کسی بھی ملک کی معاشی بہتری جانچنے کے دو پیمانے ہوتے ہیں، لوگوں کی انکم بڑھ جائے یا عام استعمال کی چیزیں سستی ہوں۔ وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے یہی کہتے رہے ہیں کہ غریبوں کا معیار زندگی بلند اور غربت ختم کرنی ہے۔ وہ اس سلسلے میں ہمیشہ چین کی مثال دیتے ہیں، چین70کروڑ سے زائد افراد کو غربت سے نکال چکا ہے۔
اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر اعظم نے 2سنہری خواب دکھائے۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ، اس تواتر سے ہوا کہ لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دے کر وزیر اعظم بنا دیا۔ جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت بنی، اپوزیشن نے نوکریوں اور گھروں کو اس حکومت کی چھیڑ بنا لی۔ کہاں ہیں گھر؟ کہاں ہیں نوکریاں؟ بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت بنی تو ملک کی معاشی صورت حال دگرگوں تھی، بقول حکومتی ارکان صورتحال اتنی خراب تھی کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ حالات اتنے خراب تھے کہ وہ عمران خان جو کہتا تھا، آئی ایم ایف یا کسی ملک سے قرضہ نہیں لوں گا۔ اس عمران خان کو یہ دونوں کام کرنا پڑے۔ دوست ملکوں سے قرضہ بھی لیا اور آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک بھی دی، آئی ایم ایف نے کچھ شرائط کے ساتھ قرضہ دیا، جس سے بجلی گیس اور دیگر اشیامہنگی ہو گئیں۔ وزیر اعظم نے غربت کے خاتمے کے لئے ملکی وسائل کے ذریعے لوگوں کی آمدن بڑھانے کا سوچا اور غریب لوگوں کے لئے مرغیوں اور انڈوں کے کاروبار کی سکیم شروع کی، حکومت نے دیہاتی خواتین کو مرغیاں اور انڈے فراہم کرنے کا کام کیا تاکہ وہ خواتین اپنا پولٹری کا کاروبار شروع کریں، اس سے قبل شہباز شریف بھی اپنے دور میں یہ کام شروع کر چکے تھے۔ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے بھی غربت سے نمٹنے کے لئے "مرغیاں پالو غربت مٹائو منصوبہ" شروع کیا تھا، جس کے تحت برکینا فاسو اور نائیجیریا سمیت مغربی افریقی ممالک کو ایک لاکھ چوزے عطیہ کئے گئے۔ وزیر اعظم کی" مرغی، انڈے "اسکیم کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا گیا اور یہ پروگرام شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا۔ یہ منصوبہ جاری رہتا تو لاکھوں لوگوں کی صحت اور روزگار میں خاطر خواہ فرق پڑنا تھا۔ بعدازاں کٹے، وچھے، بکریاں اور دنبے دینے کے پروگرام کا اعلان ہوا لیکن وہ بھی اعلان کی حد تک ہی رہا اور اب نہ جانے یہ سکیم کہاں ہے۔
پچاس لاکھ گھروں کی بات ہوئی تو بڑے زور شور سے اس کام کا آغاز کیا گیا۔ یہ منصوبہ 9شہروں میں شروع ہونا تھا بعدازاں اسے 19شہروں تک پھیلا دیا گیا۔ پنجاب میں 13جگہوں پر سستے گھر بنا کر عوام کو دیے جانے تھے، باقی 3صوبوں میں سندھ سے سکھر۔ بلوچستان سے کوئٹہ۔ کے پی سے سیدو شریف۔ گلگت، مظفر آباد اور اسلام آباد کو سستے گھروں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ منصوبے کا افتتاح ہوا، فیتے کاٹے گئے، لوگوں کو امید ہوئی کہ 50لاکھ نہ سہی حکومت اپنے 5سالہ دور میں 5لاکھ گھر بھی بنا دے تو اسے کامیابی سمجھا جائے گا لیکن حکومت کے پاس سرمایہ نہ ہونے، بنکوں اور نجی شعبے کی طرف سے زیادہ دلچسپی نہ لینے کے باعث، گھروں والا منصوبہ بھی کہیں گم ہو گیا۔
پنجاب میں سستے گھروں والا منصوبہ رینالہ خورد، چیچہ وطنی اور لودھراں میں شروع کیا گیا لیکن یہ منصوبہ انتہائی سست روی کا شکار ہے کیونکہ سرمائے کا فقدان ہے۔ دیگر شہروں میں ابھی زمین کا حصول مسئلہ ہے، پاکستان میں ہر سال تقریباً 15لاکھ گھروں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو بذات خود ایک مسئلہ ہے لوگوں کے ذرائع آمدن اس قدر کم ہیں کہ اگر 5 سے7مرلے کا گھر بنا کر قسطوں پر بھی دیا جائے تو ماہانہ 25 ہزار کمانے والا 10ہزار قسط نہیں دے سکتا، اگر قسط کم کر دی جائے تو اس میں بیسیوں سال لگ جائیں گے۔ اس منصوبے کو تیز کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کو چاہیے کہ دیگر منصوبوں میں مناسب کٹ لگا کران کا سرمایہ گھروں کی تعمیر کے منصوبے میں منتقل کرے، فالتو اخراجات کم کر کے سستے گھروں کی جلد تکمیل کیجائے تاکہ لوگوں کا ذاتی گھر کا خواب پورا ہو سکے۔
حکومت کو امید تھی کہ گھروں والا منصوبہ شروع ہو گا، تو اس سے 40صنعتوں کو فائدہ ہو گا، لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا، اس سے غربت کم ہو گی۔ یہ سب خواب بن کر رہ گیا۔ اسی دوران وزیر اعظم عمران خان نے قرضہ حسنہ سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس سکیم کے تحت غریب اور مستحق فیملی کو 80ہزار ماہانہ دیا جانا تھا، اس رقم سے غریب لوگ کاروبار کرتے اور بڑی حد تک غربت میں کمی ہوتی، اس سکیم کے لئے 5ارب روپے رکھے گئے۔ بدقسمتی سے یہ منصوبہ بھی فائلوں کی نذر ہو گیا۔
سوہاوہ کے قریب القادر یونیورسٹی بنانے کا بھی اعلان کیا گیا، اس کا سنگ بنیاد بھی وزیر اعظم نے رکھ دیا تھا، وہ پراجیکٹ کہاں تک پہنچا؟ عوام تو دور کی بات، صحافیوں کو بھی اس کا علم نہیں ہو گا۔ ہر منصوبے کو افتتاح کے بعد خفیہ رکھا جاتا ہے۔ حکومتی ترجمان میڈیا میں آ کر ان منصوبوں کا بتاتے ہیں نہ ہی میڈیا پر ان کی تشہیر کی جاتی ہے۔ شریف برادران کوئی بھی منصوبہ شروع کرتے وقت، اس کا اتنا ڈھنڈورہ پیٹتے تھے کہ لوگوں کو وہ کام ازبر ہو جاتے تھے۔ موجودہ حکومت ہر کام خفیہ رکھ رہی ہے، پھر میڈیا کو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ حکومتی مثبت کاموں کو اجاگر نہیں کرتا۔
وزیر اعظم عمران خان چین کے ساتھ ریاست مدینہ کا بھی ذکر کرتے ہیں، اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ عمران خان کو حکومت میں آئے 2سال ہو گئے لیکن ابھی تک کوئی بھی جامع منصوبہ شروع نہیں ہو سکا۔ آخر رکاوٹ کہاں ہے؟ عمران خان اتنے اچھے منصوبے کا اعلان کرتے ہیں لیکن وہ کام شروع نہیں ہوتے۔ عمران کے ان منصوبوں میں کون رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ سرمایہ دار، وزرائ، بیورو کریسی یا کوئی اور ادارہ۔ آخر وزیر اعظم کے منصوبوں کو پذیرائی کیوں نہیں مل رہی ہے۔
پاکستان میں تقریبا 9کروڑ افراد غریب ہیں، جو آبادی کا 48فیصد بنتے ہیں، پاکستان میں غربت قدرتی نہیں، اللہ نے اسے ہر قسم کے وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیاں، غربت کی بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں کچھ رکاوٹیں ضرور ہیں۔ جیسے مناسب زرعی ترقی کے بغیر صنعتی ترقی کی خواہش، چھوٹی صنعتوں کو نظرانداز کر کے بڑی صنعتوں کی ترقی کو ترجیح دینا، زرعی پیداوار کی نسبت طلب کا زیادہ ہونا، روزگار کے مواقع کم اور آبادی میں زیادہ اضافہ۔
وزیر اعظم عمران خان کو ان تمام عوامل کو دیکھنا ہو گا، کوئی مضبوط فیصلہ کرنا ہو گا، ابھی تک توکوئی ایسا پراجیکٹ شروع نہیں ہوا، پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا، جو لوگوں کو نظر آئے اور مخالفین کے منہ بند کر سکے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ پاکستان جو چیرٹی یعنی خیرات کرنے میں پانچویں نمبر پر ہو، وہ غربت میں 188ممالک میں 147ویں نمبر پر ہے۔ ذرا سوچئے۔