آرٹیکل 370 کے بعد ہم ایک نئے موڑ پر آگئے ہیں، وہ ہماری داخلی سیاست ہو یا خارجی تعلقات، ہماری معیشت ہو یا ہماری تجارت۔ ہماری حیثیت ہمارے 1973 کے آئین کے تناظر میں ہو یا اس بات پر کہ جو اس ملک میں آمریتیں آئی ہیں یا پھر نظریہ ضرورت اس نے اس ملک کو کتنا نقصان پنہچایا اور جمہوری ادوار نے وہ آیا حقیقتاً جمہوری ادوار بھی تھے یا کچھ اور۔ او اب آرٹیکل 370 کے تحلیل ہونے کے بعد ہندوستان بھی ایک نئے رخ پر ہے۔
مگر ہندوستان کے تقاضے و حقائق الگ ہیں اور ہمارے الگ۔ ان کی معشیت گویا کہ مندی میں ہے مگر ہم سے بہت بہتر ہے۔ وہ اپنے ان سارے ٹکرائو و بحرانوں کے بعد بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ اسوقت ان کی سپریم کورٹ کو ایک بہت بڑا چیلینج درپیش ہے، آرٹیکل 370 کے خلاف پٹیشن داخل بھی ہو چکی ہے اور حکومت کو نوٹسز بھی جاری ہوگئے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے آئین کے تناظر میں ہی فیصلے سنانے ہیں ورنہ ایسا کوئی فیصلہ جو پریشر میں یا کسی نظریہ ضرورت کے تناظر میں یا جس کو ہم اپنے قانون کے فلسفے میں یہ کہتے ہیں کہ فیصلا اصولی نہیں بلکہ پالیسی پر مبنی تھا، ایسا فیصلہ ہندوستان کی سپریم کورٹ کی تاریخ میں کسی دھبے سے کم نہیں ہوگا۔
ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں، یہ نہیں کہ کوئی جنگ ہونے کا خطرہ ہے مگر ہماری نفرتیں اور محبتیں اب آمنے سامنے ہیں۔ جو لوگ وہاں ہندوستان کے انتہا پرستوں سے ٹکرائو میں ہیں، جو وہاں حق اور باطل کے علم بردار ہیں اور کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہوئی زیادتیوں پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں، وہ مجھے اپنے لگتے ہیں۔ وہ لوگ جو ہندوستان کے سیکیولر ہونے کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، انسانی حقوق ہوں یا ان کی جمہوری جدو جہد اس میں اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایسی تمام قوتیں جو پاکستان کو جناح کی 11 آگست کی تقریر کے تناظر میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ انتہائی کمزور ہیں۔ خود جو اس ملک کی جمہوری تحریک اور قوتیں بھی آپ کے سامنے ہیں۔ جس کی بہار آصف زرداری اور اسحاق ڈار ہوں اس کی خزاں نہ پوچھ!!! اور اب جو ان کو سینیٹ میں جلد بازی کر کے منہ کی کھانی پڑی وہ بھی آپ کے سامنے ہی ہے۔ جو تھوڑی بہت حزب اختلاف تھی وہ بھی بکھر چکی۔
بلاول صاحب کو یہ پتہ ہے کہ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے مگر یہ پتہ نہیں کہ زیادہ وڈیرے ہونگے تو زیادہ بْری حکمرانی ہوگی اور اس طرح بلاول کی پارٹی اب وڈیروں کی ہی پارٹی بن کے رہ گئی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خان صاحب کی حکومت مضبوط ہے۔ خان صاحب ایک کمزور حکومت ہی بنا سکتے تھے وہ انھوں نے بنالی۔ مگر جو اس کمزور حکومت کی اور کمزور اپوزیشن کی وجہ سے مضبوط ہوئے وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔
ہم سائوتھ ایشیاء کی بہت اہم ریاست ہیں اور ایٹمی ریاست بھی مگر افغان جہاد، جنرل ضیاء الحق یا سرد جنگ یا پھر جس طرح سے ہم روز اول سے امریکا کے اتحادی بنے ان حالات میں فطری طور پر جس طرح سے جمہوریت پروان چڑھی تھی وہ نہ ہو سکا جو ہونا چاہیے تھا۔ اور اب سب کچھ آپ کے سامنے ہے کہ حکومت کس قدر کمزور ہے اور حزب اختلاف بھی۔
بحیثیت ریاست ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہندوستان نے آرٹیکل 370 غیر آئینی انداز میں تحلیل بھی کر دیا، یہ اور بات ہے کہ ہم اس آرٹیکل کو نہیں مانتے تھے مگر یہ آرٹیکل اقوام متحدہ کی قرارداد کے تناظر میں تھا اور آگے جاکے شملہ معاہدہ اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ ہم جب شملہ معاہدہ طے کر رہے تھے اس وقت بھی ہم بکھرے ہوئے تھے۔ ہمارے جنگی قیدی ہندوستان کی قید میں تھے مگر اس کے باوجود بھی ایک ایسا معاہدہ ہندوستان سے کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کیوں کہ اس وقت یہاں پر سول حکومت تھی اور نہ صرف یہ بلکہ بھرپور نیشنل قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے روپ میں موجود تھی۔
اس وقت اندرا گاندھی ہندوستان کی مقبول ترین لیڈر بھی تھیں۔ وہ نہرو کی بیٹی تھیں دو تہائی اکثریت سے جیت کر آئی تھیں۔ جیسے اس وقت کشمیر کے نام پر پاکستان دشمنی کے ڈھول تھاپ کر مودی دو تھائی اکثریت سے جیتا ہے۔ مگر یہ فاشسٹ دور ہے۔ اس وقت بھی اندرا گاندھی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر اپنا فاشزم لے کر آئی تھیں۔ ایمرجنسی نافذ کر دی اور پورا ہندوستان بمع سپریم کورٹ ان کے ان اقدام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ مگراس بار جو ہندوستان میں فاشزم آیا ہے وہ بھیانک ہے اور نہ ہی یہاں ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنل قیادت ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ریاست کو کس طرح چلانا ہے۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ٹاک شوز نفرت پھیلا رہے ہیں مگر کیا ہم نے اپنے میڈیا کے ٹاک شوز دیکھے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے بنائے ہوئے بیانیے کو دیکھا ہے۔ "کیسے بنے گا کشمیر پاکستان" کوئی مجھ کو بتلائے تو سہی اگر ہم اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 47 جو کہ 1948میں پاس ہوئی جس کو ہم بار بار دہراتے ہیں اس کی روح بھی یہ کہتی ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے۔ وہ چاہیں تو پاکستان میں آئیں اور اگر نہ چاہیں تو آزاد ریاست کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پر ابھر سکتے ہیں۔
آرٹیکل 370 دراصل یہی کہتا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا وہ اٹوٹ حصہ نہیں جس طرح ہندوستان کی دوسری ریاستیں جڑی ہوئی ہیں۔ اور کشمیر ہندوستان کی ریاست تب بنے گا جب کشمیر کے لوگ ایسا چاہیں گے۔ تاوقت کہ ایسا ہو، تب تک آرٹیکل 370 تحلیل نہیں ہوگا۔ وہ تب تحلیل ہوگا جب کشمیر کے لوگ اپنی آئین ساز اسمبلی کے تحت ایسا کرنا چاہیں گے۔ اس بارے میں انڈیا کی سپریم کورٹ کے کچھ کیسز بھی ہیں۔ سمت پرکاش کیس 1968 میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاکہ کشمیرکی آئین سازا سمبلی تحلیل ہو، تب ہی آرٹیکل 370کے تحت جموں و کشمیر کا نظام چلے گا۔ آج چھ مہینے سے کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تحلیل ہے اور مودی نے پارلیمینٹ میں اپنی دو تہائی اکثریت سے یہ غیر آئینی کام کر دکھایا۔
یہ دو تہائی اکثریت بھی عجیب چیز ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے پاس آئی تو اس کے پیچھے دھاندلی تھی اور اس کو لے ڈوبی۔ میاں صاحب کے پاس آئی تو اس کے پیچھے دھاندلی تھی اس کو لے ڈوبی۔ مودی نے اپنے بیانیہ سے ہندوستان کے ووٹرکو گمراہ کیا اور دیکھا جائے تو مودی کی اکثریت بھی ایک لحاظ سے فطری نہیں۔ اندرا گاندھی کی دو تھائی اکثریت بھی ہندوستان کے لیے اچھا شگون نہ بن سکی۔
ہم بھی جس غیر فطری طریقیے سے سول حکومت کے فطری طور پر ابھر کر آنے کے جو دروازے بند کر رہے ہیں آج کا پاکستان اس کی اصل شکل ہے۔ ہم نے جو غیر فطری طریقے سے سول لیڈرشپ کو نکالا کبھی IJI کی شکل میں، کبھی مہران گیٹ کی شکل میں یا جس طرح خود بھٹو استعمال ہوئے 1970 کے بحرانوں کے حقائق کہیں گئے نہیں، وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور یہ ہمیں اسی جگہ آج دوبارہ لے کر آئے ہیںاور جہاں سے ہم بار بار گزر رہے ہیں۔
پاکستان کو دنیا کے مروج جو بھی ریاست کے چلانے کے آداب ہیں، تقاضے ہیں وہ پورے کرنے ہوںگے۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے ورنہ ہم کمزور سے کمزور تر ہوتے جائیں گے۔ پاکستان کا سب سے بڑا محافظ پاکستان کا آئین ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا عظیم کام اور سبق بھی ہم نے 1971 کے بحران سے سیکھا بلا ٓخر آئین کا وجود میں آنا۔ آئین کسی کتابچے کا نام نہیں یہ پاکستان کی روح ہے اور جب تک ہم اس کی روح کو نہیں سمجھیں گے ہم مزید مسائل میں الجھتے جائیں گے۔