Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Rail Marhooma

Rail Marhooma

بھلا ہو ہماری عدلیہ کا کہ اچانک ایک دن یہ اطلاع ملی کہ محترمہ ریل دختر ایسٹ انڈیا کمپنی، انتقال کرگئیں۔ یوں تو یہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہی تھا مگرکیا کریں کہ جو رسم چل نکلی ہے کہ ہم کچھ بھی خبر نہیں رکھتے۔ ایلس البائنا نے لندن کی لائبریری میں ان دستاویزات کی کھوج لگائی کہ کیسے سندھ میں چارلس نیپیئر کے آنے سے پہلے چارلس برنس جاسوسی کرنے آیا تھا۔

یہ جانکاری لینے کے لیے کہ اگر ایسٹ انڈیا کمپنی سندھ، پنجاب یا یوں کہیے کہ برصغیرکے شمالی حصے کو قبضے میں لے لے توکیا فوائد ہوں گے۔ وہ سمجھے تھے کہ دریائے سندھ میں فیری چلائیں گے لیکن یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ کراچی سے ملتان چالیس دن کا سفر تھا سب سے پہلے اس شمالی ہندوستان کے لیے جو اب پاکستان سے برطانیہ کی پارلیمینٹ سندھ ریل ایکٹ 1855 پاس کیا اور پھر یوں سندھ ریلوے کمپنی بنی کراچی سے کوٹری تک کا پہلا ریلوے ٹریک بنا اور اس طرح ریل کے ذریعے سفرکا آغاز ہوا۔ پھرکوٹری سے ملتان سے لاہور کے لیے اورکمپنی سندھ سے پشین وغیرہ وغیرہ کرتے کرتے ریلوے لائن کا جال بچھ گیا۔

پاکستان بننے کے بعد80 فیصد کارگو لاہور سے کراچی اورکراچی سے لاہور ریل کے ذریعے آیا جایا کرتا تھا۔ اور مسافر بھی۔ مگر ساٹھ کی دہائی میں جب پاک، امریکا سے دوستی کا آغاز ہوا، تو امریکا کی ٹرانسپورٹ کمپنی فورڈ کے لیے راستہ بنا، اس طرح جس مال کی آمدورفت ٹرین کے ذریعے ہوتی تھی اس کو دھچکا لگا اور یوں ٹرکوں اور بسوں کی مافیا آگے آئیں۔

میرے گائوں ہالانی کا بھی ایک ریلوے اسٹیشن تھا اور چند میل اوپر محراب پورکے نام سے ریلوے جنکشن تھا۔ ہالانی کے اس اسٹیشن پرجہاں اب ایک اینٹ باقی نہیں رہی، گاندھی لاڑکانہ جاتے گذرے تھے اور نہرو بھی۔ وہ رْک اسٹیشن جس سے میری روحانی انسیت ہے جوکہ جنکشن تھا اور وہ روہڑی کے جنکشن سے بھی بڑا جنکشن تھا، جہاں سندھ کے عظیم فقیر منش بھگت کنورکا قتل ہوا تھا۔ اب وہاں کوئی ٹرین نہیں رکتی۔

ایک سیہون شریف میں ریلوے اسٹیشن تھا، مونا بائو اسٹیشن تھا، ٹھاروشاہ، سکرنڈ ایسے سیکڑوں اسٹیشن تھے جو سندھ میں تھے اور بند ہوئے۔ ریلوے کے پاس اتنی زمین تھی کہ شاید فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس بھی نہ ہو سب پر قبضے ہوگئے۔ درجنوں اسٹیشن ہونگے جو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی بند ہوئے اورکئی پنجاب میں بھی۔ کراچی میں بھی ایک سرکلر ٹرین ہوا کرتی تھی۔

میں نے آج سے چند سال پہلے اکنامسٹ کے کرسچن ایڈیشن میں روس کی روح اور اس کی ریل کی کہانی پر خوبصورت مضمون پڑھا تھا۔ کس طرح ان روسیوں کی روح پرلاشعوری طور پر ان کے ریلوے کا عکس ہے۔ ان کے ریلوے اسٹیشن آرٹ کے فن پاروں سے سجے ہوتے ہیں۔ وہ کس طرح ٹالسٹائی، اس ریلوے اسٹیشن پر بڑھاپے میں اپنی بیوی سے روٹھ کر اس کے ریٹائرنگ روم میں رہنے لگے اور وہیں انتقال کرگئے۔ اس کے آنا کرننا ناول کی ہیروئنوں نے کس طرح اپنے آپ کو ریل کی پٹڑی پر لاکر اپنی زندگی لے لی۔ جو ریل نہ چڑھا وہ روسی نہیں۔

میرے ابا کی تمام زندگی کی داستان ریل کے گرد گھومتی ہے، جب وہ اماں کے ساتھ گائوں میں جایا کرتے تھے۔ چند میل کی دوری تھی گائوں سے اس اسٹیشن کی۔ مگر کتنی خوبصورت یہ ہریالی تھی، جھیلیں تھیں، ریگزار تھے نہ جانے کہاں چلے گئے سب۔ میں اسٹیشن سے تانگے میں بیٹھ کر اماں کے ساتھ گائوں گیا تھا۔ وہ بگیا کا سفر میری روح میں بستا ہے۔ جو لمبی لمبی قطاروں سے مال گاڑیاں گذرتی تھیں جب ہم پھاٹک پر رْک جاتے تھے اور وہ جو راستے گاڑی سے جاتے جاتے، ساتھ ہی ریل گذرتی تھی۔

ہماری روح میں رہتے ہیں وہ ہندوستانی فلموں کے گانے جس کی منظرکشی میں ہیروکھلی جیپ میں ہوتا تھا اور ہیروئن ریل کی کھڑکی سے اسے دیکھا کرتی تھی۔ کتنا دیدہ زیب منظر لگتا تھا۔ ایک ریل منظر میں نے جاوید جبار کی ذاتی فلم "مسافر" Beyond the last Mountain میں دیکھا تھا۔ بہت کچھ میرا اور آپ کا اس ریل کے ساتھ چلا گیا۔ جب حسرت موہانی نوابشاہ ریل سے اترے تو ابا نے انھیں مدعوکیا تھا، یہ 1948 کا زمانہ ہے جب حروں پر ستم بہت بڑھ گئے۔ برصغیر کے بہت بڑے لیڈر تھے، حسرت موہانی، ابا نے سوچا ریل کی فرسٹ کلاس سے اتریں گے، استقبال کے لیے سب وہاں کھڑے ہوئے جہاں وہ بوگی رکنی تھی، مگر حسرت موہانی وہاں سے نہ اترے۔

چاچا میرے ادھر ادھر دوسری بوگیوں کی طرف حیران و پریشان دیکھتے رہے کہ ایک شخص جس نے شیروانی پہنی تھی۔ ایک ہاتھ میں پیٹی اور ایک ہاتھ میں لوٹا۔ چچا کو پریشان حال دیکھ کر پوچھنے لگے " کس کو ڈھونڈ رہے ہو بھائی" چچا نے کہا " وہ مولانا حسرت موہانی صاحب آنے تھے ان کا پتا نہیں چل رہا وہ کس بوگی میں ہوں گے" تو اس شخص نے کہا "وہ میں تو ہوں بھائی" اور پھر اس طرح مولانا صاحب پلیٹ فارم پر ہی مل گئے۔ کیا کوئی بتلائے گا آج کے لیڈر کبھی سوچ بھی سکتے ہیں اس طرح تھرڈ کلاس میں سفر کرنے کا۔

ہماری جمہوریت اور ہماری آمریت میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہے۔ حکمرانی وہی ہے، ادارے وہی ہیں اور قطرہ قطرہ پگھلنے جارہے ہیں۔ یہ اسی تضاد کا تسلسل ہے کہ اس ملک میں حق حکمرانی کس کا ہے۔ کیا آئین کی بالادستی ہے بھی کہ نہیں یا یہ سب ڈھکوسلہ ہے۔ اب تو یہ ٹرین صرف ان ہی کے لیے ہے جن کے لیے سرکاری اسکول ہیں، سرکاری اسپتال ہیں، جنکے کمروں میں ٹوٹی سے پانی نہیں آتا۔ جن کے لیے غسل خانے نہیں ہیں۔

ہندوستان میں پچھلے سال کوئی ایک بھی شخص ریل کے سفر میں نہیں مرا، کوئی حادثہ نہیں ہوا اور یہاں ہر ہفتے چھوٹی بڑی خبر آتی رہتی ہے کہ ریل خسارہ ہی خسارہ دیتی ہے، جب کہ یہ لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ وہ ریل جس سے انگریز نے اتنے پیسے کمائے کہ حکومت کو سب سے زیادہ پیسا اسی سے آتا تھا اور آج یہ ریل عبرت کا مقام ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ یہ آج کی ریل سے اوراس کی خستہ حالی سے سب جھلکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس آنکھ سے سب دیکھ سکتے ہیں جس طرح سے یہ سب چیف جسٹس گلزارکو نظر آیا۔