وزیراعظم عمران خان نے ملک میں صنعتکاری کے فروغ اور برآمدات میں اضافے کے لئے ہر قسم کی صنعتوں کے لئے بجلی کے "پیک آور، نرخ ختم کرنے اور اضافی بجلی کے استعمال پر 25 فیصدرعایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ چھوٹی صنعتوں کوپچھلے سال کے مقابلے میں اضافی بجلی استعمال کرنے پر50 فیصد رعایت دی جا ئے گی جبکہ تمام صنعتوں کو اگلے تین سال تک اضافی بجلی 25 فیصد کم ریٹ پر فراہم کی جائے گی اور کوئی پیک آور نہیں ہوگا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پیکیج کے اعلان سے صنعتی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ یہ دیکھا جا رہا تھا کہ انڈسٹری مہنگی بجلی کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی، کئی چھوٹی صنعتیں تو بند ہو چکی تھیں، اب وہ فیکٹریاں دو بارہ چلیں گی، پیداوار میں اضافہ، ملک کو فائدہ ہو گا۔ اب فیکٹری مالکان جو 8 گھنٹے فیکٹری چلا رہے تھے، انکی خواہش ہو گی، 16 گھنٹے چلائیں، جو 16 گھنٹے چلا رہے تھے، ان کی خواہش ہو گی، 24 گھنٹے چلائیں۔
کسی پاکستانی نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ بجلی اس طرح سے اور اتنی سستی ہو سکتی ہے۔ یہ نہ صرف صنعتوں کے لئے بلکہ عام پاکستانی کے لئے بھی چونکا دینے والی خبر ہے۔ اب ہمارے صنعتکاربھائیوں کی ذمہ داری ہے کہ اضافی بجلی کو استعمال کریں تاکہ گردشی قرضہ کم سے کم ہو سکے، دوسرا یہ کہ کچھ صنعتیں گیس پر چلتی ہیں، اب سردیوں میں گیس کی کمی ہوگی تو فیکٹر یاں بجلی استعمال کریں، اس سے فائدہ ہی ہو گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مہنگی بجلی ہماری صنعتی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے، خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں بجلی 25 فیصد مہنگی ہونے سے پاکستانی پراڈکٹس کیلئے بنگلہ دیش اوربھارت کی مصنوعات کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ اسی تناظر میں حکومت کا فیصلہ اچھا قدم ہے۔ اب امید کی جا سکتی ہے بجلی کی رعایت ملکی صنعتوں کو توانائی کی کھپت اور اخراجات سے بے نیاز کر دیگی۔
صنعتی پہیہ چلنے سے روز گار کے مواقع بڑھیں گے اور برآمدات میں اضافہ ہو گا، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ بجلی سستی کرنے سے ملک کو کیا فائدہ ہو گا، اگر تو مہنگائی میں بھی کمی آتی ہے تب تو عوام کو فائدہ ہو گا اگر اشیا کے نرخ جوں کے توں رہتے ہیں تو صنعتی شعبے کو ملنے والا ریلیف عوامی اعتماد کھو دے گا، صنعت کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو بھی مہنگائی میں خصوصی ریلیف دیکر اسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے اور جس طرح صنعتوں کیلئے بجلی کی "پیک آور" قیمت ختم کی گئی ہے اسی طرح عام صارفین کو بھی بجلی کے بلوں میں مختلف سلیبز کے تحت اور اسی طرح غیرضروری ٹیکسوں کی مد میں بڑھنے والی قیمت سے چھٹکارا دلایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ عام مارکیٹوں میں مصنوعی مہنگائی ختم کرانے کے بھی خصوصی انتظامی اقدامات اٹھائے جائیں۔ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو قانون کے سخت شکنجے میں لایا جائیگا۔ اس وقت عام آدمی کے گھمبیر تر ہوتے مسائل کے فوری حل کی جانب توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔
عام آدمی پر غربت، مہنگائی، بیروزگاری کی افتاد زیادہ ٹوٹی ہے جبکہ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی شکل میں موجود مفاد پرست طبقات نے بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کیلئے مصنوعی مہنگائی اور قلت پیدا کی، چنانچہ حکومتی ریلیف پیکیجز اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات کے باوجود عوام مہنگائی کے آئے روز اٹھنے والے سونامیوں کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکے۔ آج عوام کو خوفناک مہنگائی ہی نہیں، انتہا درجے کی غربت اور بے روزگاری کا بھی سامنا ہے جس کے باعث ان میں حکومتی گورننس کے حوالے سے بدگمانی اور غم و غصہ بھی بڑھ رہا ہے عوام کو انکے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل سے نکال کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔ بجلی سستی ہونے سے فیکٹریاں چلیں گی، بر آمدات میں اضافہ ہوگا، ملک میں پیسے آئیں گے۔ دولت میں اضافہ اور روپے کی قدر مضبوط ہوگی، جس کے نتیجے میں ہم اپنے قرضوں کی ادائیگی کرسکیں گے۔ برصغیر میں پاکستان وہ ملک ہے جس کی بر آمدات وبا کے اثرات سے تیزی سے باہر آئیں اور ویسے بھی پاکستان وبا کی صورتحال سے سب سے بہتر طور پر نمٹا ہے جس کا دنیا نے اعتراف کیا ہے۔
ملک میں سیاسی درجہ حرارت جتنا مرضی بڑھ جائے لیکن عام پاکستانیوں کے لئے جو چیز اہم ہے وہ ہے سستی چیزیں، روز گار، 22 کروڑ پاکستانیوں کیلئے روز گار کے مواقع ہوں، مہنگائی قابو میں ہو، انکی آمدن میں بہتری آ رہی ہو اور ملک میں ترقی ہوتی نظر آ رہی ہو تو تمام پاکستانی خوش ہوں، بد قسمتی سے عوام مہنگائی کے ستا ئے ہوئے ہیں۔ حکومت کے لئے بھی مہنگائی بہت بڑا چیلنج ہے حکومت اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح عوام کو فائدہ پہنچے، اس سلسلے میں کچھ اچھی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ جیسے امریکی جریدے بلوم برگ کے مطابق پاکستان کی معیشت سنبھلنے لگی ہے، کورونا پابندیاں نرم ہونے کے بعد پاکستانی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے،۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کی ایکسپورٹ سب سے زیادہ بڑھی ہیں، ایکسپورٹ میں پاکستان نے بنگلہ دیش اور بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ستمبر میں پاکستان کی شپمنٹ ورتھ 7فیصد، بھارت کی 6 اور بنگلہ دیش کی 3.5 فیصد رہی۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان پہلا ملک ہے جس نے کورونا کی پابندیا ں نرم کیں، جس کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان سے اشیاتیار کروانا شروع کردی ہیں، پاکستان نے فیس ماسک اور دیگر اشیا بھی خود تیار کرنا شروع کردی ہیں۔ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ کی وجہ سے خریدار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی اپنی اشیا کی تیاری میں 10 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان رواں سال کے دوران شرح نمو2.1 فیصد تک بڑھانے کے لئے پر عزم ہے۔ ڈالر بھی سستا ہو رہا ہے، اوپن مارکیٹ میں ڈالر 160 روپے فروخت ہو رہا ہے اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں پاکستان کی برآمدات 2 ارب ڈالر سے زائد رہی۔ پہلی سہ ماہی میں ادویات کی برآمدات 22 فیصد بڑھی، 3 ماہ میں ادویات کی برآمدات 6 کروڑ 81 لاکھ ڈالر رہیں۔۔ یقیناً پاکستان کی معیشت میں بہتری کی گنجائش ہے اور بہتری ہوتی نظرآ رہی ہے، ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے، ٹیکسٹائل ہو سیمنٹ ہو، اسٹیل ہو فرٹیلائزر ہو، آٹو موبائل فارما سیکٹر ہو، ہر شعبہ میں بھر پور پیداواری کیفیت دیکھی جا رہی ہے، خاص طور پر کنسٹرکشن سے وابسطہ جتنے شعبے ہیں ان سب میں بہتر ی آرہی ہے، لیکن بجلی، گیس اور گردشی قرضے حکومت کے لئے تاریک ترین گوشے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ مستعدی، وہ انتھک محنت نچلی سطح پر نہیں آ رہی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت درست سمت چل پڑی ہے، گاڑیوں، سیمنٹ موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ میں اچھا خاصا اضافہ ہو رہا ہے، ٹیکسٹائل کے حوالے سے اگلے ماہ تک آرڈر بک ہیں، آج لوگوں کو نوکریاں مل رہی ہیں۔ اب ایک تو بجلی سستی ہو گئی ہے دوسرے ڈالر بھی نیچے آرہا ہے ایسے میں ملک کی چھوٹی صنعتوں کو جو اکانومی کا 35 فیصد حصہ ہیں اور ایکسپورٹ میں ان کا 6 سے 7 ارب ڈالر کا کنٹری بیوشن ہے، بہت فائدہ ہو گا۔ خدا کرے کہ ملک سیاسی استحکام کا شکار رہے، جو صنعتی و تجارتی ترقی کے لیے بنیادی شرط ہے۔ حکومت کے سارے کل پرزے عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دیں اور معاشی ترقی و استحکام کے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہو کہ یہی کسی ریاست کا بنیادی فرض ہے۔