پاکستان کے دگر گوں معاشی حالات کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو ایک سلور لائن مستقل حوصلہ افزاء رہی ہے یعنی بیرون ملک سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر۔ پاکستان کی کل ایکسپورٹس 30 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں۔ جبکہ ترسیلات کا حجم گزشتہ سال 31 ارب ڈالرز کے لگ بھگ رہا۔
حکومت ایکسٹرنل فنانسنگ کا حساب کتاب کرتے ہوئے بیرون ملک سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر کو ایک مستقل سپورٹ یعنی given سمجھتی ہے۔ تاہم اس مستقل سپورٹ پر مشکل وقت آنے کے واضح اشارے ہیں۔ دیدہ و بینا کی نیت ہو تو نوشتہ دیوار صاف پڑھا جا سکتا ہے، البتہ اگر خودانکاری کا خمار شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے میں عافیت سمجھے تو وہ جانے اور اسکی ریت!
اکا دکا واقعات تو کچھ عرصے سے سوشل میڈیا کی زینت بن رہے تھے کہ کس طرح پاکستان کی لیبر فورس اب بہت سے مڈل ایسٹرن ممالک کی ترجیح نہیں رہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں بہت سے ممالک میں پاکستان سے جانے والے سیاحوں، ٹک ٹاکرز اور انفلوئنسرز (Influencers) کے چند غیر ذمہ دارانہ واقعات نے میزبان ممالک کو انتہائی اقدامات پر مجبور کر ڈالا۔
آذر بائیجان، ترکی، یو اے اج سمیت کئی ممالک میں غیر ذمہ دارانہ رویے، مقامی کلچر پر تضحیک آمیز تبصرے، خود راستی کے خمار اور ان پر اپنی ججمنٹ زبردستی ٹھونسنے کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے۔ کئی ایک کیسز میں میزبان ملک کو ایسے خدائی فوجدار وں کو ڈی پورٹ کرنا پڑا، ویزا اجرائی کے لئیے بلیک لسٹ کرنا پڑا۔ یوں ہمارے مجموعی رویوں نے ملک کی سب سے بڑی ایکسپورٹ یعنی ہنر مند اور غیر ہنر مند لیبر کی مانگ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ سینٹ کی کمیٹی برائے اوورسیز نے سیکریٹری وزارت اوورسیز و ہیومن ریسورس کو اس امر پر خوب لتاڑا کہ پاکستان میں لیبر کی وافر موجودگی کے باوجود حکومت نے اس زبردست پوٹینشل ایکسپورٹ کو نظر انداز کیا ہے۔ اس پر انہوں نے کمیٹی کو ایک پریزنٹیشن دی جس کے نمایاں نکات کسی بھی ہوش مند اور ذمہ دار شہری کو ہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔
جو تصویر انہوں نے پیش کی وہ کافی مایوس کن اور پریشان کن تھی۔ انہوں نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات اتھارٹیز کے مطابق ان کے ہاں بیرون ملک لیبر سے سرزد جرائم میں 50 فیصد سے زائد کا تعلق پاکستانی لیبر سے ہے۔
اسی لئے متحدہ عرب امارات غیر ملکی لیبر کی ڈیمانڈ کے لیے اب پاکستان کی بجائے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد، سیکرٹری برائے اوورسیز پاکستانیز نے مزید بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں اس امر پر شدید ناپسندگی کا اظہار کیا کہ بہت سے پاکستانیوں اور وہاں موجود لیبر میں سے بہت سوں نے چپکے سے پبلک جگہوں پر خواتین کی بلا اجازت ویڈیوز بنائیں جو غیر اخلاقی اور انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ اس سے ان کی غیر ذمہ داری ظاہر ہوئی اور متحدہ عرب امارات کی شہرت داغدار ہوئی۔
ایک اور نکتہ یہ بھی سامنے رکھا گیا کہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور ہنرمندی کے معیارات میں تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے، لیکن پاکستان کی زیادہ تر لیبر جدید ٹیکنالوجی سے بے بہرہ اور ہنر مندی کے جدید عالمی معیار سے کمتر ہیں۔ مشرق وسطی کے ممالک جہاں روایتی طور پر پاکستانی لیبر کی کھپت ہوتی رہی ہے ان کے ہاں اب پاکستانی لیبر کی ڈیمانڈ میں واضح کمی کے اثار ہیں۔ ان ممالک میں پاکستانی لیبر کے متبادل کے طور پر بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کو فوقیت دینے کا رجحان غالب ہے۔
پاکستان کے ایک کروڑ سے زائد شہری بیرون ملک میں ہیں، جن میں سے ایک کثیر تعداد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت کی جانب سے وزارت اوورسیز پاکستانیز کو باضابطہ طور پر پاکستانی لیبر سے متعلق متعدد شکایات پہنچائی گئی ہے۔
ان شکایات میں ناپسندیدہ عمومی رویے، ڈسپلن کی کمی اور جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات شامل ہیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں سعودی عرب اور عراق میں گداگروں کے گینگ پکڑے گئے۔ طریقہ واردات یوں تھا کہ عمرے کے ویزہ پر ان لوگوں کو سعودی عرب لایا جاتا اور گداگری پر مامور کر دیا جاتا۔ سعودی حکومت کے بقول گرفتار شدہ گداگروں میں سے 90 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اسی طرح عراقی حکومت نے بھی منظم گروہوں کی نشاندہی کی جو پاکستانی گداگروں کو لا کر گداگری کا دھندا کرتے۔
کچھ عرصہ قبل یو اے ای میں شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو بہت سے پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر عجیب توجیہات کا رنگ دیا۔ اس پر یو اے ای گورنمنٹ نے ناگواری کا اظہار کیا۔ سعودی عرب میں جاری اصلاحات پر بھی پاکستانی لیبر اور مقیم لوگوں میں سے کئی ایک نے ایسے تبصرے کیے جس سے سعودی حکومت ناراض ہوئی اور پاکستان کو اپنی ناراضگی پہنچائی۔
پاکستان میں بالعموم گزشتہ 10/ 15 سالوں میں سوشل میڈیا اور پبلک میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو اور جارحانہ رویے عام ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے بیرون ملک پاکستانی لیبر بھی اس۔ سے متاثر ہوئی ہے لیکن اس کے برعکس بنگلہ دیش، بھارت، فلپائن اور سری لنکا جیسے ممالک کی لیبر کے بارے میں ایسی شکایات بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی رشتوں کے باوجود مشرق وسطی کے تقریبا سبھی ممالک کی تجارت اور لیبر امپورٹ کی ترجیحات پاکستان کی بجائے دیگر ممالک کے ساتھ فروغ پارہی ہیں۔
بیرون ملک کنٹریکٹس اور لیبر ایکسپورٹ کے ذریعے جنوبی کوریا، چین، ویت نام اور انڈونیشیا سمیت بہت سے ممالک نے ماضی میں اپنے ہاں زر مبادلہ کی شدید تنگی کا درمان کیا۔ پاکستان کی ایکسٹرنل فنانسنگ میں بھی بیرون ملک ترسیلات کا اہم حصہ ہے، تاہم حالات بدل رہے ہیں۔ سٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کیے گئے نکات اور سوشل میڈیا واقعات اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر فوری طور پر غیر ذمہ دارانہ رویوں اورجارحانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو بہت سے دوست اور برادر ملکوں میں بھی خاکم بدہن پاکستانی لیبر اور سیاح پسندیدہ کیٹگری میں شامل نہ رہ سکیں گے۔