میرا کالم شایع ہونے تک شاید جوبائیڈن صدارتی انتخابات جیت چکے ہوں گے۔ دنیا کے لیے جہاں کورونا نے بدترین خبر کا اعزاز پایا وہاں یہ خبر اس سال کے کچھ گناہ دھوتے نظر آتی ہے۔ یہ خبر دنیا کے دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست کے تابوت میں پہلی کیل تھی جو ٹھوکی گئی ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جو دوسری جنگ عظیم کا سبب بنا۔ پہلی جنگ عظیم میں بھی یہی نظریہ تھا۔ بلکہ سرد جنگ بھی نظریوں کا ٹکرائو تھا۔
ٹرمپ کو امریکا خطرے میں نظر آیا۔ اس کے نزدیک امریکا کے معنی تھے سفید فام لوگوں کا امریکا، باقی ماندہ لوگ بشمول سیاہ فام وہاں کے مکین نہیں ہیں اور جب وہ خود سفید فام لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں تب کیا! یہ تھا وہ ڈر جو ہٹلر، جرمنی کے لوگوں کے دلوں میں بٹھاتا تھا۔ میسولینی اٹلی کے لوگوں اور اس وقت کا جاپان بھی اسی بیماری کے شکنجے میں رہا ہے کہ ہم عظیم لوگ ہیں۔ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے وجود سے نکلا، اس پارٹی کی سوچ سے جو جنگی جنون کو ہوا دیتی ہے۔ عراق پر حملہ ہو یا افغانستان پر یہ اسی ہوا کا نتیجہ ہے۔ یہ پارٹی امریکا کو ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے معاہدے سے باہر رکھنا چاہتی ہیں۔
ریپبلکن سوچ یہ سمجھتی ہے ایسا کرنے سے امریکا کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ اسی دوران چین دنیا کے افق پر ابھر آیا۔ ادھر چین کی اشیاء بہت سستی تھیں۔ گلوبلائزیشن کا بنیادی اصول ڈیوڈ ریکارڈو کی تھیوری پر مبنی تھا۔ جو چیز جہاں سستی اور معیاری بنتی ہے وہیں سے لی جائے اور ہر ملک اسی چیز کی صنعتکاری کرے اور وہ ہی پیدا کرے جو سستی اور معیاری ہو۔ اپنی اس صنعت کو سبسڈی دینا اور باہر سے ایسی سستی چیز کو ڈیوٹی لگا کر مہنگا کرنے سے معیشت صحیح سمت نہیں کہی جا سکتی۔
مگر پھر چین اتنا آگے نکل گیا کہ خود امریکا اور یورپ کو اپنے لیے چیلنج محسوس ہونے لگا۔ چین کی معیشت جو دس فیصد کی اوسط سے سالوں سال بڑھتی رہی اور 2030 تک چین کی مجموعی پیداوار امریکا کے برابر ہونے جارہی تھی۔ ٹرمپ نے گلوبلائزیشن سے یا یوں کہیے کہ آزاد تجارت کے اصول کو خیر آباد کہہ دیا اور امریکا پھر سے Protectionist پالیسی کی طرف لوٹنے لگا۔ اس Protectionist سوچ نے چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کا آغاز کر دیا۔ ادھر چین بھی اسی ماڈل کے تحت اب آگے آیا، جس کا طریقہ کار یہی تھا کہ غریب ممالک کو قرضے دے کے مقروض کرو اور انھیں اسی طرح اپنے اثر میں رکھو۔ جس طرح امریکا اور اس کے اتحادی کرتے تھے۔
دنیا کی معیشت پر چین اور امریکا کے درمیان اس سرد جنگ سے بڑے منفی اثرات پڑے۔ اوپر سے کورونا آگیا۔ تمام ممالک کی معیشت بیٹھ گئی۔ ٹرمپ کی پالیسی نے امریکا کے لیے مزید مشکلات پیدا کر لیں۔ معاملہ صرف ٹرمپ کا نہ تھا۔ برازیل میں بھی ایسے ہی دائیں بازو کے معجون بیچنے والے بولسینارو یا ترکی میں اردگان، روس میں پیوٹن اور ہندوستان میں مودی یا پھر ہمارے عمران خان۔ ان کے پاس لوگوں کی فلاح کے لیے کچھ نہیں، یہ سب نظریاتی ریاست کی بات کرنیوالے ہیں۔
امریکا کے اندر ٹرمپ کو شکست تو ہوئی مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آنیوالا نیا صدر بائیڈن یا ڈیموکریٹک پارٹی مضبوط ہوگی مگر یہ تبدیلی بہت بڑی تبدیلی کہی جاسکتی ہے۔ خود امریکا، امریکا کے اندر انتہا پسند سوچ سے لڑ رہا ہے۔ پوری دنیا میں تمام سول سوسائٹی کی سوچ رکھنے والے لوگ انسانی حقوق کے متوالے، سب ایک ہورہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے پوری دنیا نے ایک ساتھ ہو کر اس تمام دنیا کے لیے آنیوالے خطرے کا ساتھ مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ ہاں مگر امریکا کی چین کے خلاف پالیسی میں تبدیلی نہیں آئیگی۔ یہ سرد جنگ اب بھی وہیں موجود ہے اور خود اس میں چین کی توسیع پسندانہ پالیسی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
بائیڈن کے آنے سے عمران خان یا پاکستان میں موجود ہائیبرڈ ڈیموکریسی کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں، کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی اس کو پاکستان میں جمہوریت نہیں مانتی بلکہ آمریت کا تسلسل سمجھتی ہے۔ یہ وہی بائیڈن لوگر بل تھا، جو کیری لوگر اور جوئل بائیڈن نے بینظیر کی شہادت کے بعد کانگریس و سینیٹ سے پاس کرایا تھا۔ جس کے مطابق امریکا نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت چاہتا ہے اور جمہوری اداروں سے بات کریگا نہ کہ فرد واحد سے۔ امریکا کے اندر تبدیلی ایک نوید صبح ہے۔
ایک دنیا کی ترتیب کے لیے جہاں نظریہ و نظریاتی ریاست کی سوچ کو شکست ہوگی۔ جہاں خود ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گی کہ ماحولیاتی تبدیلی کی حوالے سے یا کورونا جیسی وبائی بیماریوں سے کیسے نمٹا جائے۔ انسان کی ترقی اور اس کی معیار زندگی کو کیسے بہتر بنایا جائے۔ 9/11 کے بعد جو دائیں بازو کے پاپورلزم نے اپنی جڑیں مضبوط کی تھیں، اب ان کو کھودنے کی ابتدا ہو چکی ہے۔ یہ دور امریکا میں ایک امریکا ٹرمپ کو آگے لے آیا اور پھر دوسرے امریکا نے اس ٹرمپ کو بل آخر شکست دے دی۔
ان کالی صدیوں کے سر سے
جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا
جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
(ساحر لدھیانوی)