پاکستان میں معیشت، صنعت، کاروبار ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر عروج پر ہے، بہترین پرفارم کر رہا ہے بہترین کار کردگی نظر آ رہی ہے، یہ پکی گواہی ہے کہ کاروباری تجارتی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ سیمنٹ گلاس آٹو موبیل آئل اینڈ گیس فارما سیکٹر ان تمام شعبوں میں ریکارڈ پیداوار نظر آ رہی ہے بھرپور پیداوار ہو رہی ہے اوربھرپور منافع بھی ہو رہا ہے۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ کمپنیوں نے چوتھی سہ ماہی میں سالانہ بنیاد پر اوسطاً 36 فیصد منافع کمایا۔ مختلف سیکٹرز نے سال 2020 میں 672 ارب رو پے کا خالص منافع کمایا جو 2012 کے بعد سب سے زیادہ منافع ہے۔ گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں سیمنٹ سیکٹر نے 548 فیصد زیادہ منافع کمایا، آٹو موبیل سیکٹرکے منافع میں 192 فیصد اضافہ ہوا، آئل اینڈ گیس مارکیٹنگ کے منافع میں بھی 137 فیصد اضافہ ہوا۔
کھاد سیکٹر نے 100 فیصد زائد منافع کمایا اور فارما سیکٹر میں 78 فیصد زیادہ منافع کمایا۔ یہ ساری لسٹڈ کمپنیاں ہیں ان کا ریکارڈ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے یہ ایک بڑی گواہی ہے کہ پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر بھر پور انداز میں کام کر رہا ہے گو، یا کہ معیشت، کاروبار ایک بہت ہی مضبوط اور مستحکم سمت میں آگے کی جانب گامزن ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی اکانومی کی بہتری دیکھنے ہوتو تو کارپوریٹ سیکٹر کی آمدنی دیکھی جاتی ہے جس طرح دیکھا گیا کہ لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں چھ ماہ میں 8 سے 9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں جو کمپنیاں لسٹڈ ہوتی ہیں ان کا ڈائریکٹ تعلق اکانومی سے تو ہوتا ہی ہے لیکن ان کا زیادہ تعلق لارج اسکیل مینو فیکچرنگ سے بھی ہوتا ہے، یہ جو 30 سے 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ اکانومی میں شارپ ریکوری ہو رہی ہے اس کا سب سے بڑا سبب یہ بھی دیکھا گیا کہ کہ انٹرسٹ ریٹ بہت ہی کم ہے، کرنسی مستحکم رہی اور دوسری جانب ہم کورونا سے بہت جلد باہر آ گئے اور کورونا میں جو 2 تین ماہ ڈیمانڈ کم ہو گئی تھی وہ ساری طلب ستمبر، اکتوبر، نومبر میں دیکھنے کو ملی۔
ہوتا یہ ہے کہ 50 فیصد تک منافع کمپنی خود رکھ لیتی ہے اور اس سے کارو بار کو مزید پھیلاتی ہیں جس سے ملک میں ترقی ہوتی ہے اور روز گار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو فائدہ یہ ہوتا ہے دوسرا یہ ہوتا ہے کہ ایک اوسط کمپنی اگر 100 روپے کماتی ہے تو 40 سے 50 روپے وہ ڈیویڈنڈ دیتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن شئیر ہولڈرز کو وہ پیسے دیتی ہے تو وہ بھی اس کو استعمال کرتے ہیں، خواہ وہ کنسٹرکشن میں ہو یا انڈسٹری میں، تو اس کے بھی ان ڈائریکٹ فائدے معیشت کو ہی ہوتے ہیں۔
کورونا کے بعد پاکستان میں ایک چیزبلیسنگ ہو گیا ہے، کافی چیزیں بہتر ہو گئی ہیں جو ان لسٹڈ بڑی بڑی کمپنیاں ہیں، انکے منافع میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ وہی ہے کہ انٹرسٹ ریٹ کم اور رو پے کی ویلیو مستحکم ہوئی ہے، لیکن پاکستان میں انٹرسٹ ریٹ زیادہ دیر تک کم نہیں رہتا سال دو سال بعد اس میں اضافہ کردیا جاتا ہے کبھی کرنسی گر جاتی ہے۔
ابھی تک جن کمپنیوں کوبھی فائدہ ہوا ہے وہ کرنسی مستحکم ہونے سے ملا ہے۔ یہ ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ ایک طرف تو ہم ملکی معیشت میں استحکام دیکھ رہے ہیں دوسری طرف ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہو رہا ہے اور ابھی تک 7 سے8 فیصد مستحکم ہو چکا ہے بہت ساری کمپنیاں اپنا خام مال درآمد کرتی ہیں وہ خام مال جو مہنگا آتا رہا ہے پچھلے دو تین سال میں اب وہ سستا ہونا شروع ہو گیا ہے، جس طرح گاڑیوں کی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں ایک تو گاڑیوں کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے، دوسری جانب جن گاڑیوں کے پرزے جاپان یا چین سے آتے تھے وہ اب سستے آ رہے ہیں تو اس طرح ان کمپنیوں کو دوہرا فائدہ ہو رہا ہے کہ ان کا والیم بھی بڑھ رہا ہے اور مارجن بھی۔
اسٹاک مارکیٹ نے کوویڈ کے بعد 28000 سے لیکر 47000 تک بہت ہی مضبوط ریکوری کی ہے، البتہ فروری کے مہینے سے اور مارچ کے کچھ دن مارکیٹ کچھ ڈائون ہے اس کی وجہ ایک تو مہنگائی بڑھ رہی ہے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انٹرسٹ ریٹ اس سطح پر نہ رہے اور کچھ بڑھانا پڑے اور دوسرا جو سیاسی ماحول تیز ہو گیا ہے ایک ماہ پہلے نہیں لگتا تھا کہ سیاست اتنی تیزی سے بدلے گی اور ماحول گرم ہو گا اس کا بھی اسٹاک مارکیٹ پر اثر پڑا ہے۔
آنے والے دنوں میں دو اہم چیزیں ہونے والی ہیں ایک تو یہ کہ سیاسی صورتحال کیا ہوتی ہے اور دوسرا آئی ایم ایف سے جو قسط ملنے والی ہے اس کے ساتھ آئی ایم ایف ایک تفصیلی ڈاکیو منٹ بھی ایشو کرتا ہے جو بتاتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی اور کرنسی کی کیا صورتحال ہے، ہو سکتا ہے اس وقت مارکیٹ کی صورتحال کچھ بہتر ہو اسٹاک مارکیٹ میں کچھ حالات سیاست سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایک خدشہ تھا کہ وزیر اعظم رہتے ہیں یا نہیں وزیر خزانہ رہتے ہیں یا نہیں وہ صورتحال تو ختم ہو گئی حکومت کو ابھی کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔
جو نئے انویسٹر آئے ہیں ان کو علم ہی نہیں کہ اعتماد کا ووٹ کیا ہوتا ہے جب بھی کوئی نئی چیز ہوتی ہے، چاہے وہ سیاست میں ہو یا معیشت میں، غیر یقینی کی کیفیت ضرور پیدا ہو تی ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کاروں کے لئے کام کرنا مشکل ہوتا ہے، برآمدات کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ کاروبار کا دور ہے اور کارپوریٹ سیکٹر ہی اصل حکمران ہے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک وہ ہیں جن کے تاجر خوشحال ہیں۔ اگر آپ دنیا کو اپنی چیزیں بیچ نہیں سکتے تو آپ چاہے بے پناہ ذخائر کے مالک ہی کیوں نہ ہوں آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوسکتے۔
ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں معاشی سرگرمیاں کم عرصے تک بند رہی ہیں۔ ہندوستان اور چین میں ہونے والے نقصان کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کے بیشتر آرڈر چین اور ہندوستان سے کٹ کر پاکستان کو ملے ہیں، لیکن برآمدات میں مطلوبہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔