لگ بھگ ستائیس، اٹھائیس برس پہلے کی بات ہے، میں اسلام آباد کے ایک اردو روزنامے میں بطور ٹرینی سب ایڈیٹر کام کرتا تھا، ایک روز دفتر پہنچا تو ایک اجنبی اور بھولا بھالا سا نوجوان نیوز روم کے ڈیسک پر بیٹھا نظر آیا، مجھے پوری طرح یاد نہیں ہے کہ کس نے کہا، " ان سے ملیے، انھوں نے آج ہی بطور ٹرینی سب ایڈٹر ہمارا اخبار جوائن کیا ہے۔ نام ان کا آصف علی فرخ ہے، یہ بھی لاہور سے آئے ہیں "۔
میرے لیے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ وہ لاہوریا تھا، یہ تھی آصف علی فرخ سے پہلی اور انتہائی مختصر سی کہانی، اس نوجوان جسے میں تو اب بھی نوجوان ہی سمجھتا ہوں، اب اسے مرحوم لکھنے سے پہلے کئی بار قلم رکا، ہاتھ لرز رہا تھا، آنکھیں نم تھیں اور دل دکھ سے بھرا ہوا لیکن کیا کریں!قدرت کے فیصلے کو ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ موت برحق ہے اور جو دنیا میں آیا، اس نے واپس اپنے اصل آشیانے میں جانا ہے۔
اسلام آباد میں شجاع الدین صاحب ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے لیکن اس نے کبھی روایتی نیوز ایڈیٹرز والا رویہ نہیں رکھا، مجھ خاکسار کوہمیشہ دوست کہا اور یہ رشتہ آج تک قائم ہے، آج کل لاہور کے ایک نجی چینل میں اعلیٰ عہدے پر فائزہے، اﷲ انھیں ہمیشہ صحت مند و توانا رکھے، کمال کا مہربان انسان ہے۔ اس نے مجھ ناچیز کو صحافت کے ریگزار میں خبر اور اس کی ہیڈ لائنز بنانے کی پہلی سیڑھی پر چڑھایا۔ آہ! وہ بھی کیا خوبصورت اور سہانے رات دن تھے۔
اسلام آباد آج کی نسبت زیادہ سرسبز اور زیادہ سرد ہوا کرتا تھا، ایسے میں دوستوں کی منڈلی جو میلوڈی مارکیٹ میں ایک ٹی اسٹال پر لگتی تھی، شجاع الدین اس منڈلی کے روح رواں تھے، دوستوں کی اس منڈلی میں راقم کے علاوہ اسلم ڈوگر، جو آج اسلام آباد میں اعلیٰ پائے کا صحافی اور دانشور مانا جاتاہے، وہ ہی مجھ بے روزگار کو اسلام آباد لے کر گیا۔
اسلم خان، آج کی صحافت میں اس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، اس سے پہلی بار شناسائی بھی اسلام آباد میں ہوئی، وہ اسی اخبار میں سینئر رپورٹر تھا، نیوز ایڈیٹر سے لے کر سب ایڈیٹرز تک کہتے تھے، "اسلم خان کی خبر میں زبان و بیان اتنا پختہ ہے کہ خبر میں ایک لائن بھی ایڈیٹ کرنا مشکل ہے"۔ وہ بے بدل رپورٹر اور طرحدار کالم نویس ہے۔ پھر نذیر احمد اولکھ، انتہائی ملنسار اور شریف انسان۔ عبدالحمید تبسم تھا، بہت پیارا آدمی اور دوست، خالدمحمود میرے ساتھ ڈیسک پر بیٹھتا تھا، اب وہ ایکسپریس اسلام آباد کا سنئیر اور باخبر رپورٹر ہے اور علی شیر۔ فی الحال یہی نام ذہن میں آ رہے ہیں، باقی دوستوں سے معذرت، اﷲ کریم ان سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔
ہم دوستوں کی یہ منڈلی اکٹھی رہتی تھی، ہماری پہلی رہائش اسلام آباد کے پوش ایریا میں "گلشن جناح" نامی فلیٹس میں تھی، یہاں ایم این ایز کو رہائش کے لیے فلیٹ الاٹ ہوتا تھا۔ اخبار کے مالک وچیف ایڈیٹر، جو اس وقت رکن قومی اسمبلی بھی تھے، انھوں نے لاہور سے آئے ہوئے صحافیوں کو عارضی طور پر رہائش کے لیے اپنا فلیٹ دے دیا تھا تاکہ لاہوری صحافیوں پر مکان کے کرائے کا بوجھ نہ پڑ ے۔ کچھ عرصے کے بعد اس پوش ایریا کو چھوڑ کر ہم سب راول ڈیم کے ساتھ ایک رہائشی آبادی میں تین مرلے کے گھر میں منتقل ہو گئے، یہ چھوٹا سا گھر تھا، سات آٹھ دوست مل کر کرایہ دیتے۔ کھانا پینا امریکن سسٹم کی طرز پر تھا۔ یہاں گزرے ایام بھی زندگی کی کتاب پر ہمیشہ ثبت رہیں گے۔
ان دنوں کی محفلوں کی یادوں کے چراغ جلانا شروع کروں تو دل واپس آنے کو نہیں کرتا، کاش! ماضی بھی لوٹ کرآتا، مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکتا۔ مجھے مشہور پنجابی فلم "عشق نہ پچھے ذات" کے ایک انمول گیت کا مکھڑا یاد آرہا ہے۔ اس گیت کو حزیں قادری نے لکھا، وجاہت عطرے نے اسے کمپوز کیا اور میڈم نور جہاں کی آواز نے گیت کے ایک ایک مصرعے کو لازوال بنا دیا۔ آپ بھی پڑھیے!
وگدی ندی دا پانی
اینج جا کے مڑنئیں آندا
جا کے جیویں جوانی
(ندی میں بہنے والا پانی کبھی واپس نہیں آتا، جیسے گزری ہوئی جوانی کبھی واپس نہیں آتی)
آصف علی فرخ بھی اسی راستے کا مسافر بن گیا ہے۔ آج کا کالم آصف علی فرخ کے نام ہے۔ دوستو! آپ کو میرے اور آصف علی فرخ کے درمیان پہلی ملاقات سے لے کر دوستی تک کے دورانیے کا بخوبی اندازہ تو ہو گیا ہوگا۔ قصہ کچھ یوں ہے، میں اسلام آباد سے لاہور واپس آ گیا، میرا اور آصف فرخ کا رابطہ بالکل ختم ہو گیا۔
اسلام آباد میں بھی اس سے صرف دفتری اوقات میں ہی ملاقات ہوتی تھی کیونکہ وہ ہماری رات کی محفلوں سے دور رہتا تھا۔ اس کی رہائش بھی الگ تھی، وہ ایک سادہ اور صاف ستھری زندگی گزارنے والا ایک خود دار انسان تھا۔ میرے لاہور واپس آنے کے بعد اس سے کبھی بات نہیں ہوئی۔ پھر ایک روز ایسا ہوا، میں گھر سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی میری گلی میں داخل ہوتاہے، تھوڑا نزدیک آتا ہے تومیں بے اختیار نعرہ بلندکرتا ہوں، "اوئے آصف علی فرخ تو"۔ پھر "اوئے آصف اور اوئے لطیف " کی بے ساختہ آواز کے ساتھ ہم بغل گیر ہوجاتے ہیں۔ وہ مجھ سے اور میں اس سے سوال کرتا ہوں۔
"اوئے تم یہاں "۔ میں جواب دیتا ہوں، "جناب سید صاحب! میں اپنے گھر کے باہر کھڑا ہوں "۔ پھر اس نے بتایا کہ اس نے میرے گھر سے چند گز آگے ایک گھر کرائے پر حاصل کیا ہے، اور فیملی بھی ساتھ ہے۔ تب مجھے اس کی شادی کا علم ہوا، پھر وہ جتنے دن وہاں رہا، ہماری روزانہ ملاقات ہوتی۔ چند ماہ کے بعد وہ ہماری گلی چھوڑ گیا اور گلشن راوی لاہور کے قریب کسی آبادی میں شفٹ ہو گیا، یوں ہمارا روزانہ ملاقات کا تسلسل ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔
ہماری تیسرے روزانہ ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت پھر جڑ گیا، جب ہم روزنامہ ایکسپریس لاہور میں اکٹھے ہوئے، یوں ہر روز ملاقات ہوتی تھی۔ یہاں سے ہی پرانی شناسائی دوستی میں تبدیل ہوگئی، جو اس کے دنیا چھوڑ کر جانے تک برقرار رہی، اس کے ساتھ گزارے لمحات اور ٹیلی فونک گفتگو کے چراغ میرے ذہن کی اسکرین پر کہکشاں بن کر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔
آصف علی فرخ اتنی جلد ہمیں چھوڑ جائے گا، مجھے اس کا یقین نہیں تھا۔ 13نومبر کو اس نے واٹس ایپ پر ایک وائس میسج بھیجا، جس میں وہ کہہ رہا تھا "میری طبیعت چار پانچ روز سے سخت خراب ہے، اب دو دن سے تو سانس پھولنا شروع ہو گیا ہے، میں چل بھی نہیں سکتا، میں آج کورونا ٹیسٹ کرانے جا رہا ہوں، میرے لیے دعا کریں "۔
آخر میں اس نے پھر دہرایا! میرے لیے دعا کریں۔ گزشتہ روز اس نے اپنی میڈیکل رپورٹ وٹس ایپ کر دی جس میں کورونا پازیٹو دکھایا گیا تھا، میں نے اسے حوصلہ بلند رکھنے جیسے روایتی جملے واٹس ایپ پر بھیجے لیکن پھر کسی فون کال اور میسج کا جواب نہیں آیا۔ دل میں وسوسے آتے رہے لیکن میں انھیں ذہن سے جھٹک دیتا۔ میں یہی سمجھتا رہا، اسے کچھ نہیں ہوگا، ہم اس کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ ابھی وہ جوان ہے، کورونا سے جنگ آسانی سے جیت لے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ لگتا ہے، اب تو ہماری دعاؤں میں بھی تاثیر نہیں رہی۔ آصف فرخ چلا گیا، ایک روز ہم نے بھی چلے جانا ہے، یقیناًایک روز اس سے ملاقات ضرور ہوگی۔ مجھے حضرت میاں محمد بخش کے چند شعر بے طرح یاد آرہے ہیں۔
چٹا کاغذ داغی ہویا، پھر ی سیاہی غم دی
دکھاں کیتا زور محمد لئیں خبر اس دم دی
(سفید کاغذ پرغم کا داغ لگ گیا، غم کی سیاہی کاغذ پر پھیل گئی۔ غموں نے اتنا نڈھال کر دیا ہے محمد! اب خبر نہیں ہے دم کی)
……………
جااوئے یار حوالے رب دے، میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے
(اے دوست تمہیں رب کے حوالے کر دیا کیونکہ زندگی کے میلے چار دنوں کے ہیں۔ اب عید مبارک کہیں گے جب جنت میں اکٹھے ہوں گے)