پھر سے کورونا کی شدید لہر ہے پھر سے بازار ہیں بند، گلیاں، کوچے، محلے ویران، ریسٹورنٹ بند، اسکول، مدرسے بند، بیروزگاری کی لمبی فہرست، غربت و فاقہ کشی کے پھر سے بسیرے۔ یوں تو یہ ایسا ہی ہے مگر 2016 تک تو ہماری شرح نمو 5.5% تھی۔ پھر خان صاحب کی حکومت کے پہلے مالی سال میں 1.9% فیصد اور پھر منفی 0.4% فیصد۔
ان ڈھائی سالوں میں آٹا کیوں مہنگا ہوا؟ چینی کیوں غائب ہوئی؟ سبزیاں، اشیائے خورد ونوش، بجلی اور گیس وغیرہ وغیرہ سب کچھ پہلے سے دوگنا اور تگنا مہنگا کیوں ہوا ہے؟ جو اس سے پہلے کبھی اس تیزی سے نہ ہوا۔ ہماری محصولات کی شرح بڑھ نہیں رہی، ہم اسقدر مقروض ہو چکے ہیں کہ قرضے ہماری مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ ہیں۔
اب ہم مزید مقروض ہونگے کہ ابھی تک ہماری کوئی پلاننگ نہیں ان قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے حوالے سے۔ موجودہ دور میں نو آبادیات کی طرح کسی کو غلام بنانے کی ضرورت نہیں بس تیسری دنیا کے ممالک کو مقروض بنا لیا جائے۔ یہ ہے وہ ریاست جو اپنے جوہر میں نظریاتی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے جسکے اہم ایجنڈا میں لوگوں کی فلاح ہے ہی نہیں مگر 1973 کا آئین دینے والی پارلیمنٹ ایک ایسا آئین دیتی ہے جو اپنے جوہر میں ایک مکمل اور فلاحی آئین ہے۔
ہم اب مزید قرضوں پر نہیں چل سکتے۔ صحیح ہے IMF کا مدعا کہ اپنی محصولات بڑھائو۔ مگر ہم اپنی آمدنیاں اگر بڑھائیں تو کیسے بڑھائیں؟ براہ راست ٹیکس بڑھائیں یا بالواسطہ؟ ہمارے براہِ راست ٹیکسز جو کہ افراط زر میں اضافہ نہیں کرتے کیوں کہ وہ فرد کی آمدنی یا پھر کمپنی کے پرافٹ پر لاگو ہوتے ہیں۔ وہ براہِ راست ٹیکسز بہ سال 2004 تک 32% فیصد تھے، ہمارے مجموعی ٹیکسز کے۔ پھر یہ بڑھ گئے اور 48% فیصد تک بھی ہو گئے۔ ہمارے کل 2016 میں ٹیکسز ہماری مجموعی پیداوار کے 13% فیصد تک چلے گئے۔ اور اب ڈائریکٹ ٹیکسز 42% اور ٹیکسز ہماری مجموعی پیداوار کی بہ نسبت پھر سے 10%۔
ہمارا ملک اس وقت نہ صرف دنیا بلکہ اس خطے کے ہر انڈیکیٹر کے اعتبار سے بد ترین پوزیشن پر ہے۔ مہنگائی کا طوفان ہے جو تھم نہیں رہا۔ آمدنی سے ٹیکسز کا بہت ہی کم حصہ ہم وصول کر پاتے ہیں۔ ہم مقروض ہیں خطرناک حد تک۔ اور شرح نمو بد ترین۔ مگر ہیں ہم نظریاتی ریاست، ہمارے انسانی وسائل بد سے بھی بدتر، صحت کا نظام بدتر، بیماریوں کا گڑھ، یہ میرا وطن غذائی قلت سے دوچار، دماغی معذور بچوں کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ جس کی وجہ غذائی قلت ہے۔ سکو ل نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ، عورتوں کے حقوق محدود ترین، عورتوں پر تشدد، ریپ کیسز، جنسی ہراساں کرنے کے کیسز میرے ملک میں ان جرائم کی شرح سب سے زیادہ۔ اور اس پر ہم پھر ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی طرف چل پڑیں، وہ ٹیکسز جس سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہم اپنے ملک میں اپنے صارفین کو مہنگی ترین بجلی فراہم کرتے ہیں، بجلی کے لیے ایسے معاہدے کیے گئے پرائیویٹ کمپنیوں سے اور جو بد حال پاور سسٹم دیا گیا جس نے سرکولر قرضوں کو 2200 ارب تک پہنچا دیا۔ ایسی سیکڑوں کمپنیاں ہیں دنیا میں جو اقتدار میں آنے والی ا س ملک کی سیاسی پارٹی کو چندہ دیتی ہیں مگر اب یہ پارٹی فنڈ ہے، رشوت ہے اور پھر ان اقتداری پارٹی سے کام کرائے جاتے ہیں، وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔ ہماری ساری سیاسی پارٹیوں کے رہبر بنی گالا، رائیونڈ، کروڑوں کی کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔ اور یہ تو بیچارے سیاسی لیڈرز ہیں۔ پھر جنرل مشرف صاحب جیسے بھی یہاں کئی ہیں۔
جمہوریت ہے کہ یہاں پنپتی نہیں۔ اس دفعہ ایسے موسم بھی آئے کہ آئین کے اندر لگے سارے Scanner بھی جواب دے گئے۔ اب بجلی فرنس آئل سے پیدا کی جائے گی، جو گیس امپورٹ کرتے تھے، وہ صحیح طرح سے کر نہ پائے۔ جب تیل سستا ہوا تو ہم تیل جمع نہ کر پائے۔ اور اس طرح سیکڑوں اربوں کا نقصان ہوا۔ ہم نے آٹے اور چینی کو 400 ارب روپے کی سبسڈی دی۔ اس سے بہتر تھا کہ ہم گندم کی سپورٹ قیمت بڑھا دیتے تو کم از کم کاشتکار کو ہی فائدہ ہوتا اور ملک کے اندر گندم کی پیداوار بھی بڑھتی۔
ہم اسی تذبذب کا شکار رہے۔ نہ نظریاتی سیاست ہے نہ فلاحی ریاست اور نہ ہی نظر آ رہا ہے کہ ہم کیا بننے جا رہے ہیں۔ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی افواہیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ ہمارا آئین ہے ایک چھڑی کی مانند ہے۔ اب اس حال میں بھی ہماری مدد کر رہا ہے۔ اور آگے کی راہ بھی دکھا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں آخر کب تک…؟
اس جنگ میں جو مارے گئے وہ غریب ہیں۔ میں ایک ٹاک شو کرتا ہوں، بحیثیت مہمان، وہاں ایک کالر نے سوال کیا کہ وہ رکشا چلاتا ہے۔ صبح بچوں کو اسکول چھوڑتا ہے اور چھٹی کے وقت واپس گھر چھوڑتا ہے، یہی اس کا ذریعہ معاش ہے۔ اب کورونا کی وجہ سے اسکول پھر سے بند ہونے جا رہے ہیں۔ پھر سے بھوک اور فاقہ کشی اس کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ وہ ایک ایسا سوال تھا جس نے مجھے لاجواب کر دیا۔ غداروں کے اعزازات سب کے لیے موجود ہیں شاید اس ملک میں اب محب وطن اتنے نہیں رہے لیکن اس ملک کے غریب طبقے کا کیا قصور؟ سب سے بڑا ڈاکہ جو پڑا ہے وہ غریبوں کی آمدنی پر پڑا ہے۔ کل جو آٹا وہ 40 روپے کلو لیتے تھے۔ اب وہ 70 روپے سے80 روپے کلو میں لیتے ہیں۔ سبزیاں سو فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔ بجلی کے بل آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں، بس نہ بڑھی تو غریب کی آمدنی! اسی آمدنی پر کچھ یاد آیا:
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
شاہ بھٹائی سر ماروی میں کہتے ہیں کہ "اے خدا مجھے فہم پرور نہ کرنا کہ فہم پرور بہت دکھ جھیلتے ہیں۔
ماروی کیا تھی اس کو اپنے لوگوں سے بے پناہ محبت تھی۔ اپنے پہناوے اور رہن سہن سے محبت تھی، جب اس کو محل ملے تو اس نے ٹھکرا دیے۔ ہم جو اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں اور آج اپنے لب سی لیے ہیں، یہ جرم ہے یا پھر غفلت مگر یہ ماروی کا رویہ نہیں۔ رکشا چلانے والے کے گھر میں فاقہ کشی ہوگی، مزید مہنگائی ہو گی اس کا قصور وار آخر کون ہے؟ اس میں قصور ہے اس نظام کا جہاں کوئی Dejure ہے اور کوئی Defacto۔ لیکن ایسا آخر کب تک!