی بدنصیب ہے۔
یہاں کے ووٹرز جنہوں نے تیس سال تک جن کو ووٹ دیے وہ بھی یہاں خاطر خواہ کام نہیں کر پائے۔ کراچی کے لوگوں نے جن کو ووٹ دیے، انھوں نے آمریتوں کے ساتھ علیک سلیک رکھی اور جب کہ باقی ماندہ سندھ کے لوگوں نے جمہوریت کے ساتھ۔ آج لاڑکانہ نے بل آخر ابتدا کر ہی دی، کیا کرتے آخر! کہ ان کی میونسپل سروسز کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے گلی، گلی گندے پانی کے تالاب بنی ہوئی ہیں۔ اب جب سندھ حکومت کراچی کے لیے جاگی ہے تو لاڑکانہ کے شہری بھی میونسپل سیاست کی اہمیت سے خوب واقف ہوئے ہیں۔
آجکل پیپلز پارٹی کی جوکراچی پر عنایتیں ہیں وہ اس لیے ہیں کہ یہاں کے لوگ میونسپل سیاست کے کھلاڑی ہیں، متحدہ ہو یا جماعت اسلامی ان دونوں پارٹیوں کا آپس میں جو ٹاکرا تھا وہ بنیادی طور پر میونسپل سیاست تھی۔ جمہوری ادوار میونسپل حکومت کی حوصلہ افزائی نہ کر پائے اور آمریتوں نے جمہوریت کو یرغمال بنانے کے لیے میونسپل سیاست کو وسعت دی، مگر میونسپل سیاست کا واقع ہونا بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور لوگوں کی معیار زندگی بہتر کرنے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔
اب جب میڈیا کا سار ا رجحان کراچی کے مسائل پر ہو، جب وزیر قانون 149 کی دھمکیاں دے رہے ہوں، جب وفاقی حکومت روز کوئی نہ کوئی سندھ حکومت کو گرانے کا سوشہ چھوڑ رہی ہو تو بیچاری پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کہاں جائے۔ تو پھر آجکل پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں جھاڑو ہے اور گلی گلی کراچی کی صفائی ہورہی ہے۔ جو گٹروں کے اندر پلاسٹک کی تھیلیاں ڈال کر اس حکومت کو ناکام کر نے کی کوشش کی وہ بھی یہ نکال رہے ہیں۔
مگر باقی ما ندہ سندھ میں ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ کیوں کہ وہ خود اپنے حقوق پر سو رہے ہیں، وہ بیچارے صدیوں سے غلام رہے ہیں اور اب تک اس نیم غلامی میں ہیں جو ان کو چارلس نیپیئر نے عطا کی تھی۔ یہ دھرتی صوفیوں کی دھرتی تو ہے، مذھبی رواداری اور سیکیولر رزم ان کے لاشعور میں بستا توہے لیکن ساتھ ساتھ وڈیرے، میر و پیر اور جاگیردار نفسیات بھی اتنی ہی رچی بسی ہے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ آپ ووٹ دیں اور ووٹ دینے کے بعد اگر آپ سوجاتے ہیں تو پھر ہمارا کیا قصور؟
ہزاروں ارب روپے این ایف سی کی مد میں ان گیارہ سالوں میں آئے، ڈیڑھ سو ارب تعلیم کا بجٹ اور اتنے ہی پیسے یہ صحت کے لیے بھی اور اتنے ہی تقریبأ لوکل باڈیز کے لیے بھی مگر وہ گئے کہاں؟ کام تو کوئی نظر نہیں آیا۔ تبھی تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ بندہ اگر خود نہ چاہے تو حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ اس قوم کی نفسیات سے ہمارے بھٹائی بھی خوب واقف تھے اور کہہ گئے کہ سونے والے اٹھ جا کہ تیری تقدیر یوں بدل نہیں سکتی۔ لاڑکانہ کہ اس بائے الیکشن میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ان لوگوں نے اب شاہ بھٹائی کی آواز کو سن لیا ہے۔
لاڑکانہ کی اس بائے الیکشن نے یہ ثابت کر دیا کہ پیپلز پارٹی کو مڈل کلاس سے کوئی امیدوارکو صوبائی یا قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے کبھی کھڑا نہیں کرنا چاہیے۔ حال ہی میں گھوٹکی میں بائے الیکشن ہوئے وہ بھی جی ڈی اے کی خالی نشست پر ہوئے مگر وہاں انتخاب وڈیرہ در وڈیرہ تھا، بلاول نے وہاں ڈیرے لگائے، وزیروں کو استعفیٰ دلا کر وہاں اپنا زور لگانے کے لیے بھیجا۔ مگر جمیل سومرو جو کہ بلاول ہائوس کے خدمت گزار ہیں اس خادم کے لیے بھٹو خاندان اتنا فکر مند نہ تھا۔
دوسرا سبق پارٹی نے یہ سیکھا کہ صرف وڈیروں پر بھروسہ پر کرو نہ کہ سندھ کے شہریوں پر، نیم غلامی میں پھنسے دہقان، یہ کبھی بھی پارٹی کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ اس پورے ٹوٹتے ہوئے نظام میں آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی ایک جمہوری قوت ہے، نہ کہ جی ڈی اے۔ ہاں مگر جس طرح سندھ کی حکومت کو زرداری خاندان نے چلایا ہے اس میں نقصان کسی اور کا نہیں خود اسی جمہوری قوت کا ہورہا ہے جس پر سندھ کے لوگوں نے پچاس سال تک بھروسہ کیا۔