زمانہ کتنی ہی ترقی کرلے، حالات چاہے جو بھی ہیں اور سہولتیں چاہے جتنی بڑھ جائیں، چند ایک معاملات میں دنیا ویسی کی ویسی رہتی ہے۔ معاشی جدوجہد ہر انسان کا بنیادی فریضہ ہے اور ناگزیر ہے۔ معاشی جدوجہد ہی زندگی میں معنویت پیدا کرتی ہے۔ بے مصرف بیٹھے رہنے سے انسان کا ذہن الجھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں جس طرف بھی نظر دوڑاتے ہیں لوگ کچھ نہ کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملتا انہی کو ہے جو کچھ کرتے ہیں۔ بے مصرف بیٹھے رہنے والوں کے لیے بے توقیری کی زندگی ہوتی ہے۔
ہر دور کا انسان زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے سرگرداں رہا ہے اور اس میں بظاہر کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ معاشی جدوجہد کے ذریعے اچھا کمانا ہر انسان کے لیے افضل ہے۔ اللہ نے بھی اس بات کو پسند کیا ہے۔ انبیا بھی تجارت کرتے رہے ہیں۔ اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ انسان بھرپور جدوجہد کے ذریعے، حلال طریقوں سے کمائے اور اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ناداروں کی مدد بھی کرتا رہے تاکہ وہ بھی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکیں۔
انسان کے لیے کسی بھی دور میں کمانا آسان نہ تھا۔ آج بھی نہیں۔ ہر دور کے انسان نے بہت سے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ کمایا ہے اور اپنا معیارِ زندگی بلند کیا ہے۔ فی زمانہ زیادہ کمانا انتہائی دشوار امر ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض معاملات میں انسان زیادہ محنت کیے بغیر بھی بہت کچھ پالیتا ہے مگر خیر، یہ استثنائی معاملات میں ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر تو ہر انسان کو بھرپور جدوجہد کرنا پڑتی ہے، دن رات ایک کرنا پڑتے ہیں۔ ایسا کیے بغیر اپنے لیے باعزت مقام یقینی بنانا ممکن نہیں ہو پاتا۔
کام کا دباؤ تو ہر دور کے انسان کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ آج کا انسان اس معاملے میں انوکھا نہیں مگر ہاں، فی زمانہ کام کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ 24/7 کے کلچر نے ہر انسان تک ہر وقت رسائی ممکن ہی نہیں، آسان بنادی ہے۔ بہت سے شعبے ایسے ہیں جن سے وابستہ افراد سے اُن کے آجر یا افسرانِ بالا کسی بھی وقت رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ کیفیت انسان کو ہمیشہ پریشان رکھتی ہے۔ جب کسی سے کسی بھی وقت رابطہ کیا جاسکتا ہو تو اُس کے لیے آرام کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج کل بعض شعبوں میں زیادہ کام لینا بہت آسان ہوگیا ہے۔ بنیادی ڈھانچا ایسا ہے کہ لوگ گھر پر بھی اچھا خاصا کام کرسکتے ہیں۔ کہنے کو یہ سہولت ہے مگر اب اذیت میں تبدیل ہوچکی ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں تو سب جی بھرکے مزے کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں معاوضہ اچھا ملتا ہے مگر کام کا دباؤ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ دن رات ایک کرتے ہیں تب کہیں جاکر ڈھنگ سے جینا نصیب ہو پاتا ہے۔ حکومتیں اعلیٰ ترین سہولتیں دیتی ہیں مگر اِس کے عوض وہ انسان کو نچوڑ بھی تو لیتی ہیں۔ آجر اچھے معاوضے کے ساتھ معیاری سہولتیں بھی دیتے ہیں مگر دوسری طرف وہ انسان کی صلاحیت و سکت کو پوری طرح نچوڑنے پر بھی تو کمربستہ رہتے ہیں۔
آج کے انسان پر کام کا دباؤ اس لیے زیادہ ہے کہ ایک طرف تو مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے اور دوسری طرف زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرآسائش بنانے والی چیزیں بہت زیادہ ہیں اور دستیاب بھی ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کا گھر جدید ترین ٹیکنالوجیز کی حامل چیزوں سے بھرا رہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان کی آمدنی زیادہ ہو۔ آمدنی زیادہ اُسی وقت ہوسکتی ہے جب انسان زیادہ اور بہتر کام کرے۔ بہت سے لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں مگر چونکہ اُن کی محنت عمومی نوعیت کی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے وجود کو تو گِھس دیتے ہیں مگر زیادہ کما نہیں پاتے۔
زیادہ کمانے کے لیے زیادہ ہنرمند ہونا پڑتا ہے۔ یہ بھی کوئی آسان مرحلہ نہیں۔ ہم پرسنل برانڈنگ اور کسٹمائزیشن کے دور میں جی رہے ہیں۔ جو لوگ زیادہ کمانا چاہتے ہیں اُنہیں اندازہ ہے کہ اِس کے لیے بہت کچھ سیکھنا بھی پڑے گا۔ سیکھنے کا عمل بھی انسان کو نچوڑ لیتا ہے۔ بہت سے لوگ اس عمل کے دوران ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔
ترقی یافتہ معاشروں میں مسابقت کچھ اور ہے اور ترقی پذیر یا پس ماندہ معاشروں میں مسابقت کا حساب کتاب الگ ہے۔ زندگی سبھی کا امتحان لے رہی ہے۔ ہر معاشرے کے لیے دُکھ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دُکھوں کی نوعیت الگ الگ ہے اور شدت بھی۔ مکمل آرام دہ زندگی بسر کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔
معاشی جدوجہد پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی لوگ اپنے لیے زیادہ سہولتوں سے مزین زندگی کا اہتمام نہیں کر پارہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے کی جنگ جیتنا سب کے بس کی بات نہیں۔ لوگ اس لڑائی میں کھپ جاتے ہیں۔ سوال صرف زیادہ کام کرنے کا نہیں ہے۔ کام پیچیدہ تر بھی تو ہوتا جارہا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز نے ہر انسان کے لیے بہت کچھ سیکھنا لازم بھی تو کردیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ سیکھنے کے چکر میں لوگ اپنی صحت داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں اور پھر معقول حد تک آرام نہ ملنے کے باعث اُن کے لیے زندگی صرف دردِ سر ہوکر رہ جاتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں بھی لوگوں کو ڈھنگ سے زندہ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کمانا پڑتا ہے اور اس کے لیے زیادہ کام کرنا بھی لازم ہے۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہوں جو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر بھی کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ اُن کے کام کی نوعیت کیا ہے اور وہ کتنا کام کس طرح کرتے ہیں۔ بعض شعبوں میں زیادہ محنت سے کچھ زیادہ حاصل نہیں ہو پاتا۔ جن شعبوں میں آمدنی زیادہ ہے اُن میں مسابقت بہت زیادہ ہے۔ مسابقت کام کی نہیں، کام سیکھنے کی ہے۔ پیچیدہ تر کام انسان کو زیادہ نوازتے ہیں مگر اِس کے لیے پہلے اچھی خاصی INPUT بھی تو دینا پڑتی ہے۔ اس کے بغیر معقول OUTPUT ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔
دنیا بھر میں اسمارٹ ورک کا غلغلہ ہے۔ اسمارٹ ورک کیا ہے؟ کم وقت میں کم کام اور زیادہ معاوضہ۔ کم محنت میں زیادہ معاوضہ پانا۔ یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی بھی بچے کو تابناک مستقبل کے لیے تیار کیا جائے، اُس کے لیے حالات سازگار بنائے جائیں، مارکیٹ پر نظر رکھتے ہوئے وہ ہنر سکھایا جائے جو چلن میں ہو اور زیادہ آمدنی کا ذریعہ ہو۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ معاشی امکانات بہتر بنانے کے لیے بہت پہلے سے منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے اور اس کے لیے قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔
کسی بھی بچے کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کا معقول ترین طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ خاصی چھوٹی عمر سے اُس کی کنڈیشننگ اور اوریئینٹیشن کی جائے۔ جب کسی بچے کو تواتر سے سمجھایا جائے کہ اچھی زندگی کے لیے غیر معمولی جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اچھی تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے اور بہت سے معاملات میں قربانی بھی دینا پرتی ہے تب کہیں معاملات بہتری کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ سوال بہت زیادہ نہیں بلکہ اچھی طرح اور معقول طریقے سے کام کرنے کا ہے۔ مارکیٹ کے ٹرینڈز پر نظر ہونی چاہیے۔ جو شعبہ کامیاب ہو اُس میں آگے بڑھنے کا سوچنا چاہیے۔
چھٹی نہ ملنے پر موت
تھائی لینڈ میں 30 سالہ فیکٹری ورکر چھٹی کی درخواست مسترد کیے جانے پر طبیعت کی خرابی سے انتقال کرگئی۔ مینیجر نے بیماری پر چھٹی کی درخواست منظور کی جس پر وہ اگل ہی دن کام کے دوران اچانک گر کر زندگی کی بازی ہارگئی۔
بنکاک پوسٹ نے بتایا کہ مے نامی خاتون صوبہ سموت پرکان کی ایک الیکٹرانکس فیکٹری میں کام کرتی تھی۔ انہوں نے بڑی آنت میں سوجن کی تشخیص کے بعد میڈیکل سرٹیفکیٹ کے ساتھ پانچ دن کی چھٹی مانگی۔ چھٹی منظور ہوئی تو اس نے آپریشن کروایا۔ کچھ دن بعد طبیعت بگڑنے پر اس نے دو دن آرام کرنے کے لیے چھٹی مانگی تو مینیجر نے انکار کردیا اور میڈیکل سرٹیفکیٹ طلب کیا۔
نکال دیے جانے کے خوف سے مے اگلے دن کام پر آئی مگر صرف بیس منٹ بعد اس کی حالت بگڑی اور وہ گرگئی۔ اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی ہنگامی سرجری کی گئی۔ اگلے ہی دن خاتون نیکروٹائرنگ کولائٹس نامی پیچیدگی کی نذر ہوکر دنیا چھوڑ گئی۔
کام کے دباؤ نے خاتون کی جان لے لی
بھارت میں کام کے شدید دباؤ کے ہاتھوں ایک نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی موت پر شدید احتجاج کے بعد حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ متعلقہ اداروں نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔
عالمی شہرت یافتہ ادارے ارنسٹ اینڈ ینگ سے وابستہ 26 سالہ اینا سیبیسٹین پیرائیل کی والدہ نے بتایا کہ اُن کی بیٹی پر کام کا دباؤ بہت زیادہ تھا۔ اس نے کمپنی میں مارچ 2024 میں نوکری حاصل کی تھی۔
اینا کی والدہ انیتا آگسٹین نے ای وائی انڈیا کے چیئرمین راجیو میمانی کو خط میں بیٹی کی صحت پر کام کے دباؤ کے حوالے سے لکھا اور تفصیلات بتائیں۔ جب یہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
بھارت کی وزیر محنت نے کہا ہے کہ یہ واقعہ بہت افسوس ناک ہے اور وزارتِ محنت کارروائی کرکے انصاف یقینی بنائے گی۔ حکمراں بی جے پی کے رہنماؤں نے بھی معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ارنیسٹ اینڈ ینگ کا کہنا تھا کہ وہ ملازمین کو کام کا معقول اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔
انیتا آگسٹین نے خط میں لکھا تھا کہ ان کی بیٹی پر کام کا دباؤ بہت زیادہ تھا۔ وہ روزانہ رات گئے اور ہفتہ وار تعطیل کے دوران بھی کام کرتی رہتی تھی۔ مینیجر بہت زیادہ کام سونپتی تھی اور ہر شفٹ کے اختتام پر اضافی کام دے دیا کرتی تھی۔ وہ اوور ٹائم کے لیے بھی دباؤ ڈالتی تھی اور اتوار کو بھی کام پر آنے کا کہتی تھی۔
متواتر کام کرنے والا چل بسا
ضرورت سے زیادہ کام کرنے سے بھی انسان طبی پیچدیدگیوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ملازمین کے لیے ہفتے میں ایک چھٹی اس لیے رکھی جاتی ہے تاکہ انہیں ذہنی و جسمانی آرام حاصل ہوسکے۔
چین میں مسلسل کام کرنے والا ایک شخص شدید ذہنی و اعصابی دباؤ اور بعض اعضا میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کرگیا۔ 30 سالہ آباؤ 104 دن تک لگاتار کام کرتا رہا تھا۔ اس دوران اس نے صرف ایک دن چھٹی کی تھی۔
عدالت نے آباؤ کی موت کے لیے کمپینی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ زیادہ کام کرنے کے باعث آباؤ کی قوت مدافعت کا گراف گرتا چلا گیا اور پھر اس کے جسم میں شدید انفیکشن پیدا ہوا۔ اس موت سے سوشل میڈیا پر تند و تیز بحث چھڑگئی کہ چین میں ادارے اپنے ملازمین پر بہت زیادہ کام لے رہے ہیں جس کے نتیجے میں اپن کے دل و دماغ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
چینی قوانین کے تحت کسی بھی شخص سے یومیہ آٹھ گھنٹے اور ہفتے میں چوالیس گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جانا چاہیے۔ ہفتے میں ایک دن کی چھٹی لازم ہے تاکہ وہ بھرپور آرام کرسکے۔ عدالت نے کمپنی کو حکم دیا کہ آباؤ کے ورثا کو ہرجانے کی مد میں چار لاکھ یوآن (ایک کروڑ 50 پاکستانی روپے) ادا کرے۔