اپوزیشن مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے، میں پاکستان کے دو بڑے خاندانوں سے کہتا ہوں کہ آپ اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں، میں ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آدھی کر دوں گا، وزیر اعظم عمران خان گزشتہ ہفتے مہنگائی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے آخر میں اِ ن دو سیاسی خاندانوں کا ذکر کر نا نہ بھولے، جن کے ذکر سے ان کی اپوزیشن کی سیاست عبارت تھی۔
ایک اِسی خطاب پر کیا موقوف، موصوف کسی بھی عوامی فورم پر ان دو خاندانوں کو نہیں بھولتے۔ عمران خان اب وزیر اعظم ہیں، ان دو خاندانوں کی کرپشن اور ان کے متبادل ایک کلین اور موثر جمہوری حکومت مہیا کرنے کا وعدہ انھیں حکومت میں لایا۔ حکومت میں آنے کے بعد ان کے پاس وہ وسائل اور ذرایع موجود تھے جو کسی کرپٹ سیاست دان یا دیگر کرپٹ افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے ضروری ہو سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو سوا تین سال ہو چلے۔ اب نئے الیکشن کی تیاریاں شروع ہو رہی ہیں لیکن وزیر اعظم اب بھی اپنے اسی بیان کو دہرانے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ تین سالوں بعد اگر وہ یہ بتا دیتے کہ ہم نے اس اس کرپٹ سیاستدان کو قانون کے حوالے کر دیا ہے، اس اس کی کرپشن ثابت کر دی اور سزا دلوائی دی۔ فلاں فلاں کی لوٹی ہوئی بیرون ملک دولت کا سراغ لگا لیا ہے، اس میں سے اتنی واپس لائی گئی اور باقی کے لیے کارروائی جاری ہے وغیرہ وغیرہ۔
جن دو سیاسی خاندانوں کے ملکی دولت لوٹنے اور ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کر دینے کا الزام ہے، عجب طرفہ تماشہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سوا تین سالہ حکومت کی کارکردگی نے انھیں سیاسی طور پر مزید مضبوط کر دیا ہے۔ سیاست میں سادہ بیانئے اور نعرے بہت اہم ہوتے ہیں۔ تاہم اکثر ایسے سادہ بیانئے اور نعرے حکمرانی کی سنگلاخ چٹان سے پہلے ٹکراؤ میں پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ کامیاب سیاستدان اس فرق کو پہلے دن سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔
وزیر اعظم مگر اس فرق کو جاننا نہیں چاہتے یا ان کے آس پاس کے لوگ انھیں باور کرانے میں کامیاب ہیں کہ ان دو خاندانوں کا سیاسی وظیفہ ہی ان کی کامیابی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کی دانست میں یہ طرزِ عمل درست ہو مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ وزیر اعظم نے آسانی سے کہہ دیا کہ ان دو خاندانوں سے کہتا ہوں کہ لوٹی ہوئی اپنی دولت واپس لے آئیں میں کھانے پینے کی اشیا آدھی کر دوں گا، اس سادگی پہ کون نہ مر جائے!
وزیر اعظم ان دو سیاسی خاندانوں کا سیاسی اکھاڑے میں ضرور مقابلہ کریں، اور کیوں نہ کریں انھوں نے ایک متبادل اور بہتر لیڈرشپ کا دعویٰ کیا، جدو جہد کی اور عوام نے انھیں پذیرائی بخشی۔ حکومت میں آنے کے بعد گھوڑا اور میدان ان کے سامنے تھا۔ جو ان کے بس میں تھا انھوں نے کیا لیکن حکومت میں آنے کے بعد کیا یہی ایک کام کرنے کا تھا؟
حکومت ایک پیچیدہ، سنجیدہ اور صبر آزما کام ہے جس میں ویژن، دور رس اور فوری نوعیت کی پلاننگ، اس پر چابک دستی سے عمل، سیاسی حرکیات اور انتظامی مشینری کی سوجھ بوجھ اور ان سے کام لینے کا ہنر اور اصلاحات کے عمل کو مفادپرستوں کی پہنچ سے بچا کر آگے بڑھنے کی صلاحیت فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے۔
کرپشن پی ٹی آئی کا بنیادی نعرہ تھا، اسی نعرے کی بنیاد پر انھوں نے خود کو ایک بہتر اور کلین متبادل قیادت کے طور پر پیش کیا۔ گو، کے پی کے کی صوبائی حکومت کرنے کا پانچ سالہ تجربہ بھی تھا۔ مگر وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت سنبھالنے کے بعد بہت سے ابتدائی فیصلوں اور اقدامات سے صاف محسوس ہوا کہ حکومتی مشینری اور معاملات کی پیچیدگی پر دسترس کا دعویٰ خام تھا۔
ملکی خزانے کی حالت سب کے سامنے تھی، کس کا اور کتنا قصور تھا؟ یہ ایک سیاسی اور انتظامی بحث تھی مگر اہم یہ تھا کہ حکومت اس چیلنج سے کیسے عہدہ برا ہوئی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مناسب شرائط پر معاملہ طے کرنے کے بجائے دوست ممالک سے قرض، موخر ادائیگیوں اور ڈپازٹ لے کر زرمبادلہ کے بحران کو ٹالنے کی کوشش کی گئی۔ قیمتی وقت بھی ہاتھ سے گیا، قرض کئی گنا بڑھ گیا، شرح مبادلہ کھسک کر مزید نیچے لڑھک گئی مگر بحران جوں کا توں رہا۔
غلطی کا احساس تھا یا ہیجانی کیفیت، راتوں رات فنانس ٹیم بدلی، پیرا شوٹ سے مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک وارد ہوئے۔ آئی ایم ایف سے چند دنوں میں معاہدہ طے پاگیا، وہی سنی سنائی کہانی، کڑوی گولی ہے کھانی توپڑے گی۔ شرح مبادلہ مزید پستی کی طرف لڑھک گئی۔ صنعتی نمو بہتر ہونے کی نوید سنا کر امپورٹ کے فلڈ گیٹ کھولنے کی وہی کلاسیک غلطی کی گئی جو ن لیگ اور پچھلوں نے بھی کی۔ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے اپنی غلطی کرنے کے اصرار کا نتیجہ سامنے ہے۔
اب بار بار جتلانے سے کیا حاصل کہ ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی بڑھی ہے، بلکہ اب تو اپنے معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مزید پست شرح مبادلہ میں ان سے وقت پر فیصلہ نہ کر سکنے کا کتنا حصہ ہے۔ حفیظ شیخ سینیٹ میں نشست حاصل نہ کر سکے تو شوکت ترین لائے گئے۔ ا س دوران ایف بی آر میں سینئیر لیول پر نصف درجن سے زائد بار ٹیم تبدیل ہو چکی۔
سیاسی بیانئے کا غلغلہ تھا کہ چینی اور آٹا چوروں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ ہوا کیا؟ چار ارب روپے کی چینی برآمدی سبسڈی پر کھڑے کیے گئے ہنگامے سے تین سالوں میں چینی 55 روپے سے 130روپے کلو جا پہنچی۔ کٹہرے اب بھی خالی ہیں، حکومت تو ان پر مافیا کا لیبل لگا کر مطمئن ہوگئی مگر عوام کو مہنگائی کے عفریت کا سامنا ہے۔ یہ کہہ کر جان چھوٹنے والی نہیں کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اور نہ ہی دو خاندانوں کا وظیفہ جاری رکھنے سے گلو خلاصی ہونے والی ہے۔ حکومت کے لیے مہنگائی اور گورننس اس کی اہلیت، قابلیت اور سیاسی و انتظامی بلوغت کا امتحان ہے۔
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!